لندن (پی اے) ریسرچرز کا کہنا ہے کہ دیکھنے والوں کی ناپسندیدگی اور نفرت کی وجہ سے خواتین کھلے عام بریسٹ فیڈنگ کرنے سے ہچکچاتی ہیں ۔ سوانسی اینڈ کارڈف یونیورسٹی کے ماہرین نے کہا کہ اجنبیوں کے رویوں کا مائوں کے رویئے پر براہ راست اثر مرتب ہوتا ہے۔ انگلینڈ اینڈ ویلز میں پبلک میں بریسٹ فیڈنگ قانونی ہے۔ ینسیبول رونڈا کینن ٹاف سے تعلق رکھنے والی گیونن پرٹچارڈ نے کہا کہ جب وہ اپنی بیٹی ایری کو بریسٹ فیڈنگ کر رہی تھی تو ایک ورک مین نے کمنٹس کیے جس پر وہ تباہ ہو کر رہ گئی تھی ۔ جب یہ واقعہ پیش آیا تھا تو اس وقت 31سالہ پرٹچارڈ اپنی فرینڈ اور بیٹیوں کے ساتھ پلے گرائونڈ میں تھی۔ اس وقت ہماری بیٹیوں کی عمریں تقریباً 18ماہ تھیں ۔ میری فرینڈ اپنی بچی کو بوتل سے دودھ پلا رہی تھی اور میں اپنی بیٹی کو بریسٹ فیڈنگ کر رہی تھی ۔ اس وقت کچھ ورکرز قریب ہی موجود تھے جنہوں نے میری بریسٹس کے بارے میں کچھ سیکسوئل کمنٹس کیے تھے ۔ گیونن پرٹچارڈ کا کہنا ہے کہ اب ایری کی عمر تین سال ہے اور فیڈنگ چھوڑ دی ہے گیونن کا کہنا ہے کہ اس تجربے نے مچھے حقیقت میں اپ سیٹ کر دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس لمحے مجھے اور میری بیٹی کو جنسی طور پر نشانہ بنانا خوفناک تھا۔ گیونن کا کہنا ہے کہ ان کمنٹس نے مجھے اپنی بیٹی کے ساتھ تعلق پر شرمندہ کر دیا ۔ ان کمنٹس کے بعد گیونن پرٹچارڈ کچھ وقت کیلئے اس پلے گرائونڈ میں واپس نہیں گئی اور اس کا کہنا ہے کہ اس تجربے نے اسے پبلک میں بریسٹ فیڈنگ سے روک دیا ۔ بی بی سی ریڈیو ویلز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ مکمل طور پر نامناسب تھا یہ واقعہ ایک چلڈرن پارک میں پیش آیا تھا یہ ان جگہوں میں سے ایک ہے جہاں میری بیٹی انتہائی خوش اور محفوظ ترین ہے اور جہاں کسی خوف اور تعصب کے بغیر فیڈ کرنے کےقابل ہے۔ لیکن ایسا نہیں تھا جس صورت حال کا مجھے اورمیری بیٹی کو سامنا کرنا پڑا ۔ انہوں نے کہا کہ میں اب بریسٹ فیڈنگ سپورٹ ورکر کے طور پر ٹریننگ کر رہی ہوں کیونکہ وہ نہیں چاہتی کہ وہ جس صورت حال سے گزری ہے لوگ بھی اس کا سامنا کریں ۔ انہوں نے کہا کہ میں پبلک میں بچے کی فیڈنگ سے آگے نہیں جانا چاہتی بلکہ یہ اپنے بچے سے ساتھ آپ کے تعلق اور بندھن کا معاملہ ہے انہوں نے کہا کہ اس صورت حال نے ناصرف مجھے شرمندہ کر دیا ہے بلکہ میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ ان کمنٹس نے میرے اور میری بیٹی کے تعلق کو بھی توڑ کر رکھ دیا ہے۔ کیونکہ میں اب مزید پبلک میں بریسٹ فیڈنگ نہیں کرنا چاہتی ۔ مس گیونن پرٹچارڈ نےکہا کہ اس تجربے نے میری زندگی اور ذہن پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سوسائٹی کو اب یہ تعلیم دینے کی ضرورت ہے کہ بچے کو پبلک میں بریسٹ فیڈنگ کرنا سیکسوئلائزڈ نہیں ہے۔ اس سٹڈی کی فیادت سوانسی یونیورسٹی کے سینٹر فار لیکٹیشن ‘انفینٹ فیڈنگ اینڈ ٹرانسیشنل ریسرچ سے منسلک ڈاکٹر ایمی گرانٹ نے کی ہے۔ اس سٹڈی میں زیادہ تر امریکہ ‘ برطانیہ اور آسٹریلیا کی موجودہ ریسرچ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ان کی ریسرچ ٹیم نے 17700حاملہ خواتین اور مائوں کے جوابات کے ساتھ ساتھ 153مرد پارٹنرز ‘ 46 گرینڈ پیرنٹس اور 438 عام افراد کا بھی جائزہ لیا ۔ انہوں نے کہا کہ جن عام افراد نے پبلک میں بریسٹ فیڈنگ کا مشاہدہ کیا انہوں نےاس عمل پر مائوں کو بچوں کو ضرورت کے وقت بریسٹ فیڈنگ کرنے والی کیئر گیورز کے بجائے سیکسولائزڈ کے طور پر غلط انداز میں فوکس کیا ان کاکہنا ہے کہ اس نے جارحانہ اور تنائو کا انوائرمنٹ پیدا کیا یہ ایک ناخوشگوار صورتحال ہے جس میں مائوں کیلئے اپنے بچوں کو پبلک میں فیڈنگ کرنا مشکل تر بنا دیا ہے جو کہ تکلیف دہ ہے۔ یہ سٹڈی جرنل میٹرنل اینڈ چائلڈ نیوٹریشن میں شائع ہوئی ہے۔ سٹڈی میں یہ پایا گیا ہے کہ مائیں پبلک میں بریسٹ فیڈنگ کو بدنما داغ کے طور پر دیکھنے سے آگاہ ہیں اور انہیں اجنبیوں کے ساتھ تنازع کا خدشہ تھا ۔ ان کا کہنا ہے کہ بریسٹ فیڈنگ کے حوالے سے خوف مساویانہ محسوس نہیں کیا جاتا جوان غریب اور پسماندہ اورمارجنلائزڈ ایتھنیسٹیز بیگ گرئونڈ رکھنے والی مائوں نے پبلک میں بریسٹ فیڈنگ پر نگرانی اور بدنما داغ کو رپورٹ کیا اور انہیں بریسٹ فیڈنگ پر نفرت کے رد عمل کا بھی تجربہ ہوا ہے ۔ اس سٹڈی میں یہ بھی سامنے آیا کہ لوگوں کو نارمل انفینٹ فیڈنگ بیہیوئر کی ضرورت کے حوالے سے زیادہ فہم و فراست نہیں ہے ۔ ڈاکٹر گرانٹ نے کہا کہ ہمیں فوری طور پر پبلک میں بریسٹ فیڈنگ کے بارے میں اپنے نظریے کی اصلاح کی ضرورت ہے تاکہ یہ سمجھا جاسکے بریسٹ فیڈنگ بچوں کیلئے ان کے والدین کی جانب سے نیوٹریشن ہے نا کہ کوئی سیاسی یا سیکسوئلائزڈ عمل ہے اس کا مطلب ہے کہ عوام کو بچوں کی بریسٹ فیڈنگ پر گھورنا ‘ ٹٹولنا یا منفی تبصرہ نہیں کرنا چاہیے۔