ماحول اور ماحولیاتی مسائل کے انسان کے مزاج اور صحت پر بہ راہ راست اثرات کو اب ساری دنیا میں تسلیم کیا جاچکا ہے۔ ہمارے ہاں کئی برس سے موسمِ سرما کے آغازسے اختتام تک کئی شہر وں،خصوصا،لاہورکے باسی،دھند اور اسموگ سے کافی پریشان رہتےہیں۔ گزرتے برس فروری کے مہینے تک یہ مسئلہ موجود تھا اور2021کی آخری سہ ماہی میں نومبر کے آغاز پر پھر سر اٹھاچکا تھا۔
یہ اور اس جیسے دیگر ماحولیاتی مسائل پرقابو پانے کے لیے ہمیں ایک جانب ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانا ہوگا اور دوسری جانب ملک میں زیادہ سے زیادہ درخت اورجنگلات اُگانے ہوں گے۔ چناںچہ 2021 کے پہلے ہی مہینےمیں وزیر اعظم عمران خان نے بلین ٹری سونامی منصوبے کے تحت دس ارب درخت لگانے کا ہدف بتایا۔ بتایا گیا کہ یہ ہدف پانچ برس کے لیے ہے۔ منصوبے کے مطابق پہلے تین سال میں 3.2 ارب درخت لگائے جائیں گے۔حکام کے مطابق اگلے سال جون تک ایک ارب درخت لگا دیے جائیں گے۔
بتایا گیا تھا کہ یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے دسمبر تک بیس کروڑ درخت لگائےجائیں گے اور پھر مزیدتیس کروڑ درخت جون تک لگا دیے جائیں گے۔وزیر اعظم کے مشیر برائے ماحولیات ملک امین اسلم کے مطابق اس وقت تک پاکستان پچاس کروڑ درخت لگا چکا تھا۔ واضح رہے کہ ورلڈ بینک نے ایک رپورٹ میں پاکستان میں ایسے چھ اضلاع کی نشان دہی کی ہے، جہاں اگر شجرکاری نہ کی گئی تو وہ 2050 تک ریگستان بن جائیں گے۔ لیکن اس اچھی خبر کے بعد اِکّیس مارچ کو ایک بُری خبر آئی کہ جنوبی پنجاب کا بڑا جنگل جل کر تباہ ہوگیا،لیکن کسی کو اس کی پروا نہیں تھی۔
خبر میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں سیاسی گہما گہمی کے دوران کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی کہ جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا جنگل جل کر تباہ ہوگیاہے۔ تفصیلات کے مطابق لاشاری والا جنگل میں دو ہفتے میں دو بار آگ بھڑکی۔ یاد رہے کہ لاشاری والا جنگل ہیڈ تونسہ بیراج کے قریب واقع ہے جوسولہ ہزار ایکڑپر محیط ہے ۔ آگ سےقیمتی درختوں کے علاوہ سیکڑوں پرندے اور جانور بھی جل کر مر گئے۔اطلاعات تھیں کہ یہ آگ مبینہ طور پر دو طاقت ور سیاسی شخصیات کے درمیان جنگل پرقبضے کا شاخسانہ تھی۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ پاکستان نے جنگل میں آگ لگنے کے بارے میں تحقیقات کا آغازکر دیا تھا۔ لیکن ساتھ ہی ڈبلیو ڈبلیو ایف فنڈ نے یہ ہوش رُبا اطلاع دی تھی کہ پاکستان کے محکمہ جنگلی حیات کے پاس کسی قسم کا ڈیٹا موجود نہیں ہے جس سے یہ معلوم کیا جا سکے کہ لاشاری والا جنگل میں کتنے اور کس قسم کے درخت ہیں اور اس جنگل میں کون کون سے پرندے اور جانور پائے جاتے ہیں۔ لاشاری والا جنگل کا شمار رامسر سائٹس میں ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں 2400 رامسر سائٹس موجود ہیں جن میں سے اُنّیس پاکستان میں ہیں جن کا کُل ملا کر رقبہ تینتیس ہزار ایکڑ سے زیادہ بنتاہے۔ رامسر کنونشن ایک عالمی معاہدہ ہے جس کے تحت ان سائٹس کا تحفظ ہمارفرض ہے۔پاکستان اس معاہدے کا حصہ 23 نومبر 1976 کو بناتھا۔
اس کے بعد ماحولیات کےضمن میں دوسری بُری خبر بلوچستان سے چھبّیس مارچ کو آئی جس میں کہا گیا تھا کہ مذکورہ صوبے کے پہاڑی سلسلے تکتو میں مارخور کا غیر قانونی شکارکیا جارہا ہے۔ دراصل مارخور کے شکار کی ایک وڈیو سامنے آنے کے بعد پشین کےپہاڑی سلسلے میں غیر قانونی شکار کا معاملہ منظر عام پر آیا تھا۔ محکمہ جنگلی حیات کے اعداد و شمار کے مطابق تکتو کے پہاڑی سلسلے میں اس وقت تک آٹھ سو سے زاید مارخور تھے۔ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ بعض افراد کئی برس سے مارخور کا غیرقانونی شکار کررہے ہیں اور زندہ مارخور پکڑ کر ایک تا دو لاکھ روپے میں فروخت بھی کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ علاقہ کوہ تکتو کے پہاڑی سلسلے کا حصہ ہے جو کوئٹہ، پشین اور زیارت کے اضلاع سے گزرتا ہے۔
مارچ ہی کے مہینے میں امریکا سے ایک ایسی خبر آئی جو اگرچہ ماحولیات سے متعلق تھی ، لیکن پاکستان میں اسے سیاسی رنگ دیا گیا۔دراصل ستّائیس مارچ کو امریکا کے صدرجوبائیڈن نے کلائمٹ سمّٹ میں شرکت کے لیے مختلف ممالک کے چالیس راہ نماوں کو دعوت دی تھی ،لیکن اس فہرست میں پاکستان کا نام شامل نہیں تھا۔ امریکا کی جانب سے ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں بائیس اور تیئس اپریل کو جس ورچوئل سمّٹ کے انعقاد کا اعلان کیا گیا تھا اس میں وائٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق سترہ ایسے ممالک کے راہ نماؤں کو مدعو کیا گیا تھا جو تقریبا اسّی فی صد کاربن کے عالمی اخراج اور عالمی پیداوار کے ذمہ دار ہیں۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ صدر نے ان ممالک کے سربراہان کو بھی مدعو کیا ہے جنہوں نے موثر کلائمٹ لیڈر شپ کامظاہرہ کیا ہے، جو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں یا اپنی معیشت کو کاربن کے صفر اخراج کی طرف لے جانے کے لیے نئے طریقے استعمال کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر اس خبر کے ردعمل میں کئی صارفین نے سوال اٹھایاتھاکہ پاکستان کو اس فہرست میں شامل کیوں نہیں کیا گیا؟ دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان نے ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق کانفرنس میں پاکستان کو مدعو نہ کرنے سے متعلق شور شرابے پرحیرت کا اظہار کیا تھا۔ ایک ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق کانفرنس میں پاکستان کومدعو نہ کرنے پرحیرت ہے۔ تاہم موسمیاتی تبدیلی کے مشیر ملک امین اسلم کو اجلاس کے موافقت یا اڈاپٹیشن سے متعلق سیشن میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔
جون کا مہینہ ماحولیات کے ضمن میں پاکستان کے لیے بہت اچھا تھا۔دنیا بھر میں عالمی یومِ ماحول پانچ جون کو منایا جاتا ہے۔ 2021کا یوم ماحول ہمارے لیے خاص اہمیت کا حامل تھا کیوں کہ اس سال اس دن کی میزبانی کا اعزاز پاکستان کو حاصل ہوا۔یاد رہے کہ ہر سال اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں سے کوئی ایک اس دن کی میزبانی کرتا ہے۔ پاکستان کواقوام متحدہ کے زیر انتظام عالمی ماحولیاتی فنڈ کے بارہ رکنی بورڈ کی سربراہی بھی مل گئی ہے۔ امین اسلم کے بہ قول گرین کلائمٹ فنڈکی سربراہی ملناکسی اعزاز سےکم نہیں ، پاکستان ماحولیات کے دنیا کے سب سے بڑے فنڈکو سنبھالے گا اوریہ خطیر رقم استعمال کرے گا۔
وزیر اعظم پاکستان کے مشیر کا کہنا تھا کہ سو ارب ڈالرز کے اس فنڈ کو استعمال کرنے کا حق پاکستان کو ہو گا اور عالمی برادری اس فنڈ کے حصول کے لیے بھرپور مدد کرے گی۔ پاکستان کے نعمان بھٹی اس فنڈ کے چئیرمین ہوں گے۔ پاکستان کو اب تک ایک سو چالیس ملین ڈالرز مل چکے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس فنڈ کے استعمال کی ابتداء دس ارب درخت لگانے سے کرے گا۔
اسلام آباد میں عالمی یوم ماحول کی ورچوئل تقریب سے صدر ورلڈ اکنامک فورم، بورگ برینڈے ،اقوام متحدہ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر برائے ماحولیاتی پروگرام انگر اینڈرسن اور سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی خطاب کیا۔ ورچوئل تقریب سے چینی سفیر ٹم کرسٹوفرسن نے بھی خطاب کیا اور چینی صدر کا پیغام سنایا۔ مشیر ماحولیات ملک امین اسلم نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات بچنے کے لیے پندرہ نیشنل پارکس بنائے جا رہے ہیں، دس لاکھ ایکڑ پر محیط جنگلات کو دوبارہ آباد کریں گے۔
وزیر مملکت برائے ماحولیات زرتاج گل نے کہا کہ آج پاکستان کے لیے تاریخی دن ہے۔ کلین اینڈ گرین پاکستان منصوبے کے تحت دس ارب درخت لگائے جائیں گے۔ پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر دس ممالک میں شامل ہے۔ ہماری آبادی بڑھ رہی ہے اور وسائل کم ہورہے ہیں۔ فوڈ سیکیورٹی کے خطرے سے نبرد آزما ہونے کے لیے منصوبہ لا رہے ہیں۔
اس عالمی دن پر مرکزی تقریب کنونشن سینٹر اسلام آباد میں منعقد کی گئی تھی۔ تقریب میں برطانیہ اور چین کے وزرائے اعظم، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سمیت عالمی راہ نماؤںکے پیغامات سنائے گئے۔ سیاسی و حکومتی شخصیات، وزرا اور غیر ملکی سفیر بھی شریک ہوئے۔اس روز پاکستان اپنی ماحولیاتی خدمات کے بدلے دنیا سے اپنے قرضوں کے خاتمے (ڈیٹ فار نیچر سواپ) کا طلب گارہوا۔ پاکستان نے جون کے اوائل میں عالمی مارکیٹ میں دس سالہ مدت کے لیےپانچ سوملین یورو کے گرین بانڈز بھی فروخت کے لیے پیش کیے جن کابہت مثبت ردعمل آیا۔ ان سے حاصل ہونے والی رقم گرین انرجی یعنی ہائیڈرو پاورکے شعبے میں استعمال کی جائے گی۔
جولائی کے آخری ہفتے میں اسلام آباد کے مکینوں نے وہ مناظر دیکھے اور وہ تکالیف جھیلیں جن سے وہ کبھی واقف نہیں تھے۔ اسلام آباد میں تباہ کن بارش ہوئی، گلی ، محلّوں میں سیلابی کیفیت پیدا ہوئی، کئی علاقوں میں پانی متعدد گاڑیوں کوبہا لے گیا اور کئی اموات بھی ہوئیں۔طوفانی بارش سے کئی نشیبی علاقوں کی سڑکیں بپھری ہوئی ندیاں بن گئیں اور گاڑیوں کو تنکوں کی طرح بہا لے گئیں۔
محکمہ موسمیات کے مطابق دارالحکومت کے بعض حصوں میں 28 جولائی کی صبح چند گھنٹوں میں سو ملی میٹر سے زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی۔ سیکٹر ای الیون سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں پانی گھروں میں داخل ہو گیا۔اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کے ٹوئٹر ہینڈل سے اس واقعے کو ’’کلاؤڈ برسٹ‘‘ قراردیا گیالیکن بعد میں اس کی تردید آ گئی کہ یہ کلاؤڈ برسٹ نہیں تھا۔علاوہ ازیں مختلف علاقوں میں شدید گرمی پڑی، بارش اور ژالہ باری ہوئی، پاؤ، پاؤبھروزنی اولے پڑے، جانی اور مالی نقصانات ہوئے۔
جولائی کے آخری ہفتے میں یہ اچھی خبر سننے کو ملی کہ پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری جلد شروع ہونے والی ہے۔اُنتیس جولائی کو الیکٹرک وہیکل کے حوالے سے اسلام آباد میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر توانائی حماد اظہر کا کہنا تھا اس سال پاکستان میں بجلی سے چلنے والی گاڑیاں بننا شروع ہو جائیں گی۔ الیکڑانک گاڑیوں سے پٹرول کے درآمدی بل میں کمی آئے گی۔ گزشتہ سال الیکڑک وہیکل پالیسی کا اجرا ہوا، اس کے بعد ان گاڑیوں کی قیمت میں کمی آئی ہے۔
کوشش ہے کہ بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی قیمت کم کی جا سکے۔ اسی ضمن میں صوبہ سندھ سے بھی ایک اچھی خبر آئی جس میں کہا گیا تھا کہ سندھ الیکٹرک وہیکلز کی رجسٹریشن کرنے والا پہلا صوبہ بن گیاہے۔اب صوبے میں الیکٹرک گاڑیاں رجسٹرڈ ہو سکتی ہیں۔ اس سے قبل اِن گاڑیوں کی رجسٹریشن صرف دارالحکومت اسلام آباد میں کی جاتی تھی۔ سندھ کے وزیر برائے ایکسائزمکیش کمارچاولہ نےاعلان کیا تھا کہ الیکٹرک گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی سندھ میں رجسٹر یشن شروع ہو گئی ہے۔اس کے علاوہ سندھ حکومت نے ملک میں سب سے پہلے الیکٹرک بس شروع کی۔
یاد رہے کہ مارچ2021 میں سندھ کے وزیر ٹرانسپورٹ سید اویس قادر شاہ نے کراچی میں پہلی الیکٹرک بس کا افتتاح کیا اور مستقبل قریب میں مزید سو الیکٹرک بسیں شامل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم وفاق اور صوبے کی جانب سے اس بارے میں کیے گئے اعلانات میں سے سوائے سندھ میں رجسٹریشن کے آغاز کے، کسی پر بھی سال کے اختتام تک عمل ہوتا نظر نہیں آیا تھا ۔
ماحول کو بہتر بنانے کی کوششوں کے ضمن میں وزیر اعظم نےنو اگست کو سگیاں،لاہور میں دنیا کے سب سے بڑے میاواکی جنگل کا افتتاح کیا۔ وزیر اعظم عمران خان کو سگیاں میں میاواکی جنگل سےمتعلق بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ سو کنال پر محیط جنگل میں ایک لاکھ پینسٹھ ہزار پودے لگائے جارہے ہیں۔ پھر پچّیس اگست کو وزیر اعظم نےشیخوپورہ میں رکھ جھوک جنگل کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی ۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب اسمارٹ جنگل اُگائے جارہے ہیں جس میں ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جارہا ہے جس سے ہر پودے کی نمو دیکھی جاسکے گی۔اگر کسی جگہ درخت کاٹا جائے گا تو سینسر کی وجہ سے فوری معلوم ہوجائے گا کہ یہاں درخت کاٹا جارہا ہے۔سائنس کایہ فائدہ ہے اور اسمارٹ فاریسٹ کو پورے پاکستان کے لیے مثال بنایا جائے گا۔
ستمبر میں امریکا اور پاکستان نےموسمیاتی تبدیلی سے نبردآزما ہونے کے لیے مل کر کام کرنےکا عزم کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان موسمیاتی اور ماحولیاتی ورکنگ گروپ کے قیام کا فیصلہ کیا جس کا افتتاحی اجلاس اسلام آباد میں ہوا۔ اسی ماہ گلگت بلتستان میں پانی کے معیار پر ایک رپورٹ جاری ہوئی جس میں وہاں پینے کے پانی کے ذرایع میں بڑے پیمانے پر آلودگی کے بارے میں بتایا گیا تھا جس سے وہاں کے باسیوں کی صحت پر سنگین اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
نومبر کے پہلے ہفتے میں برطانیہ نے ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے، پانی کے بہتر طریقے سے استعمال اور ماحول کے حوالے سے سرمایہ کاری یقینی بنانے کے لیے ساڑھے پانچ کروڑ پاؤنڈز کی امداد کا اعلان کیا ۔ برطانوی ہائی کمیشن کی جانب سے جاری شدہ بیان میں کہا گیا تھاکہ یہ رقم اقوام متحدہ کی ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے منعقدہ چھبّیسویں کانفرنس میں کیے گئے وعدوں کا حصہ ہے اور فنڈنگ کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
نومبر کے پہلے ہفتے میں صوبہ سندھ کی کابینہ نے ایک اچھے اقدام کی منظوری دی۔ صوبائی کابینہ نے چارنومبر کو ویسٹ ٹو انرجی پالیسی منظور کی۔ صوبائی وزیر توانائی امتیاز شیخ کا کہنا تھا کہ پہلے مرحلے میں پالیسی کو کراچی میں پچاس میگاواٹ کے پراجیکٹس کے ساتھ لاگو کیا جائے گا۔دوسرے مرحلے میں کچرے سے توانائی کے منصوبوں کی ترقی کے لیے پالیسی کو پورے سندھ تک بڑھایا جائے گا۔
لیکن نو نومبر کو یہ بُری خبر آئی کہ چترال گول نیشنل پارک سےمارخورغائب ہونے لگے ہیں۔ رکن قومی اسمبلی مولاناعبدالاکبر چترالی نے مارخور کا گوشت اسلام آبادکو سپلائی کرنے کا الزام عاید کیا ،لیکن وائلڈ لائف چترال نے اس معاملے پر خاموشی اختیارکیے رکھی۔ مولانا عبدالاکبر چترالی نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں کہاکہ قومی جانوروں کا غیر قانونی شکار ہو رہا ہے اور ان کا گوشت اسلام آباد میں سپلائی کیا جاتا ہے۔ مارخوروں کی تعداد تشویش ناک حد تک کم ہوکرآٹھ سو رہ گئی ہے۔ مارخورکے غیر قانونی شکار میں سرکاری اہل کار ملوث ہیں۔ متعلقہ حکام کو آگاہ کردیا گیاہے، لیکن کوئی نوٹس نہیں لیا گیا، جس سے مارخوروں کی نسل ختم ہوتی جارہی ہے۔
اٹھارہ نومبر کو لاہور ہائی کورٹ نے صوبہ پنجاب کے سب سے بڑے شہر لاہور میں اسموگ کی وجہ سے تمام سرکاری و نجی دفاتر میں ملازمین کی حاضری پچاس فی صد تک محدود کرنے کا حکم دیا ۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ اور ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کے لیے سرکاری و نجی دفاتر میں حاضری نصف تک محدود کی جائے۔ بعض بُری خبروں کے بعد بلوچستان سے یہ حوصلہ افزا خبر آئی کہ وہاں اِکّیس نومبر کو جنگلات بچانے کے لیے اپنی نوعیت کا پہلا جرگہ ہوا۔اس منفرد جرگے میں کسی قتل، زمین کے تنازعے یا قبائلی جھگڑے کے حل کی بات نہیں ہوئی بلکہ ژوب اور شیرانی میں جنگلات کی کٹائی اور پرندوں کے شکار پر مکمل پابندی کی قرارداد منظور کی گئی۔
نومبرکے آخری ہفتے تک صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں، بالخصوص لاہور میں اسموگ اور دھند کی وجہ سے لوگوں کو بہت مشکلات کا سامنا تھا۔سرکاری حکام اس سے نمٹنے کے لیے بہت دعوے کررہے تھے ،لیکن تیئس نومبر کو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے اسموگ کے حوالے سے شیراز ذکا، آفتاب ورک اور ابو ذرسلمان خان نیازی کی درخواستوں پر سماعت کی تو صوبائی حکومت کی جانب سے اس بارے میں کیے جانے والے دعووں کی قلعی لاہور کے میئر کرنل ریٹائرڈ مبشر جاویدنے کھول دی۔
انہوں نے عدالت میں پنجاب حکومت کے حوالے سے شکایت کی کہ انہیں آٹھ فی صد سے زیادہ بجٹ استعمال کرنے کی اجازت نہیں اور نہ ہی مکمل اختیارات دیے جا رہے ہیں۔دوسری جانب صوبائی وزیر ماحولیات باؤ محمد رضوان اپنے اس بیان پر قائم تھے کہ لاہور شہر میں اسموگ نہیں گرد ہے۔
نومبر کےآخری ایّام میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے دوران زرتاج گل اور امین اسلم میں لڑائی کا انکشاف ہوا۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی میں حکم راں جماعت کے ایک رکن ریاض فتیانہ نے گلاسگو میں ماحولیات کے حوالے سے ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کوپ26میں وزارت موسمیاتی تبدیلی کے وفد کی کارکردگی پر سوال اٹھا دیے ۔ ریاض فتیانہ نے اجلاس میں بتایا کہ گلاسگو میں وزیر ماحولیات زرتاج گل ، معاون خصوصی امین اسلم کے ساتھ لڑ کر وطن واپس آ گئی تھیں۔ ریاض فتیانہ نے کہا کہ کانفرنس میں افسران کی نااہلی کے باعث پاکستان کی نمائندگی غیر معیاری تھی۔
کانفرنس میں پاکستان پویلین خالی رہا۔ پویلین میں قائداعظم ؒ اور وزیراعظم پاکستان کی تصویر تک نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پویلین میں نیپال اور دیگر ممالک کے وفود کا کسی افسر نے استقبال نہیں کیا۔ یہ پاکستان کی بدنامی تھی اور اس کی تحقیقات ہونی چا ہییں ۔اس پرپبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے کانفرنس کے دوران زرتاج گل اور امین اسلم میں لڑائی کی تحقیقات کا حکم دیا۔ دوسری طرف وزیراعظم کے مشیر ملک امین اسلم نے ایک بیان میں خاتون وفاقی وزیر سے جھگڑے کی خبر کو بے بنیاد قرار دیا ۔پھر معاملہ آگے بڑھا اور پاکستان تحریک انصاف کی احتساب اور ڈسپلن کمیٹی نے رکن قومی اسمبلی ریاض فتیانہ کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا تھا ۔
حکم راں جماعت کے گرین ایجنڈے کو ایک اور سخت دھچکا اُنتیس نومبر کو پہنچا جب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی نے گلاسگو میں کوپ 26 کانفرس اوردس بلین ٹری سونامی منصوبے میں کرپشن اور مالی بے ضابطگیوں کے الزامات پر انکوائری اور تھرڈ پارٹی آڈٹ کا حکم دیا۔ اجلاس میں پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی میجر (ر) طاہر صادق نے اپنی ہی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
طاہر صادق کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کانفرنس کے لیے بیرونی فنڈز میں بڑے پیمانے پر کرپشن ہوئی، ساتھ ہی مطالبہ کیا کہ دس ارب درخت منصوبے کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کرایا جائے۔انہوں نے الزام عاید کیا کہ منصوبے کی مد میں پینتیس لاکھ ڈالرز کے فنڈز ہڑپ کیے گئے ہیں جس کے لیے وزیر مملکت برائے موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل کو مورد الزام ٹھہراؤں گا۔
اختتامِ برس کے قریب بائیس دسمبر کوماحولیاتی آلودگی کم کرنے کی کوششوں سے منسلک منصوبے کے بارے میں یہ خوش کُن خبر آئی کہ حکومت نے نئی آٹو پالیسی میں الیکٹرک گاڑیوں کے لیے ٹیکس میں چھوٹ دینے کا فیصلہ کرلیاہے۔ مقامی سطح پر تیار کردہ الیکٹرک گاڑیوں پر سیلز ٹیکس سترہ سے ایک فی صداور الیکٹرک گاڑیوں کے پرزہ جات پر کسٹم ڈیوٹی ایک فی صد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔الیکٹرک گاڑیوں کی سی بی یو کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی پچّیس سے کم کرکےدس فی صد ہوگی اور موٹرسائیکل کے الیکٹرک پرزہ جات پر ایک فی صد کسٹم ڈیوٹی ہوگی۔
یوں یہ برس ماحول کے ضمن میں بہت بُرا رہا اور نہ بہت اچھا۔ حالاں کہ ہمیں ماحول بہتر کرنے کی اپنی اشد ضرورت کے تحت اسے بہت اچھا بنانا چاہیے تھا۔
(لے آؤٹ آرٹسٹ : اسرار علی)