یوکرین پر روس کا حملہ کھاد کی عالمی صنعت کو تباہ کر رہا ہے۔ کسانوں کا استحصال ہورہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومتوں کو اس کی روک تھام کے لیے قدم اٹھانا چاہیے ،کیوں کہ یہ صورت حال دوسری جنگ عظیم کے بعد خوراک کا بد ترین بحران پیدا کرسکتی ہے۔
روس اوراس کا قریبی اتحادی بیلاروس، دنیا بھر میں کھاد کے بڑے برآمد کنندگان ہیں ، تاہم دونوں ممالک پر عاید پابندیوں نے سپلائی چین کو متاثر کیا ہے اور قیمتیں بہت بڑ گئی ہیں۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ ایندھن اور اناج کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کے ساتھ ، پوری دنیا میں بہت سے لوگوں کو خوراک کی سنگین قلت کے خطرے سے دوچار کرسکتا ہے۔
امریکا میں قائم فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، کی شارلٹ ہیبرینڈ (Charlotte Hebebrand )کا کہنا ہے کہ روسی حملے نے پہلے سے خراب صورت حال کو مزید خراب کردیا ہے۔ قدرتی گیس ، نائیٹروجن پر مبنی کھادوں کا ایک اہم جُزو ہوتی ہے،جس کے نرخ میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اور چین نے کھاد کے اجزء کی برآمدات معطل کردی ہیں ، جس سے عالمی سطح پردست یابی کی صورت حال مزید خراب ہوگئی ہے۔ شارلٹ کے مطابق یوکرین پر حملہ تو بعد میں ہوا، اس سے پہلے ہی کھاد کی قیمتوں میں اضافے کا ایک طویل عمل تھا ، لہٰذا یہ ایک اضافی عنصر تھا جس نے مارکیٹ کو بری طرح متاثر کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ روس اور بیلا روس پر عاید پابندیوں اور برآمدی پابندیوں کے امتزاج نے بنیادی طور پر ان تمام کھادوں کو مارکیٹ سے اٹھا لیاہے جن کی عام طور پر ان ممالک سے تجارت ہوتی ہے۔ وہ ممالک جو روسی اور بیلا روسی کھاد پر زیادہ درآمدی انحصار کرتےتھے بُری طرح متاثر ہوئے ہیں، اور اس نے کھاد کی دست یابی کو کم کردیا ہے۔
شارلٹ کے بہ قول خوراک اور کھاد کی قیمتیں اکثر گردش میں رہتی ہیں ۔اس مرتبہ ماضی سے مختلف بات یہ ہے کہ یہ بحران ایسے وقت میں آیا ہے جب کورونا کی وباکی وجہ سے عالمی معیشتوں کوجوزبردست دھچکا پہنچا تھا اس پر قابو پانےکے لیے مختلف ممالک بھاری رقوم خرچ کررہے ہیں۔ وہ متنبہ کرتی ہیں کہ اثرات خاص طور پر ان ممالک کے لیے سنگین ہوں گے جو سب سے زیادہ خطرے میں ہیں یا پہلے ہی خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔
پابندیوں نے تین اہم غذائی اجزاء کی قیمتیں بہت بڑھادی ہیں، یعنی نائٹروجن، پوٹاشیم اور فاسفیٹ۔ تینوں میں سے پوٹاشیم اور فاسفیٹ خاص طور پر اس طرح کے اقدامات کے لیے حساس ہیں ، کیوں کہ ان کی کان کنی صرف مخصوص ممالک میں کی جاسکتی ہے۔ جس کے نتیجے میں عالمی زرعی منڈی طویل عرصے سے روس اور بیلا روس سمیت چند پیداواری ممالک پرانحصار کرتی ہے ۔بہت سے ممالک روس اور بیلا روس سے کھاد کی درآمد پر انحصار کرتے ہیں۔
ہیبرینڈ (Hebebrand ) کا کہنا ہے کہ حکومتوں کو اس انحصار سے آزاد ہونا چاہیے اور طویل مدتی حل تلاش کرنےچاہیے۔ اس کا ایک ممکنہ جواب اپنی ملکی پیداوار بڑھانا ہے ۔ کینیڈا پوٹاشیم کے ساتھ ایسا ہی کر رہا ہے ۔ دریں اثناء ، بھارت نائٹروجن کھاد میں خود کفیل بننے کے لیے اقدامات کر رہا ہے ، جب کہ برونائی اور نائیجیریا پیداواری صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے پلانٹ بنارہے ہیں ۔
متبادل ذریعہ اور موثر استعمال
زرعی ماہرین کے مطابق متبادل کھادوں کا استعمال عام طور پر زیادہ مؤثر طریقے کے ساتھ ، موجودہ بحران کے اثرات کو کم کرنے میں مدد کرسکتا ہے۔اکثر اوقات، کھاد کسی فصل کے لیے مخصوص طریقے سے استعمال نہیں کی جاتی، اس لیے بہت زیادہ زیاں ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کیمیائی کھادوں کا باکفایت استعمال بحران کا ایک مؤثر قلیل مدتی حل ہوسکتا ہے ۔پودوں کی جینیات کے میدان میں ہونے والے تجربات، فصلوں میں تبدیلی کرکے، کھاد کے بجائے ہوا سے نائٹروجن استعمال کرنے کی صلاحیت رکھنے کے امکان پیش کرتے ہیں ۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پانی پر مبنی برقی طریق عمل کا استعمال کرتے ہوئے امونیا پیدا کرنے کے لیے تجربات جاری ہیں۔ فاسفیٹ اور نائٹروجن کھاد بنانے کے لیے امونیا کلیدی خام مواد ہے۔
ماہرین کے بہ قول جب تک کسانوں کو ان کی ضرورت کی کھادفراہم ہونے کی ضمانت نہیں دی جاتی، تب تک خوراک کی بلند قیمتیں برقرار رہیں گی۔ کھاد کے بلند نرخ آج کے خوراک کے تحفظ کے خدشات کو ایک طویل مدتی مسئلے میں تبدیل کرنے کا خطرہ رکھتے ہیں ۔ اگر یہ نرخ یوں ہی بلندی پر رہے تودنیا بھر میں مستقبل میں پیداوار یا پیداواری منافعے میں کمی کا امکان ہے جس سے خوراک کی قیمتوں میں انتہائی اضافے کا شدید ترین خطرہ ہوگا۔
حیاتیاتی طریقہ
انسان کرۂ ارض پر صدیوں سے اپنی خوراک ،لباس ایندھن اور رہایش کے لیے پودوں پر انحصا ر کررہا ہے۔ فصلوں اور پودوں کی غذائی ضروریات زمین میں موجود غذائی عناصر کے لامحدود خزانوں ،زرعی وصنعتی فضلہ جات کی ری سائیکلنگ ،بارش اور آب پاشی کے پانی میں حل شدہ غذائی عناصر ،زمین کے اندر اور پودوں میں موجود کئی اقسام کے جرثوموں کی وجہ سے پوری ہوتی ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ صدی کے دوران کیمیائی کھاداور کیمیائی زہر زرعی کاشت کے ضا من سمجھے جانے لگے تھے۔لیکن اس کے اثرات انسانی صحت اور ماحول کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے۔اس کے مضر اثرات نے زراعت کے ماہرین کی توجہ زمین کی زرخیزی بر قرار رکھنے، فصلوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے، پودوں کے امراض کے خلاف جنگ کے نئے طریقے دریافت کرنے اور مفید جر ثوموں پر تحقیق کی جانب مبذول کرائی ۔حیاتیاتی کھاد یابایو فرٹیلائزر اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
حیاتیاتی کھاد کا زراعت کے شعبے میں اہم کردار ہے۔اس سے مراد فطری طور سے تیار شدہ وہ کمپوسٹ مٹیریل ہے جوزمین میں موجود خرد حیاتیات نا میاتی مادوں سے بنتاہے۔یہ کھاد ایک جانب فصل کو ا ہم غذائی عناصر مثلاً نائٹروجن ،فاسفورس وغیرہ کی فراہمی بہتر بناتی ہے اور دوسری جانب ایسے ہارمونز پیدا کرتی ہےجو پودوں کی افزایش کا باعث ہوں۔
ماہرین زرا عت کے مطابق بایو فرٹیلائزر کے استعمال سے زرعی اجناس کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ممکن بنایا جاسکتا ہے اوراس کے ذریعے پھلی والی فصلوں کی پیداوار میں سو فی صد تک بھی اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
بایو فرٹیلائزر، ایسے جر ثوموں پر مشتمل ہے جن کی موجودگی زمین کی قدرتی زرخیزی بر قرار رکھتی ہے بلکہ ما ہر ینِ زراعت کے مطابق بایو فرٹیلائزر کی اہمیت وقت کے ساتھ تیزی سے بڑھتی جارہی ہے ،کیوں کہ اس کا استعمال زمین کی تیزی سے کم ہوتی ہوئی قدرتی زرخیزی کو روکنے میں معاون ثابت ہوتا ہے ۔
زمین میں بعض جرثومے ا یسے ہوتے ہیں جو ہوا میں موجود نائٹروجن کو جذب کر سکتے ہیں۔ یہ جر ثومے پھلی والی فصلوں کی جڑوں کے اندر گھر بنا کر رہتے ہیں اور ہوا میں موجود نائٹروجن کو قابل استعمال بنا کر پودے کی نشو ونما کے لیے مہیا کرتے ہیں ۔ اگریہ (جر ثومے) کھیت میں مناسب تعداد میں موجود ہوں تو نائٹروجن کی مصنوعی کھاد کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔زرعی سائنس دانوں نے ایک تحقیق کے بعد ان جر ثوموں پر مشتمل ایک کھاد تیار کی ہے ،جسے ’’نائٹروجنی بایو کھاد ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ پاکستان میں اُگنے والی پھلیوں ،مثلا، سویا بین ،چنا ،مونگ ،ماش ،برسیم اور مونگ پھلی وغیرہ کے لیے بہت زیادہ مفید ہوتی ہیں۔ اس سے مذ کورہ فصلوں کو بہتر بنانے کے لیے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
جدید دور میں بایو فرٹیلائزر ،بایو کنٹرول اور بایو ٹیکنالوجی کے ذریعے مفید جر ثوموں کی کار کردگی بڑھا کر مضرکیمیائی عوامل سے چھٹکارا پانا مستقبل کی زرعی ترقی کا مطمع نظر بن گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق پودوں کے غذائی عناصر میں سب سے زیادہ نائٹروجن کی ضرورت ہوتی ہے۔
زمین کے ہوائی کرۂ میں تقریباً 79فی صد نائٹروجن پائی جاتی ہے ،جو زمین اور سمندر کے فی ایکڑ رقبے پر 78,000 ٹن یوریا کھاد کے برابر ہے ۔ایک اندازے کے مطابق جراثیم کے ذریعے سالانہ سترہ کروڑ ٹن نائٹروجن پیداہوتی ہے ،جو کھیتوں، چرا گاہوں اور جنگلات میں پیڑوں اورپودوں کی غذائی ضروریات پوری کرتی ہے۔اس کے برعکس سیکڑوں کار خانے اربوں ڈالرز کا ا یندھن اور لاکھوں انسانوں کی انتھک محنت کے بعد سالانہ پانچ سے چھ کروڑ ٹن نائٹروجن تیار کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق دنیامیں تیل اور گیس کے بے دریغ استعمال ، تیزی سے بڑھتی ہو ئی قیمتوں اور ختم ہوتے ہوئے ذخائر کی وجہ سے اب ز ر ا عت صرف کیمیائی کھادپر انحصار نہیں کرسکتی۔ فاسفورس، پودوں کادوسرا بڑا غذائی عنصر ہے جو کثر ت سے زمین میں پایا جاتا ہے ۔ سائنسی تجزیے کے مطابق ہماری زمینوں میں فاسفورس کی مکمل مقدار تقریباً 1000 پی پی ایم ہے۔ لیکن یہ زمین میں موجود کیلشیم کے ساتھ عمل کرکے ناحل پذیرہونے کی وجہ سے پودے کی ضر و ر یا ت پوری نہیں کر پاتی۔
حل پزیری بڑھانے کا قدرتی ذریعہ
کھاد کی تیاری،نقل وحمل ، ا سٹو ر یج، غرض یہ کہ تمام مراحل میں توانائی کے استعمال کی وجہ سے فاسفورس کھاد کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے اور کاشت کار سفارش کردہ مقدار کھیت میں ڈالنے سے قاصر ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فاسفورس کی حل پذیر ی بڑھانے والے بہت سے ایسے جراثیم دریافت ہوئے ہیں جنہیں اگر ز مین میں ڈالا جائے تو یہ جر ثومے کھاد کے طور پر ڈالی گئی فاسفورس کی حل پذیری بڑھا کر فصل کی بہتر پیداوار کا باعث بنتے ہیں۔ نائٹروجن اور فاسفورس کے علاوہ جڑوں میں پائے جانے والے بیکٹیریا، پوٹاش، زنک اور د یگر اجزاکی فراہمی بھی بہتر بناتے ہیں ۔
ماہرین کاکہنا ہے کہ، اب ایسی فصلیں تیار کرنی چاہیں جن میں مختلف بیماریوں کے خلاف لڑنے کی صلا حیت ہو،وہ اینٹی بایوٹک خصوصیات کی حامل ہوں ،بیماری ،خشکی ،خراب موسمی حالات میں پودوں کو ان کے خلاف قوت اور طاقت بخشیں اور زمین کے اندرہی مسائل کا قلع قمع کرسکیں۔علاوہ ازیں وہ مفید پیتھو جنز (Pathogens) یعنی جراثیم کی تعداد بھی بڑھائیں، تاکہ پودے کی جڑوں میں مفید جر ثومے زیادہ تعداد میں پائےجائیں۔ یہ جر ثومے زمین میں موجود نامیاتی ما د ے،فصل کی جڑوں سے خارج ہونے والے گلوکوز ، کا ر بن اور نائٹروجن کمپائونڈز سے خوراک حاصل کرتے ہیں۔ پودے کی عمر کے ساتھ ان کی مقدار اور جر ثوموں کی تعداد بھی بدلتی رہتی ہے۔
ترقی یافتہ اور ترقی پذیر زرعی ممالک مثلاً امریکا ، یورپ ، روس ،چین ،بھارت اور جاپان وغیرہ میں بایو فرٹیلائزرپرتحقیق اور پروڈکٹس کی تیاری کا کام وسیع پیمانے پر ہورہا ہے۔ لاکھوں ایکڑ رقبے پر بایو فرٹیلائزر اور بایو کنٹرول پروڈکٹس کام یابی سے استعمال ہو رہی ہیں ۔ لیکن پا کستا ن میں تحقیق اور کمرشل پروڈکٹس کی تیاری ابھی ابتدائی مر ا حل میں ہے ۔
شعبہ جراثیمِ اراضی، زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد ، زرعی یونیو رسٹی، (این ، اے ،آر ،سی )کی جانب سے کیےگئے تجربات اس بات کا ثبوت ہیں کہ با یو فرٹیلائزر کا استعمال زمینی صحت کی بحالی، پیداوارمیں اضافے ، کیمیائی کھاد کی بچت ، ماحول کے تحفظ اور پید ا و ا ر ی لاگت میں نمایاں کمی کا باعث ہے۔ بایو فرٹیلائزر کی بہت سی اقسام ہیں ،جن سے ہم استفادہ کرسکتے ہیں۔
زرعی ماہرین ہمیں بار بار یہ یاد دلاتے ہیں کہ کھاد غذائیت ہے جو فصلوں کو اُگانے میں مدد دیتی ہے۔ کھاد کے ضایع ہونے سے ماحولیاتی آلودگی پھیلتی ہے۔ اس لیے کھاد کے استعمال کی شرح بہتر بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ فصلیں کھاد میں موجود غذائی اجزاء بہتر طریقے سے جذب کر سکیں اورکھاد کے زیاں سے ماحولیاتی آلودگی پیدا نہ ہو۔ یاد رہے کہ کھادکے استعمال کی شرح سے مراد زمین کے جذب کی کل مقدار میں فصلوں کے ذریعہ غذائی اجزاء کے جذب ہونے کا فی صدہے۔ کھاد کے استعمال کی شرح غذائی اجزاء کے نقصان کے حجم کا تعین کرتی ہے۔