• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کھلا تضاد … آصف محمود براہٹلوی
برطانیہ کے دوسرے بڑے شہربرمنگھم میں 72 ممالک کے درمیان کھیلے جانے والی کامن ویلتھ گیم کے پیچھے کئی برسوں سے تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں۔گزشتہ دو برس کویڈ۔19کی وجہ سے یقیناً تعمیراتی کام متاثر ضرور ہوئے لیکن اس کے باوجود تمام تر کریڈٹ برمنگھم سٹی کونسل، ویسٹ مڈلینڈ کمپائنڈ اتھارٹی اور مرکزی حکومت کو جاتا ہے کہ غیر یقینی صورتحال، لاک ڈائون کے باوجود کام متاثر نہ ہوا بلکہ پیری بار کے علاقے میں الیگزنڈرا سٹیڈیم میں کامن ویلتھ گیم اور اوپننگ اور کلوزنگ تقریبات کے مناسبت سے ایک نیا شہر آباد کیا گیا ۔ آنے جانے والے تمام تر راستوں کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا تاکہ دنیا کے 72 ممالک سے آنے والے پانچ ہزار سے زائد کھلاڑیوں اور آفیشلز کو پرتباک طریقہ سے خوش آمدید کہا جاسکے۔ ایک ریکارڈ اندازے کے مطابق ویسٹ مڈلینڈز اور برطانیہ بھر سے 20ہزارافراد نے اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر رجسٹرڈ کروا کر ایک بہترین شہری ہونے کا ثبوت دیا جبکہ پہلی بار برطانیہ میں سیکورٹی کو فول پروف بنانے کیلئے ویسٹ مڈلینڈ پولیس ، پرائیویٹ سیکورٹی اور رائل آرمی کے دستے معمور کئے گئے،ہیلی کاپٹرز کے ذریعے فضائی نگرانی جبکہ کوبکا سکواڈ موٹر سائیکل پولیس جگہ جگہ تعینات ہے۔ کامن ویلتھ گیمز میں مختلف کھیلوں کیلئے پورے ویسٹ مڈلینڈ میں قائم مختلف وینیو، لیسرز سینٹرز،ا سٹیڈیم، اورا سپورٹ سینٹروں کو استعمال کیا گیا ہر کھیل مختلف سینٹروں میں ہوا۔ صرف اوپننگ تقریب میں تقریباً 35 ہزار افراد شریک ہوئے انہیں سٹی سینٹرز سے الیگزینڈر اسٹیڈیم تک آنے اور واپسی کیلئے فیری ٹرانسپورٹ مہیا کی گئی اور آئندہ 11گیارہ روز اور کلوزنگ (اختتامی) تقریب تک تمام رضاکاروں، سیکورٹی ، صحافیو ںکو فری ٹرانسپورٹ اور مختلف سینٹروں میں ریفریشمنٹ بھی بالکل فری مہیا کی گئی۔ لوکل ٹیکسی ، پرائیوٹ کمپنیوں نے سٹی کونسل سے کام نہ ہونے کی شکایت ضرور کی کہ اگر سٹی کونسل فری ٹرانسپورٹ نہ مہیا کرتی تو ہمارا کام اچھا ہوتا۔ اتنے بڑے پروگرامز میں چھوٹی موٹی شکایات معمول کی باتیں ہیں۔ کامن ویلتھ گیمز کی اوپنگ تقریب میں سبز ہلالی پرچم تھامے پہلوان انعام بٹ، معروف کرکٹر بسمہ معروف کی قیادت میں گرائونڈ میں داخل ہوا تو پورا گرائونڈ پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔ عالمی نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے افتتاحی کلمات ادا کرتے ہوئےکہا کہ مجھے فخر ہے کہ برطانیہ کے شہر برمنگھم میں میرا علاج ہوا۔ یہاں تعلیم حاصل کی اوریہ شہر آج اتنے بڑے ایونٹ کی میزبانی کررہا ہے۔ اس شہر کا ٹیلنٹ کھل کرسامنے آئے گا۔ خواتین جو معاشرے کا اہم جز ہیں ان کی بڑی تعداد کھیلوں میں شامل ہے ہم انہیں برمنگھم آمد پر خوش آمدید کہتے ہیں۔ ہر طرف برطانوی جھنڈوں کی بہار تھی اور رات کی تاریکی میں لائٹنگ نے پورے کامن ویلتھ کو ایک طلسمی و عجیب سحر میں گرفتار کررکھا تھا۔ رائل فیملی کے پرنس چارلس سخت سیکورٹی حصار میں داخل ہوئے تو گرائونڈ میں موجود افراد نے تالیوں کی گونج میں اٹھ کران کا استقبال کیا۔ وہ اپنی اہلیہ کمیلا کے ساتھ تقریب دیکھتے رہے۔ شہزادہ چارلس نے ملکہ برطانیہ کا پیغام پڑھ کر سنایا اور تمام آنے والے مہمانوں کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ کامن ویلتھ گیم کے شرکا کے لئے اتنے بڑے پیمانے پر پروٹوکول ہوسکتا ہے وزیراعظم بورس جانسن کے اس عندیہ پر عملی جامعہ پہنایا جارہا ہے کہ بریگزٹ کے بعد کامن ویلتھ ممالک سے ہم ایک نئے جوش و جذبے سے نئے تجارتی تعلقات قائم کریں گے اور غیر معمولی گرمجوشی اسی کا آغاز ہوسکتا ہے۔ آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف پاکستان کی تقریباً کامن ویلتھ گیمز میں تعداد کے لحاظ سے شرکت کرنے والا پانچواں بڑا ملک تھا۔ ہمارے لئے فخر کی بات تھی کہ قومی لباس اور سبز ہلالی پرچم کو عالمی سطح پر بلند کرنے کیلئے خواتین و حضرات نے شرکت کی کھیل میں ہار جیت کھیل کا حصہ ہوتا ہے۔اتنے بڑے ایونٹ میں موجود ہونا شرکت کرنا بہت بڑی کامیابی ہے۔ راقم کوبھی چونکہ اپنی پیشہ ورانہ صحافتی ذمہ داریوں کو نبھانے کیلئے مختلف وینیو میں جانے کا اتفاق ہوا۔ پاکستانی تماشائیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی۔ اگر کسی سیاسی جماعت کا جلسہ ہوتا حالانکہ اس کی برطانیہ میں ضرورت نہیں ہوتی پھر بھی لوگ بچوں کے ہمراہ شریک ہوتے۔ لیکن کھیل کے دوران دیگر ممالک کے شہری بھرپور نعروں اور اپنے قومی جھنڈوں سے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرتے۔ بڑے دکھ کی بات ہے کہ چند ایک نوجوان پی ٹی آئی کے جھنڈوں کے ساتھ شریک ہوئے ۔ سابق وزیراعظم جن کی وجہ شہرت ہی کھیل تھی انہوں نے قوم کے بچوں کو قومی جذبہ بیدار کرنے کے بجائے نفرت کے بیچ بو کر تقسیم کردیا ۔ قومی جذبے کے بجائے شخصیت پرست بن گئے پہلا طلائی تمغہ جیتنے کی خوشی میں ہم صحافی اپنی برادری کے ہمراہ ہی پاکستانی جھنڈے لیکر پاکستان زندہ باد کے نعرے فضا میں بلند کرتے رہے اور نوح دستگیر بٹ کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتے رہے ۔ لیکن برطانیہ میں ڈیڑھ ملین افراد ہونے کے باوجود بے حسی کا شکار نظر آئے۔ آئے روز کھانوں کی دعوت پر ٹائی کوٹ پہن کر شریک ہوتے ہیں ۔ گرائونڈ میںجانے کی باری آئے تو بے حس ہو جائیں اس پر انتہائی دکھ ہوا ہے۔ دوسرا پاکستان میں ہم صرف بوائے کرکٹ ٹیم پر ساری دولت نچھاور کرتے ہیں جبکہ بوائے کرکٹ کے علاوہ بھی درجنوں کھیل ہیں ہمارے کھلاڑی اپنی محنت کے بل بوتے پر شریک ہوئے۔ حکومتی تعاون نہ ہونے کے برابر نظر آیا۔ اب تک تقریباً سات تمغے ہمارے ہیروز جیت چکے ہیں۔ ریسلنگ والے انعام بٹ زخمی ہونے کے باوجود چاندی کا تمغہ لیکر گولڈ میڈل نہ ملنے پر افسردہ تھے۔ محمد نواز اور عنایت اللہ چاندی اور کانسی کے تمغات سجائے مناسب اور عالمی سطح کی ٹریننگ نہ ملنے کا شکوہ کرتے رہے۔بسمہ معروف اپنی گیارہ ماہ کی بچی لیکر انٹرنیشنل کرکٹ میں واپس آئی اور ملک کی نمائندگی کی ۔ ہماری کمیونٹی کی خواتین کو اتنی توفیق نہ ہوئی کہ گرائونڈ میں جاکر اس کی حوصلہ افزائی کیلئے دو تالیاں ہی بجا دیں اگر سیاسی کام ہوتاتو صورتحال مختلف ہوتی ۔ برائے مہربانی قوم کو قوم رہنے دیں اوربرطانیہ میں پاکستانی سیاست نہ کریں۔ کھیل کے دوران ہمیں کہیں بھی پاکستانیت نظرنہیں آئی۔ البتہPTI ، پی پی ،پی ایم ایل این کے اکا دکاافراد ضرور دکھائی دیئے۔ انتہائی افسوس کی بات ہے انڈین ویمن کرکٹ کیپٹن نے بسمہ معروف کی ہمت کو خود داد دی لیکن ہم اس ایشو کو اجاگر ہی نہ کرسکے۔ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں صرف مینجمنٹ اور سہولیات کا فقدان ہےہمیں اپنے کھلاڑیوں کو تیار کرکے فل فام کے ساتھ عالمی مقابلوں میں بھیجنا ہوگا اور وہ قومی جذبے سے ملک کا نام بلند کریں گے۔
یورپ سے سے مزید