گزشتہ ماہ کے اواخر میں وزیر اعظم، شہباز شریف نے کاربن مارکیٹ میں ٹر یڈنگ کے لیے پایسی گائیڈ لائنز کے ڈرافٹ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی غرض سے اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کردی ہے۔ اس سات رکنی کمیٹی کے سر بر اہ وزیر قانون و انصاف ہیں۔ دیگر چھ اراکین میں موسمیاتی تغیّر کی کوآرڈی نیٹر، سیکریٹری اقتصا دی امور ڈویژن، سیکریٹری وزارت تجارت، ڈبلیو ٹی او کے مستقل نمائندے، علی سر فراز، ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر عابد سلہری اور سیکریٹری وزارتِ مو سمیاتی تغیّر شامل ہیں۔
کمیٹی کو یہ ٹاسک دیاگیا ہے کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے در میان کاربن مارکیٹ میں ٹر یڈنگ کے لیے پا لیسی گائیڈ لائنز میں پائے جانے والے اختلاف رائے کو ختم کرے اور ہم آہنگی، اتفاق رائے و مفاہمت پیدا کرے۔ یہ کمیٹی چاروں صو بوں، گلگت بلتستان اورآزاد کشمیر کی حکو متوں کے نمائندوں سے بات چیت کرے گی اور پالیسی گائیڈ لائنز کے ڈرافٹ پر اتفاق رائے پیدا کرے گی۔
اتفاق رائے پیدا ہونے کے بعد یہ ڈرافٹ منظوری کے لیے قومی مو سمیاتی کونسل کے اجلاس میں پیش کیا جا ئے گا۔ لیکن ،سوال یہ ہے کہ کاربن ٹریڈنگ کیا ہوتی ہے اور اس سے ملک اور قوم کو کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں پہلے ماحولیات کے بعض نکات کو سمجھنا ہوگا۔
ماحول کے لیے خطرناک گیسز کا اخراج آج دنیا بھر میں بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ انسان جوں جوں ترقی کرتا جارہا ہے اس کی سرگرمیاں ماحول کے لیے خطرات میں اسی قدر اضافہ کرتی جارہی ہیں۔ با الفاظِ دیگر دنیا میں انسان کا کاربن فُٹ پرنٹ بڑھتا جارہا ہے۔ کاربن فُٹ پرنٹ کی اصطلاح کی تاریخی اعتبار سے یہ تعریف کی جاتی ہے: ’’کسی ادارے، سرگرمی، مصنوع یا کسی فرد کی وجہ سے خارج ہونے والی ماحول کے لیے تمام مضر گیسز (گرین ہائوس گیس) کا مجموعہ‘‘۔
آج دنیا بھر میں کسی ملک کے ماحول کو سمجھنے کے لیے ماہرین سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اس ملک کا کاربن فُٹ پرنٹ کیسا ہے۔ کسی ملک یا علاقےکے مجموعی کاربن فُٹ پرنٹ کا حساب کتاب کرنا ناممکن ہے، کیوں کہ ایسا کرنے کے لیے متعدد اقسام کے اور بہت زیادہ ڈیٹا کی ضرورت ہوتی ہے اور دوسری جانب یہ حقیقت ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ فطری طریقوں سے بھی پیدا ہوسکتی ہے جو گرین ہائوس گیسز کا بہت اہم اور بڑا حصہ ہوتی ہے۔ بعض ماہرینِِ ماحولیات نے اس ضمن میں کئی طریقے بیان کیے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ گرین ہاؤس گیسز متعدد انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً ٹرانسپورٹ سے، زمین سے، جنگلات یا درخت ختم کرنے سے، اجناس اُگانے یا غذائی اشیاء تیار کرنے ، ایندھن جلانے ، مختلف اشیاء تیار کرنے سے، مواد، خام مال، سڑکیں، عمارتیں بنانے، مختلف خدمات فراہم کرنے سے، وغیرہ وغیرہ۔ سادہ الفاظ میں بیان کرنے کے لیے گرین ہائوس گیسز کے بجائے یہ لکھا جاتا ہے کہ کس سرگرمی سے کتنی مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوئی یا اس کے مساوی کتنی گرین ہائوس گیسز پیدا ہوئیں۔
کاربن فُٹ پرنٹ اورکاربن اکاؤنٹنگ
کاربن فُٹ پرنٹ کی اصطلاح 1990ء کی دہائی میں شروع ہونے والی ایک بحث کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی۔ یہ بحث اس نکتے پر ہو رہی تھی کہ کائنات کا ہر فرد ماحول پر جس طرح اپنے اثرات چھوڑ رہا ہے اگر اس کا حساب کتاب کیا جائے تو ہمیں اپنی دنیا جیسی کتنی دنیائوں کی ضرورت ہوگی۔ تاہم یہ اصطلاح ایکولوجیکل فُٹ پرنٹ کے مقابلے میں زیادہ مخصوص ہے، کیوں کہ اس کے زمرے میں بہ راہ راست یہ حساب آتا ہے کہ ماحول کے لیے مضر گیسز کتنی مقدار میں خارج ہو رہی ہیں جو کرۂ ارض کا ماحول تبدیل کرنے کی ذمے دار ہیں۔
کسی شخص یا ادارے کے کاربن فُٹ پرنٹ کا حساب کتاب کرنے کے لیے مختلف ذرایع استعمال کرکے یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اس کی کِن کِن سرگرمیوں سے مجموعی طور پر کتنی گرین ہاؤس گیسز خارج ہوئیں۔ اسے سادہ لفظوں میں کاربن اکائونٹنگ بھی کہا جاتاہے۔ ایک مرتبہ جب کسی شخص یا ادارے کے کاربن فُٹ پرنٹ کا حساب کتاب کرلیا جاتا ہے تو اس کے لیے ماہرین یہ حکمت عملی طے کرتے ہیں کہ وہ کس طرح اس میں کمی کرسکتا ہے۔
مثلاً کون سے تیکنیکی اور منطقی طریقے یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں، پراسیسنگ اور پراڈکٹ منیجمنٹ کے ضمن میں کیا سُدھار لایا جاسکتا ہے، کن اشیاء اور مواد کا استعمال کم کیا جاسکتا ہے اور انہیں استعمال کرنے کے کون سے محفوظ طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ انٹرنیٹ پر کاربن فُٹ پرنٹ کا حساب کتاب کرنے کے لیے کئی مفت کیلکولیٹرز موجود ہیں۔ ان میں سے ایک بہت معروف کیلکولیٹر یونیورسٹی آف کیلی فورنیا اور برکلے ،کُول کلائمٹ نیٹ ورک ریسرچ کنسورشیم کے تعاون سے نیٹ پر موجود ہے۔
مسئلے کا حل
آج ہمارے کرۂ ارض کا اصل مسئلہ کاربن فُٹ پرنٹ کا حساب لگانا نہیں ہے بلکہ اسے کم کرنا ہے۔ اس ضمن میں جو روایتی حل بتائے جاتے ہیں ان میں متبادل منصوبوں میں سرمایہ کاری اور ان کی جانب توجہ مرکوز کرنا (مثلاً شمسی اور ہوا کی توانائی کا استعمال) بنیادی نکتہ ہے۔ لیکن ماحولیاتی سائنس کی ترقی کے بعد اب یہ کہا جانے لگا ہے کہ ایسے بہت سے حل موجود ہیں جن کی مدد سے ہم کرۂ ارض پر اپنا کاربن فُٹ پرنٹ کم کرسکتے ہیں۔ یہ حل آج کی اصطلاح میں کاربن آفسیٹنگ کہلاتے ہیں۔
ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ کاربن فُٹ پرنٹ بڑھنے کے ضمن میں چند عوامل کا کردار بنیادی نوعیت کا ہے۔ مثلاً آبادی میں بے تحاشا اضافہ، اقتصادی اور معاشی ترقی کا بڑھتا ہوا حجم، توانائی کے استعمال میں بے تحاشا اضافہ اور اقتصادیات کے شعبے میں کاربن کی بڑھتی ہوئی شدت۔ واضح رہے کہ کاربن فُٹ پرنٹ کی اصطلاح ایجاد ہی اس لیے ہوئی کہ ماحول کے لیے مضر قرار دی جانے والی گیسز میں سب سے زیادہ خطرناک کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے جس کے نام ہی سے عیاں ہے کہ اس کا بنیادی ماخذ کاربن (یا کوئلہ) ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے جو دوسرا روایتی حل پیش کیا جاتا ہے وہ جنگلات میں اضافے یا کاٹے گئے جنگلات دوبارہ لگانے کا ہے۔ لیکن تحفظِ ماحول کے جدید نظریات پر یقین رکھنے والوں کا موقف ہے کہ اس مسئلے پر صرف روایتی حل کے ذریعے قابو نہیں پایا جاسکتا بلکہ اس کے ساتھ درجِ بالا عوامل کو بھی بہ طورِ خاص مدنظر رکھنا ہوگا۔ اس ضمن میں ان کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنی پیداوار کے لیے درکار توانائی کی مقدار کم کرنا ہوگی یا پھر کاربن خارج کرنے والے ایندھن (یعنی رکازی ایندھن، مثلاً پیٹرول، ڈیزل اور قدرتی گیس) پر انحصار کم سے کم کرنا ہوگا۔
امریکی شہری سب سے آ گے
دنیا بھر میں ماہرین وقتاً فوقتاً یہ جائزہ لیتے رہتے ہیں کہ کون سا ملک، اس کا کون سا علاقہ اور دنیا کے کس ملک کے ادارے اور افراد سب سے زیادہ گرین ہائوس گیسز خارج کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے طے شدہ اصولوں کے مطابق دنیا بھر کا ڈیٹا جمع کر رکھا ہے جسے وقتاً فوقتاً اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے۔ مثلاً پاکستان میں 1990ء میں ہر شخص سالانہ0.6میٹرک ٹن اور 2007ء میں0.9 میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کر رہا تھا یا پیدا کرنے کا سبب بن رہا تھا۔
ایک رپورٹ کےمطابق 2018 میں انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے 37کروڑ ٹن اضافی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس ہماری فضا میں داخل ہوئی تھی۔ مطابق 2018 ءمیں انسانی استعمال سے 37 کروڑ ٹن اضافی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس ہماری فضا میں داخل ہوئی۔ اس میں پاکستان کا حصہ تقریباًڈھائی لاکھ ٹن تھا۔
دنیا بھر کے لوگوں کے مقابلے میں امریکی شہری اس ضمن میں سب سے آگے ہیں۔ ہر امریکی گھرانہ اوسطاً سالانہ48 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرتا ہے۔ اس ضمن میں گیسولین کا کردار سب سے اہم بتایا جاتا ہے۔ ساری دنیا میں ٹرانسپورٹ (گاڑیاں، ہوائی جہاز، پانی کے جہاز) کو ماحولیاتی آلودگی کے اسباب میں سب سے بڑا سبب گردانا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہائوسنگ کا نمبر آتا ہے جس میں بجلی، قدرتی گیس، کچرا اور تعمیرات شامل ہیں۔ تیسرے نمبر پر خوراک اور غذا آتی ہے (جس میں زیادہ حصہ سرخ گوشت، ڈیری کی مصنوعات اور سی فوڈ پراڈکٹس سے آتا ہے، تاہم دیگر اشیائے خورونوش سے بھی کافی کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے)۔
پھر اشیاء کا نمبر آتا ہے اور سب سے آخر میں خدمات کا شعبہ آتا ہے۔ امریکا کے گھرانوں کا کاربن فُٹ پرنٹ دنیا بھر کے گھرانوں کے مقابلے میں اوسطاً پانچ گنا زیادہ ہے۔ امریکا کے علاوہ دنیا بھر کے گھرانوں کی یہ شرح اوسطاً 10 ٹن فی سال فی گھرانہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر امریکا کے شہری صرف گاڑی چلانا کم کردیں یا موجودہ گاڑیوں کی جگہ ایسی گاڑیاں استعمال کرنا شروع کردیں جو ایندھن موثر طریقے سے اور کم شرح سے استعمال کریں تو امریکا کے فُٹ پرنٹ میں خاطر خواہ کمی آسکتی ہے۔
سخت معیارات اور ماحول دوست تبدیلیاں
اسی طرح دنیا میں متعدد ادارے اور تنظیمیں ایسی بھی ہیں جنہوں نے یہ تک اندازہ لگایا ہے کہ کون سی مصنوع تیار کرنے کے عمل میں کتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس یا دیگر مضر گیسز پیدا ہوتی ہے۔ ان ہی خطوط پر امریکا کی تحفظِ ماحول کی ایجنسی نے کاغذ، پلاسٹک، شیشے، کینز ، کمپیوٹرز، قالین اور گاڑیوں کے ٹائرز تیار کرنے والے اداروں کے لیے سخت معیارات مقرر کیے ہیں اور انہیں پابند کیا گیا ہے کہ وہ مختلف تیکنیکی اور ماحول دوست تبدیلیاں کرکے اپنا کاربن فُٹ پرنٹ کم کریں۔ آسٹریلیا نے لکڑی اور تعمیرات کے لیے استعمال ہونے والی دیگر اشیاء کے ضمن میں معیارات سخت بنائے ہیں۔
آسٹریلیا، کوریا اور امریکا میں ماہرین نے سڑکیں بنانے کے طریقوں پر بھی خاص توجہ دی ہے۔ کئی ممالک میں تجارتی اداروں، غیر منافع بخش تنظیموں اور ماہرین نے اشیاء کو پیک کرنے اور خطوط بھیجنے کے عمل پر بھی توجہ دی ہے اور انہیں ماحول د وست بنانے کے لیے عملی تجاویز اور طریقے پیش کیے ہیں۔ اسی طرح بعض ممالک میں گھروں اور ریستورانوں میں خوراک تیار اور استعمال کرنے کے طریقوں اور ان کے انتخاب کے ضمن میں توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
انگلستان میں کاربن ٹرسٹ کے نام سے قائم ادارہ وہاں خوراک، قمیصیں اور ڈٹرجنٹس تیار کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر کام کرچکا ہے۔ اس کوشش کے نتیجے میں وہاں CO2 کے نام سے ایک لیبل 2007ء میں وجود میں آیا جس کا مقصد یہ تھا کہ برطانیہ میں عوامی سطح پر ماحول کے لیے ایک معیار مقرر کیا جائے جو باقاعدہ اور سرکاری معیار نہ ہو۔ اس ٹرسٹ نے بعض دیگر صنعتی اداروں کے اشتراک سے بھی ماحول دوست سرگرمیوں کو فروغ دیا۔ اس کے نتیجے میں 2012ء میں کاربن ٹرسٹ نے یہ اعلان کیا کہ اس نے27ہزار مصنوعات کو اس قابل سمجھا ہے کہ انہیں کاربن فُٹ پرنٹ کا سرٹیفکیٹس جاری کیا جائے۔
واضح رہے کہ دنیا بھر میں بالعموم اور ترقی یافتہ دنیا میں بالعموم کسی مصنوع کے کاربن فُٹ پرنٹ کی جانچ پڑتال کے دوران سب سے پہلے اس کی پیکجنگ کو پرکھا جاتا ہے۔ مثلاً پھلوں کے جوس کا کارٹن اے سیپٹک کارٹن سے بنتا ہے، بیئر کا کین ایلومینیم سے بنتا ہے اور پانی کی بوتلیں پلاسٹک یا شیشے سے بنائی جاتی ہیں۔ ان کا حجم جتنا زیادہ ہوتا ہے فُٹ پرنٹ اسی قدر بڑھ جاتا ہے۔
بجلی کے کارخانے اور آلودگی
پاکستان ان دنوں توانائی کے شدید بحران سے دوچار ہے۔ طویل دورانیے کے لیے بجلی کی فراہمی میں تعطل نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے ۔سیاسی بیانات اور انتخابی مہمات میں بھی یہ مسئلہ زور و شور سے اٹھتا رہا،اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور شاید مزید چند برسوں تک یہ صورت حال برقرار رہے۔ ان حالات میں بحران پر قابو پانے کے لیے بجلی پیدا کرنے کی غرض سے کارخانوں میں کوئلے کا استعمال بہت بڑھ چکاہے۔ تاہم دنیا بھر میں ماحولیات کے ماہرین اس بات پر مصر ہیں کہ رکازی ایندھن کم سے کم استعمال کیا جائے اور توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے متبادل یا ماحول دوست ذرایع استعمال کرنے پر بھرپور توجہ دی جائے۔
اس ضمن میں ان کا کہنا ہے کہ پانی، ہوا اور جوہری توانائی سے بجلی پیدا کرنے میں نسبتاً کم کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے۔ ہوا اور پانی سے بجلی پیدا کرنے سے یہ گیس بالکل پیدا نہیں ہوتی، لیکن اس کے لیے جو ڈھانچا تیار کرنا پڑتا ہے، اس کی تیاری کے دوران ضرور یہ گیس پیدا ہوتی ہے۔ پھر اس ڈھانچے کی دیکھ بھال کے دوران بھی ایسا ہوتا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ انسان کی سرگرمیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں جتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے اس کا نصف بجلی پیدا کرنے کے عمل کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے۔
کاربن کریڈٹ اور ٹریڈنگ
کیوٹو پروٹوکول (ماحول کے تحفظ کا عالمی معاہدہ) صنعتی ممالک کو قانونی طور پر پابند کرتا ہے کہ وہ مقررہ وقت میں گرین ہائوس گیسز کا اخراج کم کریں گے۔ اس کی بنیادپر سرٹی فائیڈ ایمیشن ریڈکشن، ایمیشن ریڈکشن یونٹ اور ویری فائیڈ ایمیشن ریڈکشن کی اصطلاحات سامنے آئی ہیں اور بہت سے ممالک یہ سرٹیفکیٹ حاصل کرکے ان سے مالیاتی فوائد اٹھا رہے ہیں۔ یہ سندیں مختلف اداروں کو بھی دی جاتی ہیں۔ لیکن اس کے لیے ایک مخصوص اور طے شدہ طریقۂ کار ہے جس پر چل کر یہ سندیں حاصل کی جاسکتی ہیں۔ ہمارا پڑوسی ملک بھارت اس سے کافی فائدہ اٹھا رہا ہے۔
یہ عمل کاربن کریڈٹ اور کاربن ٹریڈنگ کہلاتا ہے۔ ایمیشن ٹریڈنگ کا سر ٹیفکیٹ حاصل کرنے والے اداروں کو کئی اقسام کے فواید ملتے ہیں۔ وہ اقوام جو کیوٹو پروٹوکول کے اہداف حاصل کرنے میں پیچھے ہوتی ہیں وہ عالمی منڈی سے یہ سرٹیفکیٹس خرید لیتی ہیں تاکہ وہ اپنے شارٹ فال کو پورا کرسکیں۔ بعض ممالک اور ادارے مل کر لوکل ایمیشن ریڈکشن اسکیمز شروع کرکے بھی فواید حاصل کر رہے ہیں۔ مثلاً یورپی یونین ایمیشن ٹریڈنگ اسکیم۔ اس طرح کی اسکیمز درج بالا سرٹیفیکیٹس کی عالمی قیمتوں کا تعین کرتی ہیں۔ایک کاربن کریڈٹ ایک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس فضا میں خارج کرنے کے حقوق دیتا ہے۔
کیوٹو پروٹوکول کے تحت کاربن کریڈٹس کی تجارت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ دنیا میں تجارتی ادارے ایسے طریقے اختیار کریں جن کی وجہ سے نہ صرف لاگت میں کمی آجائے بلکہ کاربن کا اخراج بھی کم ہوسکے۔ اس معاہدے کے تحت دنیا کے بڑے بڑے صنعتی ممالک اس بات کے پابند ہیں کہ یہ اخراج ایک خاص حد تک کم کردیں ۔ لیکن ان میں سے کئی ممالک سے تعلق رکھنے والے ادارے اپنے کارخانوں میں بڑے پیمانے پر اس مقصدکےلیے پیسہ خرچ کرنے کے بجائے یہ آسان راستہ اختیار کرتے ہیں کہ وہ کسی ملک سے کاربن کریڈٹس خرید لیں تاکہ وہ اپنے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا کسی حد تک ازالہ کرسکیں۔
لیکن ہمارا حال ساری دنیا سے نرالا ہے۔ ہم محفوظ اور ماحول دوست طریقوں سے بجلی پیدا کرنے کے بے تحاشا وسائل رکھنے اور کاربن ٹریڈنگ سے کروڑوں ڈالرز کمانےکے بجائے کوئلےکے داغ بڑھاتے جارہے ہیں۔ پاکستان میں کھاد، سیمنٹ، بجلی پیدا کرنے والے اوربارہ دیگرایسے منصوبے ہیں جو کاربن کریڈٹس فروخت کرنے کے معیار پر پورے اترتے ہیں۔ لیکن تاحال کسی کو یہ معلوم نہیں ہے کہ ان اداروں نے اس مد میں کتنا کمایا ہے کیوں کہ یہ معلومات صیغۂ راز میں ہیں۔
پھر یہ کہ پاکستان میں ایسی کوئی تحقیق نہیں کی گئی ہے جس سے پتا چل سکے کہ پاکستان سے سالانہ کتنی گرین ہاؤس گیسز خارج ہوتی ہیں۔ تاہم ایک محتاط اندازےکے مطابق کاربن کریڈٹس کے تناظر میں یہ مقدار43ملین ٹن بنتی ہے۔ کلین ڈیولپمنٹ مکینزم (مذکورہ سر ٹیفکیٹس کے حصول کے لیے مقررہ معیار پر پورا اترنے کی سند دینے کا طریقۂ کار) کے پاکستان میں موجود سیکریٹریٹ کے ذرایع کے مطابق پاکستان میں گرین ہائوس گیسز کا اخراج کم کرنے کےدرجنوں منصوبے منظوری حاصل کرچکے ہیں، لیکن ان میں سے تمام تر کا تعلق نجی شعبے سے ہے۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ سرکاری ادارے اس بارے میں غیر سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک جانب ہم کاربن کریڈٹس ٹریڈسے خاطر خواہ فایدہ نہیں اٹھا رہے اور دوسری جانب ہمارے ناقص پاور پلانٹ رکازی ایندھن کا بڑا حصہ ضایع کر رہے ہیں۔ المختصر یہ کہ ہم سراسر گھاٹے کا سودا کر رہے ہیں اور مزید نقصان اٹھانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ہمارے اربابِ اختیار کب یہ سمجھیں گے کہ ماحول کا تحفظ اب پوری سائنس بن چکا ہے اور اسے سمجھے بغیر ہم پائے دار ترقی نہیں کرسکتے۔
دہلی کی میٹرو ریل کی مثال
بھارت کے دارالحکومت دہلی کی میٹرو ریل شہر میں گرین ہاؤس گیسز میں کمی کے لیے کافی مدد گار ثابت ہوئی ہے جس کے لیے اقوام متحدہ نے اسے اپنے کاربن کریڈٹ کے لیے 2011 میں منتخب کیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ میٹرو ریل دنیا کی ایسی پہلی ریل سروس ہے جسے کاربن کریڈٹ کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔اقوام متحدہ نے اس سے متعلق اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ دہلی کا ٹرانسپورٹ کایہ نیا نظام شہر میں سالانہ چھ لاکھ تیس ہزار ٹن آلودگی کی سطح کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوا ہے۔ اس کے مطابق اگریہ میٹرو نہیں ہوتی تو پھر تقریبا اٹھارہ لاکھ لوگ ہر روز کار، بسوں اور موٹر سائیکل سے سفر کرتے جس سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا۔
یادرہے کہ آلودگی سے متعلق اقوام متحدہ کا ادارہ سی ڈی ایم، یعنی ’’ کلین ڈیولپمنٹ مکینزم‘‘ کاربن کریڈٹ کے لیے رقوم فراہم کرتا ہے۔ سی ڈی ایم، حوصلہ افزائی کے لیے ترقی پذیر ممالک میں ان اداروں کی مدد کرتا ہے جو گرین ہاؤس گیسز کا اخراج روکنے یا کم کرنے لیے کام کرتے ہیں۔ اس ادارے نے دہلی کی میٹرو ریل کو سات برس تک کاربن کریڈٹ کے طور پر سالانہ ساڑھے نو لاکھ ڈالرز کی رقم فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد جولائی 2016 میں بھارت نےاقوام متحدہ سے دریائے چناب پربھارت کی حدود میں تین نئے ڈیموں کی تعمیرکے لیےکاربن کریڈٹ سرٹیفکیٹ حاصل کرلیا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ رضاکارانہ کاربن کریڈٹس کی عالمی منڈی 2030 تک 50بلین ڈالرز تک پہنچ سکتی ہے ، لیکن مستحکم کاربن مارکیٹ پالیسی کے بغیر، پاکستان اس ممکنہ مالی معاونت سے فایدہ نہیں اٹھا سکے گا، جو تخفیف کے منصوبوں کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔ کاربن مارکیٹ کی پالیسی تیار کرنے اور اس پر عمل درآمد کے ضمن میں پاکستان کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے جس میں ادارہ جاتی صلاحیت اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ہم آہنگی کی کمی شامل ہے۔
ممکنہ پروجیکٹ ڈیولپرز اور خریداروں کے درمیان کاربن مارکیٹس کے فواید اور مواقعےکے بارے میں بے داری اور سمجھ کی کمی، کم کاربن کی ترقی کے لیے فنانس اور ٹیکنالوجی تک رسائی کی کمی اور اخراج میں کمی کی پیمایش اور تصدیق کے لیےڈیٹا اور نگرانی کے مستحکم نظام کی عدم موجودگی بھی اس راہ میں حائل ہے۔
اس وقت بھارت اور چین کاربن کریڈٹ کے سب سے زیادہ فروخت کنندہ ہیں جبکہ یورپ کے ممالک سب سے زیادہ خریدار ہیں۔ اگر کوئی پروجیکٹ موجودہ متبادل کے مقابلے میں مقدار کے مطابق اور بار بار کم GHG (گرین ہاوس گیسز)پیدا کرسکتا ہے، تو یہ کاربن کریڈٹ حاصل کرنے کا اہل ہوگا۔
پاکستان نے کاربن کریڈٹ حاصل کرنے کا ایک منصوبہ کامیابی سے مکمل کیا ہے اور حکومت سندھ پہلے ہی مینگرو کے جنگلات کے لیے کاربن کریڈٹ حاصل کر چکی ہے اور اسے2022میں 14.75ملین ڈالرز کی پہلی قسط ملی جوآئندہ برسوں میں بڑھ کر24سے 25 ملین ڈالرز تک پہنچ سکتی ہے اور یہ اضافہ 60 سال تک جاری رہے گا۔
صوبائی حکومت کے مطابق گزشتہ برس اکتوبر کے مہینے تک صوبہ سندھ کے محکمہ جنگلات کے ’’ڈیلٹا بلیو کاربن ٹریڈنگ پراجیکٹ‘‘کے ذریعے نجی اداروں کی شراکت کے اس منصوبے کے ذریعے چار کروڑ ڈالر کمائے جا چکے ہیں۔اس منصوبے کے تحت سندھ میں دادو اور ٹھٹہ اور کراچی کے ساحلی علاقوں میں تمر کے درخت اور جنگلات لگائے جا رہے ہیں۔
یادرہے کہ وفاقی حکومت نے گزشتہ برس مئی کے مہینے میں سندھ کو آئندہ دو د ہائیوں کے دوران تمرکے جنگلات کو وسعت دینے کے لیے 20تا22کروڑ ڈالرز (57تا63ارب روپے) تک کا کاربن کریڈٹ حاصل کرنے کی اجازت دی تھی تاکہ پاکستان کے وعدوں کے تحت گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو کم کرنے کی عالمی مہم میں غیر مشروط شراکت ممکن بنائی جا سکے۔
بتایاجاتا ہے کہ سندھ حکومت ایک ہیکٹر پر دس ہزار روپے میں تمرکے درخت لگا رہی ہے۔ یہ درخت لگانے پرتین مرتبہ سندھ حکومت کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں آیا۔ یاد رہے کہ 2021 میں وزارت موسمیاتی تبدیلی نے اقوام متحدہ کے ماحولیاتی تبدیلی کے فریم ورک کنونشن میں مشترکہ قومی طے شدہ شراکت (این ڈی سی) جمع کرائی تھی۔
یادرہےکہ محکمہ جنگلات ،سندھ انڈس ڈیلٹا مینگروو کے دو منصوبوں (ڈیلٹا بلیو کاربن1اور 2) پر عمل درآمد کر رہا ہے جس میں محکمہ جنگلات کو منتخب کردہ نجی اداروں کا تعاون حاصل ہے۔ 2015میں شروع ہونے والے پہلے منصوبے کے تحت تقریباً 3.1 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مساوی مقدار کو بین الاقوامی کاربن مارکیٹوں میں فروخت کیا گیا، جس سےحکومت سندھ کو ایک کروڑ 47 لاکھ ڈالرز کی آمدن ہوئی۔ دوسرے منصوبے کے معاہدے پر مارچ 2020 میں عمل درآمد کیا گیا اور اس پر کام گزشتہ برس شروع ہوا۔ حکومت سندھ کے مطابق تمر کے جنگلات کی بحالی کے اقدامات کے تحت سرمایہ کاری کے علاوہ تقریباً اکّیس ہزار ملازمتیں پیدا ہو چکی ہیں۔
جنگلات کے شعبے کے ماہرین کے مطابق پاکستان میں وفاق کی سطح پربھی اس کے لیے کام ہوا مگر عملی طور پر کوئی منصوبہ شروع نہ ہو سکا جس کی وجہ سے صوبہ سندھ کے علاوہ کوئی بھی اس سے مفید نہ ہو سکا۔ ورلڈ بینک نے پاکستان کو کاربن ٹریڈنگ کے منصوبے شروع کرنےکے لیے3.8ملین ڈالرز امداد فراہم کی تھی جس کے لیے ’’ریڈ پلس‘‘ نامی منصوبہ شروع کیا گیا تھا۔اس منصوبے میں کام کرنے والی فرحت جمیل کے بہ قول ان کی جانب سے تحقیقی کام بھی کیا گیا تھا جس کے بعد2017سے 2018 کے دوران حکومت کو فزیبلٹی رپورٹ فراہم کی گئی تھی مگرلزشتہ برس اکتوبر کے مہینے تک عملی طور پر کوئی منصوبہ شروع نہیں ہو سکاتھا۔
ماہرین کے مطابق پاکستان شجرکاری، جنگلات، مختلف گرین کور، سولر اور ونڈ پاور، مویشیوں اور دھان کے کھیتوں سے میتھین کے اخراج کو کنٹرول کرنے اور GHG کے اخراج کو کنٹرول کرنے والی دیگر سرگرمیوں کے ذریعے بھی کاربن کریڈٹ حاصل کر سکتا ہے۔اس طرح ہمارے پاس بڑے پیمانے پر کاربن کریڈٹ حاصل کرنے کے لیے وسیع مواقع موجود ہیں۔