بلوچستان میں بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات کا سلسلہ جاری ہے۔ تادمِ تحریر موصولہ اطلاعات کے مطابق صوبے میں بارش اور سیلاب سے جاں بہ حق ہونے والے افراد کی تعداد 149 ہوگئی ہے اور تیرہ ہزار سے زاید مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔ پی ڈی ایم اے، بلوچستان، کے مطابق جاں بہ حق ہونے والوں میں اکسٹھ مرد، چھتّیس خواتین اورباون بچے شامل ہیں۔
اموات بولان، کوئٹہ، ژوب، دکی، خضدار کوہلو، کیچ، مستونگ، ہرنائی، قلعہ سیف اللہ اور سبی میں ہوئی ہیں۔ بارشوں کے دوران حادثات کا شکار ہوکرچوہتّر افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں سینتالیس مرد ،گیارہ خواتین اور سولہ بچے شامل ہیں۔
مجموعی طور پر صوبے بھر میں 13 ہزار 975 مکانات منہدم ہوئے یا انہیں جزوی نقصان پہنچا ہے ۔ بارشوں میں چھ شاہ راہوں کے مجموعی طور پر 670 کلو میٹر حصّے کو شدید نقصان پہنچا ہےاور مختلف مقامات پرسولہ پُل ٹوٹ چکے ہیں۔ بارشوں اور سیلابی صورت حال سے 23 ہزار 13 مال مویشی ہلاک ہوگئے ہیں۔ مجموعی طور پرایک لاکھ 98 ہزار 461 ایکڑ زرقبے پر کھڑی فصلیں، سولر پلیٹس، ٹیوب ویلز اور بورنگ کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔پی ڈی ایم اے کے مطابق بارشوں اور سیلابی ریلوں میں کی وجہ سے سیلابی ریلوں سےآٹھ ڈیم اورکئی حفاظتی بند بھی متاثر ہوئے ہیں۔
بارشوں اور سیلابی ریلوں سے تباہ حال بلوچستان انسانی المیے کا شکار ہے۔ملک بھر میں مون سون کی بارشوں کےباعث سیلابی ریلے جہاں جہاں سے گزرے تباہی کی داستاں چھوڑ گئے۔ کہیں لوگوں کے سائبان اُجڑ گئے تو کہیں ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ تازہ بارشوں کے نتیجے میں جھل مگسی میں متاثرہ افراد کھلے آسمان تلے پانی میں رہنے پر مجبور ہیں۔
وہ بے یارو مددگار افراد کھلے آسمان تلے بے بسی کی تصویر بن گئے ہیں۔ سیلاب سے بچنے کی جگہ ہے، نہ بارش سے بچنے کے لیے چھت، نہ کھانے کو روٹی اور نہ دو گھونٹ صاف پانی، ماؤں کی گود میں بچے بھوک سے نڈھال ہیں۔ بیلہ میں بھی سیلابی ریلے نے کئی مکانات کوتباہ کردیا، مکینوں نے جان بچانے کے لیے جان پر کھیل کر سیلابی ریلوں سے گزرکر شہروں کی طرف نقل مکانی شروع کردی ہے۔
بلوچستان کے اکثر علاقوں میں وقفے وقفے سے موسلا دھار بارشوں کا سلسلہ مون سون کے آغاز سے جاری ہوگیا تھا۔ ان طوفانی باشوں کے نتیجے میں ندی، نالوں میں طغیانی آگئی اور سیلابی ریلوں سے بیش تررابطہ سڑکیں بہہ گئیں۔صوبے بھر میں طوفانی بارشوں اور سیلاب سے پیش آنے والے حادثات میں اموات کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب ہو گئی ہے اور بجلی کے 140 کھمبے گر چکے ہیں۔ کوئٹہ میں انگوروں کے باغات تباہ ہو گئے، ضلع واشک میں سیلابی ریلہ پیاز سے بھری بوریاں بہا کر لے گیا۔ محکمۂ موسمیات نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میںمزید موسلا دھار بارش کی پیش گوئی بھی کی ہے۔
کوئٹہ، ژوب، زیارت، موسیٰ خیل، قلعہ عبداللّٰہ، پشین، بارکھان میں مزید بادل برس سکتے ہیں گزشتہ دنوں چوبیس گھنٹوں کے دوران بلوچستان میں سب سے زیادہ بارش ژوب میں 45 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی۔
تاریخ رقم کرنے والا مون سون کا چوتھا اسپیل بلوچستان کے جنوب مشرق اور وسطی علاقوں میں تباہ کاریوں کا باعث بن رہا ہے۔ شمال میں سب سے زیادہ متاثرہ ضلع قلعہ سیف اللّٰہ کے دور افتادہ علاقے اور بلوچستان کے بلند ترین مقام کان مہتر زئی میں نظامِ زندگی مفلوج ہو گیا۔ پہاڑوں پر زندگی گزارنے والے حالات سے مجبور ہو کر شہروں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں۔
بلوچستان کو خیبر پختون خوا اور پنجاب سے ملانے والی قومی شاہراہ N50 پر واقع صوبے کے بلند ترین صحت افزا مقام کان مہتر زئی پر ریکارڈ توڑ طوفانی بارش ہوئی ہے۔ پاکستان میں ذائقے اور مٹھاس میں شہرت رکھنے والے سیب، خوبانی اور چیری کاشت کرنا کان مہتر زئی کے مکینوں کا واحد ذریعۂ معاش ہے، مگر اب کاروبار اور سر کا سایہ بھی ان کے ساتھ نہیں رہا۔
پر فضاء پہاڑوں میں پرسکون زندگی بھی سیلاب کے خطرات نے چھین لی، محفوظ جگہ کی تلاش میں متاثرین نے میدانی علاقوں کی جانب نقل مکانی شروع کر دی ہے۔ سیلابی ریلہ کئی دیہات میں سب کچھ بہا کر لے گیا، کئی فیٹ اونچے سیلابی ریلے آبادی میں داخل ہوئے تو ہر طرف چیخ و پکار شروع ہو گئی، لوگ اپنا سب کچھ چھوڑ کر بال بچوں کے ساتھ پہاڑوں پر پناہ لینے لگے۔
بہت سے افرادریلوں میں بہہ گئے۔ میوہ جات کے ہرے بھرے باغات، فصلیں، پختہ سڑکیں اور قدرتی چشموں کے بجائے اب چاروں طرف صرف سیلابی ریلوں کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔
متاثرین کا کہنا ہے کہ برسات میں طوفانی بارشیں، سردیوں میں ہر دوسرے دن برف باری اور سخت ترین سردیاں تو دیکھتے رہے ،مگر برسات میں قیامت خیز سیلابی ریلے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے۔ سیلابی ریلوں نے زغلونہ، یعقوب کاریز، شنہ ویالہ، عمر زئی، سرانہ سمیت کئی دیہات میں تباہی مچائی، جس سے دو سو سے زاید گھر تباہ ہو گئے اور مال مویشی، ٹیوب ویل اور سولرسسٹم سیلاب میں بہہ گئے۔یہ تو بس ایک علاقے کی بپتا ہےجو حال ہی میں تباہی وبربادی کے مرحلے سے گزراہے۔ تاہم ان مشکل حالات میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پاک فوج کی امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔
صوبے کے چیف سیکریٹری عبدالعزیز عقیلی کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومت نے متاثرین کے لیے دس دس لاکھ روپے فی کس امداد کا اعلان کیا ہے اور خراب موسم کے باوجود فضائی ریلیف آپریشن جاری ہے۔ امداد سرگرمیوں سے متعلق ان کا کہنا تھاکہ سولہ ہزار ستّاسی گھروں کے لیے راشن اور دس ہزار سے زاید شیلٹر فراہم کیے جاچکے ہیں اور چار یوم قبل تک 17500افراد کو ریسکیو کیا گیا تھا۔چھہ ہزار کلو میٹر سڑکیں، 2 لاکھ ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں متاثر ہوئی ہیں اوربارشوں سے 6070 مکانات مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔
چیف سیکریٹری بلوچستان کے مطابق چار یوم قبل تک پچاس ہزار گھر متاثر ہوئے تھے۔ پورے بلوچستان میں دس اضلاع زیادہ اور چودہ کسی حد تک متاثر ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق بلوچستان میں تیس برسوں کی تاریخ میں اس مرتبہ پانچ سو فی صد زاید بارشیں ہو ئی ہیں۔ امدادی سرگرمیوں کے لیے آرمی ایوی ایشن کےہیلی کاپٹرز بھی استعمال ہورہے ہیں۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات (آئی ایس پی آر) کے آرمی ایوی ایشن کے دو ہیلی کاپٹر کراچی سے لسبیلہ اور اوتھل کے علاقوں میں امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق جی او سی نے گوادر میں ریلیف اور ریسکیو سرگرمیوں کی خود نگرانی کی۔ متاثرہ علاقوں میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکس اسٹاف متاثرین کوطبی امداد فراہم کررہے ہیں۔
امدادی سرگرمیوں کے دوران ایک افسوس ناک واقعہ بھی پیش آیا۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں میں شریک ایک ہیلی کاپٹر گرکر تباہ ہوگیا ہے۔ اس کا ملبہ وندر کے علاقے میں موسیٰ گوٹھ سے ملاہے۔ ادارے کے مطابق ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ حادثہ خراب موسم کی وجہ سے پیش آیا۔ اس حادثے میں جاں بہ حق ہونے والوں میں کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی، ڈائریکٹر جنرل پاکستان کوسٹ گارڈز، میجر جنرل امجد حنیف ستی اور انجینئرنگ کور کے بریگیڈیئر محمد خالد کے علاوہ عملے کے تین ارکان بہ شمول پائلٹ میجر سعید احمد، پائلٹ میجر محمد طلحہ منان اور نائیک مدثر فیاض شامل ہیں۔
آرمی ایوی ایشن کا یہ ہیلی کاپٹر پیر کی شام اوتھل سے کراچی جاتے ہوئے لاپتاہوا تھا۔ ہیلی کاپٹر پانچ بج کر دس منٹ پر اوتھل کے علاقے سے اڑا اور اس نے چھ بج کر پانچ منٹ پر کراچی پہنچنا تھا۔ تاہم راستے میں اس کا رابطہ ایئر ٹریفک کنٹرول سے منقطع ہو گیا تھا۔ ایئر ٹریفک کنٹرول سے رابطہ منقطع ہونے کے بعد اس کی تلاش کا عمل شروع کر دیا گیا تھا جس میں منگل کی صبح ہیلی کاپٹر بھی شامل ہوگئے تھے۔ فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ نے پیر کی شب ہیلی کاپٹر کے لاپتا ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ ہیلی کاپٹر بلوچستان میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی امداد کے آپریشن میں شامل تھا۔
خیال رہے کہ بلوچستان کا ضلع لسبیلہ حالیہ طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے بُری طرح سے متاثر ہوا ہے۔ ضلعے کے مختلف علاقوں میں سیلابی پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے ہزاروں افراد پھنسے ہوئے ہیں جہاں انتظامیہ، پاکستانی فوج، ایف سی اور پاکستان نیوی کے اہلکار امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔
لسبیلہ میں انتظامیہ کے سینئر اہل کارکے مطابق پیر کو لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی خود وہاں امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لینے پہنچے تھے تاکہ ان میں تیزی لائی جا سکے۔ ڈی آئی جی پولیس، قلات رینج، پرویز خان عمرانی کے مطابق کور کمانڈر نے پیر کو اوتھل میں ریلیف کی سرگرمیوں سے متعلق اجلاسوں میں شرکت کی تھی اور کراچی روانگی سے پہلے انہوں نے متاثرہ علاقوں کا فضائی جائزہ بھی لیا تھا۔ کورکمانڈر اور دیگر فوجی اہل کار شام پانچ بجے کے قریب اوتھل سے ہیلی کاپٹر میں روانہ ہوئے تھے۔
اطلاعات کے مطابق دالبندین ایئر پورٹ کا رن وے، ریڈار سسٹم اور پاک ایران ریلوے نیٹ ورک کی پٹڑی کا سیکڑوںفیٹ حصہ بھی سیلاب میں بہہ گیا ہے۔صوبائی ڈیزاسسٹر مینجمنٹ اتھارٹی(پی ڈی ایم اے) کے مطابق بارشوں سے پشین، چاغی، واشک، قلات، کیچ، موسیٰ خیل، خضدار، سبی، جھل مگسی اور بولان میں رابطہ سڑکوں، کھڑی فصلوں، بجلی کی تنصیبات اور لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچا ہے۔
حکام کے مطابق بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث پیش آنے والے مختلف حادثات میںا موات ہوئی ہیں۔ کیچ ، ضلع پشین، واشک، چاغی، کوہلو میں موسیٰ خیل اور لسبیلہ میں زیادہ اموات کی اطلاعات ہیں۔ جنوب مغربی بلوچستان میں مکران ڈویژن کے ضلع کیچ (تربت) میں سب سے زیادہ اموات ہوئی ہیں۔ ڈپٹی کمشنر حسین جان بلوچ کے مطابق بارشوں کے بعد ضلع کے مختلف علاقوں میں سیلابی صورت حال پیدا ہو گئی۔
دو خواتین اور ایک بچے سمیت چار افراد کی موت مرگاپ میں ہوئی جن کی کار سیلابی ریلے میں بہہ گئی تھی۔ پانچ افراد کو بچا لیا گیاتھا۔ چار افراد کی لاشیں پانی سے نکال لی گئی تھی۔ ایک شخص کی موت ناصر آباد میں اسکول کی عمارت منہدم ہونے سے ہوئی۔ آٹھ سالہ بچہ تربت میں ندی میں ڈوب کر ہلاک ہوا۔ بارش کے بعد میرانی ڈیم تقریباً بھر گیا تھا اور پانی کی سطح 235 فٹ تک پہنچ گئی تھی۔
گوادر اور پسنی میں بھی بارشوں کے بعد ڈیموں میں پانی کی سطح بلند ہوگئی جس سے شہر میں کئی ہفتوں سے جاری پانی کی قلت کے خاتمے کی امید پیدا ہوگئی ہے۔ کوئٹہ سے متصل ضلع پشین کے علاقے ریگی بوستان میں شدید بارشوں کے نتیجے میں مکان کی چھت گرنے سے پانچ افراد ہلاک ہوگئے۔ علاقے کے اسسٹنٹ کمشنر کے مطابق مرنے والوں میں محمد داؤد اور ان کے چار کم عمر بچے شامل ہیں۔ پشین کے علاقے خانوزئی اور ملحقہ علاقوں میں سیلابی ریلوں نے زراعت کو نقصان پہنچایا ہے۔
چاغی کے علاقے دالبندین میں طوفانی بارش کے بعد سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔ درجنوں مکانات منہدم ہوگئے۔ بجلی کے تیس سے زاید کھمبے گر گئے جس کے باعث تیس گھنٹوں تک بجلی کی فراہمی معطل رہی۔
کوئٹہ سے ایران کو ملانے والی ریل نیٹ ورک کی پٹڑی اکّیس مقامات پر شدید متاثر ہوئی جس کی وجہ سے پاکستان اور ایران کے درمیان ٹرین کی آمدو رفت بند ہوگئی تھی۔ کوہلو میں بھی بارشوں کے باعث ندی نالوں میں طغیانی پیدا ہوگئی تھی۔ جھل مگسی میں بھی کئی روز تک سیلابی صورت حال رہی۔صوبے کے اکثر مقامات پر بجلی نہ ہونے سے لوگوں کوپانی کی کمی کاسامنا ہے۔
کئی اضلاع کا صوبے کے دیگر حصوں اور دیگر صوبوں سے رابطہ منقطع رہا۔بلوچستان کے ضلع نوشکی میں اٹھائیس جولائی کو ہونے والی طوفانی بارشوں اور پھر اس کے بعد سیلاب کی وجہ سے بے گھر ہونے والے سیکڑوں خاندان مشکلات سے دوچار ہیں۔ لوگ پریشان ہیں کہ بچوں کو کہاں سے کھلائیں، کیوں کہ سیلاب ان کا سب کچھ بہا کر لے گیا ہے۔ سیلاب کے باعث ان کے آس پڑوس کے گھر بھی ان کی مدد کے قابل نہیں رہے ہیں۔
صرف نوشکی نہیں بلکہ بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ چھبّیس اضلاع میں سے اکثر میں متاثرین مشکل صورت حال سے دوچار ہیں۔ لسبیلہ میں لوگوں کی مشکلات دوسرے علاقوں میں کہیں زیادہ ہیں کیوں کہ ضلع میں پچھہتّر رابطہ سڑکیں بحال نہ ہونے کی وجہ سے کئی علاقوں میں لوگ ایک ہفتے سے زاید عرصے سے سیلابی پانی میں پھنسے ہوئے ہیں۔
یہ صرف مختصر سی جھلک ہے۔ ورنہ بلوچستان کے بیش تر حصوں میں ہر طرف الم کی داستانیں بکھری ہوئی ہیں۔