• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کو طویل عرصے سے موسمیاتی تبدیلی کے شدیداثرات اور سنگین اقتصادی مسائل کا سامنا ہے جن پر قابو پانے کے لیے بڑے پیمانے پر فوری سرمایہ کاری اور صنعتی شعبے کو ماحول دوست بنانے کی ضرورت ہے۔ بیرونی و اندرونی قرضوں کے بھاری بوجھ اور ساختیاتی مسائل کے باعث پاکستان کی معیشت پہلے ہی عدم استحکام سے دوچار تھی۔ کووڈ۔19، اس کے بعد یوکرین کی جنگ کے اقتصادی اثرات اور پھر2022کے سیلاب نے ملک کی اقتصادی مشکلات میں اور بھی اضافہ کر دیا ہے۔

پاکستان کے مسائل یہیں تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس کا شمار طویل مدتی موسمیاتی تبدیلیوں کے سنگین خطرات کا سامنا کرنے والےسرِ فہرست دس ممالک میں بھی ہوتا ہے۔

یہ ممالک تواتر سے شدید گرمی، خشک سالی، شدید بارشوں اور سیلاب کی زد میں رہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے بین الحکومتی ادارے، 'کانفرنس برائے تجارت و ترقی(یو این سی ٹی اے ڈی) نے صنعت، زراعت اور نقل و حمل کے شعبوں میں ماحول دوست اقدامات اٹھانے کے ساتھ پائے دار سرمایہ کاری کو پاکستان کے ان مسائل کا حل قرار دیا ہے۔ لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم اس ضمن میں کچھ سیکھنے اور سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ چناں چہ گزشتہ برس بھی ہم موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی انحطاط کے شدید اثرات کا شکار رہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان کے پاس ان مسائل پر قابو پانے کے لیے درکار مالی وسائل، پالیسی اور ٹیکنالوجی کا فقدان ہے۔ 'وہ کہتے ہیں کہ ملک میں سرکاری و نجی مالیاتی ذرائع کو مضبوط بنانا اور انہیں درست مدد کی فراہمی بہت ضروری ہے۔

اسموگ

گزشتہ برس صوبہ، پنجاب میں موسم سرما کے آغاز میں ہی اسموگ نے اثرات دکھانا شروع کر دیے تھے اور سال کے اختتام تک لاہور سمیت مختلف شہروں میں ایئر کوالٹی انڈیکس بہت خراب تھا۔ لاہورکے ساتھ کراچی میں بھی ہوا کا معیار بعض ایّام میں دنیا میں سب سے بُرا تھا۔ چناں چہ پاکستان کے بہت سے شہری اسموگ سے بری طرح متاثر تھے اور اس کے اختتام پر بھی ایسا ہی تھا۔

ماہرین کے مطابق اسموگ کے تدارک سے متعلق ٹھوس اقدامات اور ماحولیاتی پالیسی پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے نئے سال میں بھی مسائل کا سامنا رہے گا۔خصوصا پنجاب میں بسنے والے شہریوں کی اوسط عمر کم از کم سات برس کم ہوسکتی ہے۔ اسموگ اور فضائی آلودگی شہریوں کی صحت کے لیے دوسرا سب سے بڑا خطرہ ہے جو نئے سال میں بھی برقرار رہے گا۔

نومبر کے مہینے میں لاہور اور ملتان کے دو ہفتوں سے شدیدا سموگ کی لپیٹ میں رہنے کے بعد اس فہرست میں پشاور اور اسلام آباد بھی شامل ہو گئے تھے۔

اگرچہ لاہور جیسے شہروں میں سال بھرہوا کا معیار بہت خراب رہتا ہے، لیکن اکتوبر سے جنوری کے درمیان یہ مہلک حد تک گر جاتا ہے اور اکثر اوقات ایئر کوالٹی انڈیکس 500 سے بھی زائد ریکارڈ کیا جاتا ہے۔

اسموگ سے نمٹنے کے لیے حکومت کی حکمت عملی اب تک یہی رہی ہے کہ اسکولز بند کردیے جائیں اور مخصوص علاقوں میں لاک ڈاؤن کردیا جائے۔ بچوں اور دیگر کم زور افراد کو عوامی مقامات سے دور رکھ کر مہلک ہوا سے بچانا معقول بات ہے، لیکن گھروں میں بھی تو ہوا کا معیار اچھا نہیں ہوتا۔لہذا یہ مسئلے کا مکمل حل نہیں۔

چونکہ اب صورت حال ہم پر پوری طرح واضح ہوچکی ہے لہذا اس مسئلے کے حل بھی ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ایندھن کے معیار میں بہتری، دھواں خارج کرنے والی گاڑیوں کے لیے سخت فٹنیس کے معیارات، صنعتوں کے لیے سخت ضوابط اور سڑکوں پر رواں گاڑیوں کی تعداد کم کرنے کے لیے عوامی ٹرانسپورٹ کے بڑے نظام کا قیام۔ 

یہ ایسے اقدامات ہیں جو بیسویں صدی میں فضائی آلودگی کے شکار شہروں نے اٹھائے تھے۔ موجودہ دور میں تو ہمارے پاس یہ آپشنز موجود ہیں کہ ہم نئی توانائی، جیسے بجلی سے چلنے والے ذرائع آمد و رفت استعمال کریں تاکہ فضا میں بڑھتی آلودگی کے مسئلے کو کم سے کم کیا جاسکے۔

لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ملک میں 2018سے الیکٹرک بسیں لانے کی بات ہو رہی ہے، لیکن اس ضمن میں کچھ زیادہ پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ پھر ہزاروں الیکٹرک موٹر سائیکلز منگوانےکی بات ہوئی، لیکن اس ضمن میں بھی کام کی رفتار بہت سست ہے۔ 

لاہور سمیت مختلف شہروں میں چنگ چی رکشے بند کر دیے گئے لیکن متبادل کیا ہوگا؟ کیا انہیں الیکٹرک رکشے دیے جائیں کے؟ اس بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے۔ اسی طرح پنجاب میں ایئرکوالٹی مانیٹرنگ کے آلات نصب کرنے کا پراجیکٹ 2018میں شروع کیا گیا تھا جو آج تک مکمل نہیں ہوسکا ہے۔ ورلڈ بینک کے اشتراک سے جاری یہ منصوبہ2025میں ختم ہوجائے گا۔

اطبّا کہتے ہیں کہ کہ نزلہ، کھانسی، گلے کی خرابی، سانس لینے میں تکلیف اور آنکھوں میں جلن وہ ظاہری علامات ہیں جو اسموگ کے باعث ہر عمر کے شخص کو بری طرح متاثر کرتی ہیں۔

اسموگ انسانی صحت کو ایسے نقصانات بھی پہنچاتا ہے جوبہ ظاہر فوری طور پر نظر نہیں آتے، ان میں پھیپھڑوں کی خرابی اور سرطان قابلِ ذکر ہے۔ یاد رہے کہ بچّے اور بوڑھے اسموگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فضائی آلودگی سے نمٹنا ایک پے چیدہ اور طویل المدتی چیلنج ہے، لیکن صحتِ عامہ اور ماحول کے تحفظ کے لیے فیصلہ کن اقدامات اٹھانا ضروری ہیں۔

ہیٹ ویوو

اسموگ تو موسمِ سرما کا مسئلہ ہے، لیکن پاکستان میں موسمِ گرما بھی کئی مسائل ساتھ لے کر آتا ہے جس میں وقفے، وقفے سے آنے والی گرمی کی شدید لہریں، یعنی ہیٹ ویوو سرفہرست ہے۔

گزشتہ برس ملک میں شدید گرمی کا آغاز مئی کے وسط سے ہو چکا تھا۔ محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی تھی کہ 23 مئی سے ملک کے بیش تر علاقوں، بالخصوص پنجاب اور سندھ میں ہائی پریشر کی موجودگی کے سبب گرمی کی لہر مئی کے اواخر تک جاری رہ سکتی ہے۔

پھر ایسا ہی ہوا اور مئی کے آخری ہفتے سے جون کی ابتدائی تاریخوں تک پنجاب، سندھ، اسلام آباد، خیبر پختون خوا، پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر، گلگت بلتستان اور بلوچستان میں درجہ حرارت معمول سے چار سے چھ ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہا۔

گرمی کی اس شدید لہر کے دوران جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے بعض اضلاع میں درجۂ حرارت 52ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر چکا تھا۔ جون کے تیسرے ہفتے میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے سرد خانوں میں معمول سے زیادہ لاشیں لائی جا رہی تھیں۔ 

امدادی اداروں کا کہنا تھاکہ بیس تا چھبّیس جون 650 سے زائد لاشیں سرد خانوں میں منتقل کی گئی تھیں۔ زیادہ تر لاشیں شہر کے گنجان علاقوں سے سرد خانوں میں لائی گئی تھیں۔

یاد رہے کہ اُس وقت ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی سورج سوا نیزے پر تھا اور جہاں شدید گرمی شہریوں کو پریشان کر رہی تھی وہیں شہر میں اعلانیہ اور غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ نے بھی ان کی مشکلات میں اضافہ کر دیاتھا۔ 

اُن دِنوں شہر کے مختلف سرکاری اور نجی اسپتالوں میں ہیٹ ویوو سے متاثرہ افراد کے لیے خصوصی طور پر انتظامات کیے گئے تھے۔ تاہم چھبّیس جون کو کمشنر کراچی، سید حسن نقوی نے کہا تھا کہ کراچی میں دو دنوں میں ہیٹ اسٹروک سے محض دس افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ 

شہر میں زائد اموات کے حوالے سے جو اعدادوشمار بتائے جا رہے ہیں اُن کی کسی ذریعے سے تصدیق نہیں ہوئی۔ محکمہ صحت، سندھ کی جانب سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھاکہ سب سے زیادہ ہیٹ ویوو کے کیسز دادو میں ریکارڈ کیے گئے، جہاں21سے 25 مئی تک 877افراد ہیٹ ویوو سے متاثر ہوئے ۔ اسی طرح شہید بے نظیر آباد میں337 کیسز رپورٹ ہوئے۔ کراچی میں سب سے زیادہ کیسز ضلع جنوبی میں ریکارڈ کیے گئے۔

اس ضلعے میں21سے 25 مئی تک کل 110 افراد کواسپتال منتقل کیا گیا اور صوبے میں واحد موت بھی اسی ضلعے میں ریکارڈ کی گئی۔ محکمے کا اٹھارہ جولائی کو کہنا تھا کہ جون سے اب تک ہیٹ اسٹروک سے انتقال کرنے والوں کی تعداد 51ہوگئی ہے۔اُس روزبھی کراچی شدید گرمی کی لپیٹ میں تھااور گرمی کی شدت 54 ڈگری تک محسوس کی جارہی تھی۔

اٹھارہ جولائی ہی کویہ خبر آئی تھی کہشہر میں گرمی بڑھتے ہی ایک بار پھر سردخانوں میں میتوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ شہر میں موجود فلاحی اداروں کے سردخانوں میں72گھنٹوں میں 250 سے زائد افراد کی لاشیں لائی گئیں۔

کراچی میں مئی کے مہینے میں ہی یہ حال تھاکہ ممکنہ ہیٹ ویو کے پیش نظر نویں اور دسویں جماعت کے امتحانات ملتوی کردیے گئے تھے۔ ثانوی تعلیمی بورڈنے اعلان کردیا تھاکہ 21سے 27 مئی کے درمیان میٹرک بورڈ کے پرچے نہیں ہوں گے۔

اسی طرح ملک میں جاری گرمی کی لہر کی وجہ سے مئی میں متعدد علاقوں میں اسکولز بند اور اسپتالوں میں ہنگامی امداد کے کاؤنٹرز کھول دیے گئے تھے۔ اُن دِنوں پنجاب کے 9، سندھ کے 13اور بلوچستان کے4اضلاع ہیٹ ویو کی لپیٹ میں تھے، جہاں درجہ حرارت معمول کے اوسط سے پانچ تا چھ سنٹی گریڈ زیادہ نوٹ کیا جا رہا تھا۔

محکمہ موسمیات کے کلائمٹ ڈیٹا پروسیسنگ سینٹر کی رپورٹ میں کے مطابق نومبر کے مہینے میں ملک بھر کا درجہ حرارت2.89 ڈگری کے اضافے کے ساتھ 20.7 ڈگری سینٹی گریڈ تک ریکارڈ کیا گیا جو کہ گذشتہ 64 برس میں نومبر کے مہینے کا بلند ترن درجہ حرارت ہے۔

بارشوں سے تباہی

اپریل کے مہینے میں غیر معمولی بارشوں، سیلاب اور آسمانی بجلی گرنے سے 53 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ ان واقعات میں پچاس سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے اور 1,400 گھر اورگندم کی فصل بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ بارشوں سے ملک بھر میں 13 سکولوں کی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا اور متعدد سڑکیں اور پل بہہ گئے۔ 

صوبہ خیبرپختون خوا اور بلوچستان کی انتظامیہ نے سیلاب کے خطرے کے پیش نظر متعدد شہروں میں مختصر مدت کے لیے ہنگامی حالت نافذ کر دی تھی،کیوں کہ زیادہ نقصانات ان ہی صوبوں میں ہوئے تھے۔

کراچی میں شدید بارشوں اور طوفانی ہواؤں کی وجہ سے 30اگست کوحکام اسکولز بند کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ یہ صورت حال بحیرہ عرب میں ایک گہرے دباؤ کے بعد پیدا ہوئی تھی جس کے بارے میں محکمہ موسمیات کا کہنا تھا کہ یہ ایک سمندری طوفان میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ 

اُس روز مقامی موسمیاتی دفترکا کہنا تھاکہ کراچی کے کچھ حصوں میں رات بھر میں147ملی میٹر بارش ہوئی۔ البتہ اُس کے اگلے روز یہ پتا چلا تھا کہ سمندری طوفان ’’اسنی‘‘ ، کراچی سے دور چلا گیا ہے جس سے پاکستان کے ساحلی علاقوں میں سمندری طوفان کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ تاہم پانچ اگست کو کراچی میں شدید بارش ہوئی جس سے سیلابی صورت حال پیدا ہوگئی تھی۔

اٍکتّیس اگست کونیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کےجاری کردہ اعدا و شمار کے مطابق یکم جولائی سے30اگست تک بارشوں سے متعلق مختلف واقعات میں285اموات ریکارڈ کی گئی تھیں۔ پھر آٹھ اگست کی صبح این ڈی ایم اے کے ایمرجنسی آپریشن سینٹر سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق بارشوں سےایک ہفتے کے دوران 74 افراد جاں بہ حق اور 179 زخمی ہوئےتھے۔ اٹھائیس اگست تک صورت حال یہ تھی کہ ملک بھر میں سیلاب اور بارشوں نے تباہی مچائی ہوئی تھی اور 27روز میں245افراد جاں بہ حق اور 446 زخمی ہو چکے تھے۔

اس سے قبل فروری میں بلوچستان اور مارچ میں کے پی کے میں شدید بارشوں کے سبب کافی جانی اور مالی نقصان ہوا تھا۔ مارچ میں ملک میں بارش و برف باری سے تباہی کے سبب درجنوں افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس کے بعد اپریل میں خیبرپختون خوا میں غیر معمولی بارشیں ہوئی تھیں جن سے نمٹنے کے لیے صوبائی حکومت نے تیس اپریل تک ایمرجنسی نافذ کر رکھی تھی۔ 

گزشتہ برس کے مون سون میں ہونے والے نقصانات کے بارے میں بلوچستان کی حکومت نے دسمبر کے اواخر میں جو سروے رپورٹ جاری کی اس کے مطابق بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے صوبے میں336 افراد جاں بہ حق ہوئے اور2 لاکھ92 ہزار526 مویشی سیلابی ریلوں میں بہہ گئےتھے۔

معیشت کو لاحق شدید خطرات

گزشتہ برس مارچ کے مہینے میں عالمی ادارے ، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان کو سالانہ چار ارب ڈالرز کا نقصان ہوتا ہے۔ پھر نومبر کے مہینے میں ایشیائی ترقیاتی بینک نے ایک چونکا دینے والی رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان کی معیشت کو مستقبل میں شدیدخطرات لاحق ہوں گے اور2070تک ہمارے جی ڈی پی میں21فی صد تک کمی آسکتی ہے اور پاکستان میں ماحولیاتی انحطاط اور ماحولیاتی مسائل اسی طرح رہے تو 2100تک جی ڈی پی میں 40فی صد سے زائد کا نقصان ہو سکتا ہے۔

بینک کی ایشیا پیسیفک کلائمٹ رپورٹ 2024 میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان کو مستقبل میں شدید خطرات لاحق ہیں، رپورٹ میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان کی کیش کراپ بری طرح متاثر ہو گی ۔2070تک چاول اور مکئی کی پیدوار میں تقریبا 40 فی صد، سویا بین20فی صد اورگندم کی پیداوار میں45فی صد تک کمی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح مچھلی کے کاروبار سے وابستہ افراد کو20فی صدپیداواری کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور درختوں کی پیداوار میں10فی صد تک کمی کا خدشہ ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بڑھتے ہوئے موسم گرما کی وجہ سے بجلی کی کھپت میں 40فی صد تک اضافہ ہوگااور موسم زیادہ گرم ہونے سے افرادی قوت میں 10 سے 20 فی صد تک کمی ہوسکتی ہے۔ 

گرمی کی لہروں سے مزدوروں کی پیداواری صلاحیت پر شدید اثرات پڑتے ہیں، یہاں تک کہ اس میں انسانی جانوں کا ضیاع بھی شامل ہیں، 2070 تک مزدوروں کی پیداواری صلاحیت میں کمی کی وجہ سے جی ڈی پی کا نقصان خِطّے کے لیے4.9فی صد ریکارڈ کیا گیا ہے،لیکن پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں اس کا اثر 10.4 فی صد ہوگا ، بھارت پر 11.6 اور ویتنام پر8فی صد اثر پڑے گا۔

رپورٹ کہتی ہے کہ اگرچہ سمندر کی سطح میں اضافہ 2070 تک اقتصادی نقصانات کا سب سے بڑا ذریعہ ہوگا، لیکن 2030 میں، زیادہ تراقتصادی نقصانات مزدوروں کی پیداواری صلاحیت اور توانائی کی طلب پر اثرات کی وجہ سے ہوں گے۔

سمندر کی سطح میں اضافے اور طوفانی لہروں سے متعلق نقصانات میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوگا، کیوں کہ سمندر کی سطح میں اضافے سے ہونے والے اثرات میں بھی تیزی آرہی ہےاور تباہ شدہ سرمائے کی تعمیرِ نو کے اخراجات کی وجہ سے اقتصادی ترقی پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے۔

ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے خبردار کیا ہے کہ ان آفات سے غریب طبقات سب سے زیادہ متاثر ہوں گے اور موسمیاتی تبدیلی ترقی پذیر ایشیا میں لوگوں کے معیار زندگی کو یک سر تبدیل کر دے گی۔ خطے میں موسمیاتی تبدیلی کے سب سے زیادہ واضح اثرات گرمی کی لہروں کی مدّت اور شدّت سے محسوس کیے جائیں گے جس کے بعد بارشوں کےنظام میں تبدیلی سے سیلاب کے خطرات بڑھ جائیں گے اور خشک سالی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوگا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شدید طوفانوں اور سمندر کی سطح میں اضافے سے نشیبی ساحلی علاقوں بہ شمول بڑے شہروں کو خطرات لاحق ہوں گے۔رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر موسمیاتی بحران میں تیزی آتی رہی تو خطے کے 30کروڑ افراد ساحلی سیلاب سے خطرے میں پڑ سکتے ہیں اور2070تک سالانہ کھربوں ڈالرز کے ساحلی اثاثوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ پالیسی بنانے والوں کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے متعلق پیش گوئیوں پر مسلسل نظر ثانی کرنی چاہیے۔

ادہر پلاننگ کمیشن آف پاکستان نے انکشاف کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کو سالانہ 4 ارب ڈالرزکا نقصان ہورہا ہے۔ پلاننگ کمیشن کی دستاویز کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک میں پاکستان آٹھویں نمبر پر آ چکا ہےاوراگر صورت حال کو کنٹرول نہ کیا گیا تو2080تک درجہ حرارت میں 4 ڈگری مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔

کمیشن کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں سے زیر زمین پانی کے ذخائر میں تیزی سے کمی آرہی ہے۔2030تک موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو348ارب ڈالرز کی ضرورت ہوگی۔

ہماری اقتصادی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں فی کس سالانہ آمدن 1,596 ڈالرز ہے۔ عالمی بینک اس آمدنی کو کم اور کم۔ متوسط درجے کے درمیان شمار کرتا ہے۔ 2022کے تباہ کن سیلاب نے ملک کے ایک تہائی حصے کو غرقاب کر دیا تھا۔ اس آفت کے باعث 30 ارب ڈالرز سے زیادہ مالیت کااقتصادی نقصان ہوا جو ملک کے جی ڈی پی کے 8 فی صدکے برابر تھا۔

کووڈ۔19 کی وبا کے باعث پہلے ہی دباؤکی شکار معیشت کو اس ماحولیاتی آفت نے تباہ کن نقصان پہنچایا۔ نتیجتاً ملکی قرضے میں بھی بھاری اضافہ ہو گیا۔2015میں یہ قرضہ 65ارب ڈالرز تھا جو2023کے اوائل میں130ارب ڈالرز تک پہنچ گیا تھا جو ہمارےجی ڈی پی کے40فی صدکے مساوی ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو عالمی مالیاتی فنڈ سے بیل آؤٹ پیکیج لینا پڑا۔

اگرچہ دنیا بھر میں خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسز میں پاکستان کا حصہ محض 0.93 فی صدہے،لیکن موسمیاتی تبدیلی کے کڑے اثرات کا سامنا کرنے والے 185ممالک میں ہمارا درجہ150ہے۔یاد رہے کہ نچلے درجوں میں ایسے ممالک آتے ہیں جو موسمیاتی تبدیلی سے خطرناک حد تک متاثر ہو رہے ہیں۔

پاکستان میں صنعتی شعبے کی40فی صد افرادی قوت کپڑا سازی کی صنعت سے وابستہ ہے۔ ملک کی 60 فی صدبرآمدات کا تعلق بھی اسی صنعت سے ہے۔ تاہم یہ شعبہ ماحولیاتی آلودگی میں بھی بڑے پیمانے پر اضافہ کر رہا ہے۔

پاکستان میں صنعتی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی آبی آلودگی میں 20 فی صد حصہ اسی شعبے کا ہے۔ سستی اور کم وقت میں تیار ہونے والی ٹیکسٹائل مصنوعات کی تیاری کے عمل سے ناصرف گرین ہاؤس گیسز کا اخراج بڑھ رہا ہے بلکہ صنعتی فضلے کی مقدار میں بھی اضافہ ہو ہے۔ 'یو این سی ٹی اے ڈی کے مطابق اس صنعت کو شمسی، پون اور پن بجلی جیسے توانائی کے قابل تجدید ذرائع پر منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ 

علاوہ ازیں اشیا کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کےنئے طریقے وضح کرنےاوراس پمن میں ہر سطح پر آگاہی اور تعلیم و تربیت میں اضافہ کرنا بھی اہم ہے۔ اس طرح کپڑا سازی کی صنعت کو ماحولیاتی اعتبار سے مزید ذمے دارانہ کردار ادا کرنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔

پاکستان کے جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ تقریباً ایک چوتھائی ہے۔ ملک کی افرادی قوت کا تقریباً 37 فیصد اسی شعبے سے وابستہ ہے۔ زرعی شعبہ ہی کپاس اور ایسا دیگر خام مال پیدا کرتا ہے جس سے ملک میں کپڑے کی صنعت چلتی ہے۔ 

تاہم چھوٹے پیمانے پر زرعی سرگرمیوں اور جدت کے فقدان کے باعث اس شعبے کی استعداد ناکافی ہے۔ اس کا بالواسطہ نتیجہ غذائی عدم تحفظ، دیہی علاقوں میں بے روزگاری اور غربت کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔ اسی طرح چھوٹے پیمانے پر کاشت کاری اور جدّت کے فقدان کے باعث زرعی شعبے کی استعداد متاثر ہو رہی ہے۔ 

کسانوں کے لیے قرضوں کی فراہمی کے عمل کو آسان بنانے سے ان کی استعداد اور پیداوار میں نمایاں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ مالی وسائل تک بہتر رسائی کی بہ دولت کاشت کاروں کے لیے بڑے پیمانے پر زرعی سرگرمیاں ممکن ہو سکیں گی اور وہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف خود کو بہتر طور سے تیار کر سکیں گے۔

کیا ہم یہ کرپائیں گے؟

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 2030 تک فضائی آلودگی میں 50فیصد مزید اضافہ ہو جائے گا۔ پاکستان انوائرنمینٹل پرفارمنس انڈیکس میں دنیا کے 180 ممالک میں 179ویں نمبر پر ہے۔اس مسئلے کے حل میں سب سے اہم سیاسی عزم اور دیرپا پالیسیاں ہیں۔

ماحولیاتی بحران کو حل کرنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں۔ مذکورہ بالا تمام اقدامات کے لیے نہ صرف مالی وسائل کی ضرورت ہے بلکہ ریاست کو اپنی قابلیت اور صلاحیت کے ذریعے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، جو ہم نے حالیہ برسوں میں شاذ و نادر ہی دیکھا ہے۔

اچھی خبریں

فروری کے مہینے میں پاکستان میں تیزی سے انحطاط کا شکار ہوتے دریائے سندھ کے طاس کو بچانےکے اقدام، 'زندہ دریائے سندھ، کو ماحولیاتی نظام کی بحالی سے متعلق اقوام متحدہ کے سات بڑے منصوبوں میں شامل کر لیا گیا۔

اکتوبر کے آخری روز یہ خبر آئی کہ عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) پاکستان میں سیلاب کی پیشگی اطلاع دینے اور اس سے بچاؤ کے اقدامات کو بہتر بنانے کا منصوبہ شروع کر رہا ہے جس سے لوگوں کی زندگی، صحت، گھربار اور روزگار کو اس قدرتی آفت سے موثر تحفظ میسر آئے گا۔

دسمبر میں لاہور میں اسموگ کی روک تھام کے لیے اسموگ کلین ٹاور کی محمود بوٹی کے علاقے میں تنصیب کا عمل شروع کردیا گیا تھا۔ محکمہ ماحولیات، پنجاب کا کہنا تھا کہ اسے 21 دسمبر تک مکمل فعال کردیا جائے گا۔یہ ٹاور ہوا سے زہریلے ذرات صاف کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔