• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت کا او آئی سی کو دہشت گرد سرگرمیوں سے منسوب کرنا قابل مذمت ہے، کشمیری رہنما

وٹفورڈ (نمائنندہ جنگ) اوور سیز کشمیری رہنما امجد امین بوبی، اسرار شاہ، سید شفقت حسین گیلانی، محمد صدیق، چوہدری محمد سعید، شبیر چوہدری، کونسلر عمران حمید ملک، انجنیئر عثمان علی خان، راجہ عارف نےبھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان کے بیان کی سخت الفاظ میں مزمت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کو فرقہ وارانہ اور دہشت گرد سرگرمیوں کے ساتھ منسوب نہیں کر سکتا، انہوں نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ او آئی سی امت مسلمہ کا متفقہ فورم ہے، کشمیر ی عوام کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کو تسلیم نہیں کرتے، او آئی سی کے ممبر ممالک اقوام متحدہ کے بھی ممبرز ہیں ، ان رہنماوں نے کہا او آئی سی نے کشمیر میں 05اگست کے تین سال مکمل ہونے پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ کشمیر ی عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مستقبل کا فیصلہ کر نے کیلئے حق خودارادیت دے ۔ ان رہنماوں نے اقوام متحدہ اور یو این سیکورٹی کونسل سے مطالبہ کیا کہ بھارت کی اقوام متحدہ کے آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت رکنیت ختم کی جائے ، اقوام متحدہ کے منشور میں یہ بات درج ہے کہ جو ملک اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے چارٹر کا احترام نہیں کرتا اقوام متحدہ اس ملک کی رکنیت ختم کر نے کا مجاز ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ نے بھارت کی رکنیت ختم کر نے کے بجائے ایک دہشت گرد ملک کا نام یو این سیکورٹی کونسل کے صدر کیلئے کیسے پیش کیا گیا۔ اگر بھارت اور اسرائیل جیسے ملک اقوام متحدہ کے ممبر بن سکتے ہیں تو مظلوم کشمیریوں کو بھی اپنا مؤقف پیش کرنے کےلئے رکنیت کا حق دیا جائے ،ان رہنمائوں نے او آئی سی کے ممبرزملکوں سے مطالبہ کیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک بھارت کے خلاف سیاسی و سفارتی و معاشی پا بندیاں عائد کرے،بھارت سے اپنے سفیروں کو واپس بلایا جائے ،اس کی بنیادی وجہ بھارت کی جانب سے کشمیر میں دہشت گرد یہے۔ بھارت کے حکمرا نوں کو مزاکرات کی میز پر لانے کیلئے سخت اقدامات کی ضرورت ہے، رہنمائوں نے او آئی سی کے جنرل سیکرٹری حسین ابراہیم طحہ سے مطالبہ کیا کہ بھارت کے خلاف اقدامات اٹھانے کیلئے او آئی سی کا اجلاس لندن میں طلب کیا جائے جس میں کشمیر ی قیادت کو بھی شریک کیا جائے۔

یورپ سے سے مزید