• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاور سیکٹر میں PTI حکومت کا اربوں روپے کا گھپلا بے نقاب

اسلام آباد (خالد مصطفیٰ) پاور سیکٹر میں پی ٹی آئی حکومت کا اربوں روپے کا گھپلا بے نقاب، سابق حکومت نے سستی قابل تجدید توانائی پر ایف او کی بنیاد پر مہنگی بجلی پیدا کرنے کو ترجیح دی۔ تفصیلات کے مطابق پاور ڈویژن میں مخلوط حکومت کی اعلیٰ انتظامیہ نے اربوں روپے کے گھپلے کا سراغ لگایا ہے کہ کس طرح پی ٹی آئی حکومت نے بظاہر ’فرنس آئل مافیا‘ کو خوش کرنے کے لیے فرنس آئل پر مبنی پاور پلانٹس چلانے کے لیے ’قابل اعتراض حکمت عملی‘ کی وجہ سے 3 سینٹ فی یونٹ (7روپے فی یونٹ) کی سستی بجلی سے عوام کو محروم رکھا ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پی ٹی آئی کی حکومت نے 2019سے اب تک 30روپے فی یونٹ کی لاگت سے بقایا فرنس آئل پر مبنی پاور پلانٹس سے 28ارب یونٹ بجلی پیدا کی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ فرنس آئل سے پیدا ہونے والی بجلی کی کل لاگت 840ارب روپے ہے۔ اور اگر قابل تجدید پروجیکٹس جو 2018سے زیر التوا ہیں، تیز رفتاری سے مکمل اور شروع کیے جاتے تو نئے قابل تجدید منصوبے کی بجلی کی پیداوار کی لاگت 196 ارب روپے ہوتی کیونکہ قابل تجدید توانائی کی فی یونٹ لاگت 7 روپے ہے۔ عہدیدار نے بتایا اور اس طرح بجلی کے صارفین کو فرنس آئل لابی کو 644 ارب روپے کی اضافی رقم ادا کرنے پر مجبور کیا گیا جو پی ٹی آئی حکومت میں گردشی قرضے میں زبردست اضافے کی بھی وجہ بنی۔ وزارت توانائی کے اعلیٰ عہدیداروں میں سے ایک نے دی نیوز کو بتایا کہ پی ٹی آئی حکومت کی قابل تجدید منصوبوں کو مکمل نہ ہونے دینے کی حکمت عملی سے دال میں کچھ کالا نظر آرہا ہے جو 2018 سے زیر التوا ہیں۔ یہ یقینی طور پر اپنی نوعیت کا ایک بہت بڑا اسکیم ہے اور ہم اس کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں کہ متبادل توانائی کے ترقیاتی بورڈ (اے ای ڈی بی) اور سینٹرل پاور پرچیز ایجنسی (سی پی پی اے) کے اعلیٰ عہدیداروں نے قابل تجدید منصوبوں کو مکمل ہونے دینے کے لیے اپنا کردار کیوں ادا نہیں کیا اور انہیں آپریشنل کیوں نہیں بنایا۔وفاقی وزیر برائے پاور ڈویژن خرم دستگیر خان نے بھی پی ٹی آئی حکومت کی قابل تجدید منصوبوں کو مکمل نہ ہونے دینے اور آر ایف او کی بنیاد پر مہنگے پاور پلانٹس چلانے کے فیصلے پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ وزیر نے معاملے کی جانچ شروع کر دی ہے۔ اعلیٰ عہدیدار نے انکشاف کیا کہ پی ٹی آئی کی سابق حکومت نے اپنے تین سال اور آٹھ ماہ میں تقریباً 6600 میگاواٹ کے 104 قابل تجدید پاور پلانٹس جیسے ہوا، شمسی اور بیگاس کو مکمل کرنے کے بجائے 30-31 روپے فی یونٹ پر بجلی پیدا کرنے کو ترجیح دی جو 2018 سے زیر التوا ہیں۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ کچھ منصوبے مکمل ہونے کے قریب پہنچ رہے تھے لیکن انہیں مکمل طور پر مکمل ہونے اور آپریشنل ہونے نہیں دیا گیا تاہم پی ٹی آئی حکومت نے فرنس آئل کی بنیاد پر مہنگی بجلی کی پیداوار پر اپنا انحصار بڑھا دیا جو کہ انتہائی قابل اعتراض ہے۔ تاہم دی نیوز نے حماد اظہر سے رابطہ کیا جو مرکز میں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے تک پاور ڈویژن کے وفاقی وزیر رہے۔ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے مذکورہ قابل تجدید منصوبوں کو مسلم لیگ ن کے دور میں ہی روک دیا گیا تھا اور مزید یہ کہ انہوں نے انڈیکیٹیو جنریشن کیپیسٹی ایکسپینشن پلان (آئی جی سی ای پی) 2021-30 میں طے شدہ معیار کو پورا نہیں کیا۔ یہ پلیٹ فارم پروجیکٹس کو اس وقت کھولتا ہے جب ان کی ضرورت مسابقتی بولی کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ حماد نے یہ بھی دلیل دی کہ آج بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دستخط کردہ ’ٹیک آر پے‘ معاہدوں کی بنیاد پر اضافی صلاحیت نصب ہے ۔ وہ انہیں بند رکھے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی سالانہ سیکڑوں اربوں کے کیپسٹی چارجز ادا کر رہے ہیں۔ اگر نئے قابل تجدید منصوبے شامل کیے جائیں تو حکومت کو یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ کیپیسٹی چارجز کس کو بھیجے جائیں؟ موجودہ حکومتی عہدیدار نے پی ٹی آئی کے وزیر کے تمام دلائل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ منصوبے کبھی نہیں روکے گئے۔ سینئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ مذکورہ پراجیکٹس کو حکومت نے کبھی نہیں روکا کیونکہ انہیں ایل او آئی (لیٹر آف انٹینٹ) اور ایل او ایس (لیٹر آف سپورٹ) دئیے گئے ہیں اور ان میں سے کچھ نے زمین بھی حاصل کر لی ہے اور نیپرا سے اپنے سستے ٹیرف حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ حکومت تمام قابل تجدید منصوبوں کو ’ٹیک اینڈ پے‘ موڈ کی بنیاد پر لگائے گی نہ کہ ’ٹیک آر پے‘ موڈ پر اور اس طرح صلاحیت کی ادائیگیوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔

اہم خبریں سے مزید