• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حامد محمود راجا

مرزا غالب کے محلے کے نام کا درست تلفظ کیا ہے؟ اس موضوع پرایک تحریرآج کل سماجی ذرائع ابلاغ (سوشل میڈیا )پر زیر گردش ہے ۔ مضمون نگار کے مطابق مرزا غالب کے محلے کے نام کا درست تلفظ’’ بِلی ماراں‘‘ ہے جس کو اب تک لوگ غلطی سے’’ بَلی ماراں‘‘ بولتے اور پڑھتے آئے ہیں۔ دونوں لفظوں میں فرق یہ ہے کہ بِلی ایک جانور کا نام ہے اور بَلی اس لمبی لکڑی یا بانس کو کہا جاتا ہے جس سے کشتی چلاتے وقت زور لگایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کے مطابق یہ بلی مارنے والے سورماؤں کا محلہ ہے جب کہ قدیم نقطۂ نظر یہ رہا ہے کہ یہاں بَلی مار(ملاح) رہا کرتے تھے۔’’بَلی‘‘ لکڑی کے دیگر اوزاروں کے لیے بھی بولا جاتاہے۔ راقم کا گمان ہے کہ کرکٹ کابَلا بھی اسی سے بنا ہے۔ ایک اوزار کی مثال آگے آرہی ہے۔

تحریر کاآغاز تحریرسے پہلے ایک تمہید سے ہوتا ہے۔ تمہید نگار نے بِلی ماراں کی تائید و حمایت میں ڈیل رمپل (تحریر میں اسی طرح درج ہے جب کہ اردو وکی پیڈیا میں اس کا نام’’ولیم ڈالریمپلی‘‘ ظاہر ہو رہا ہے ) کی کتاب City of Dijjins (روحوں کا شہر) کا حوالہ دیا ہے ، یہ کتاب دلی پر لکھی گئی ہے،اس میں مرزا غالب کے محلے کا نامStreet of cat killers درج ہے۔ تمہید نگار نے انگریز مصنف ڈیل رمپل کو ’’معروف مؤرخ‘‘ لکھا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ cat killers کے ترجمہ پر ڈیل رمپل پر پھبتی بھی کسی گئی تھی۔ شاید اسی تضحیک پر غصہ آیا اور انھوں نے فاضل و قابل انگریزی مؤرخ کی حمایت میں دلائل ڈھونڈ نکالے۔ دلائل میں مرزا غالب کی مختلف تحریروں کو پیش کیا گیاہے۔ پیش کنندگان کے الفاظ میں ملاحظہ ہوں:

’’(۱) اہلِ اسلام میں صرف تین آدمی باقی ہیں۔ میرٹھ میں مصطفی خاں، سلطان جی میں مولوی صدر الدین خاں، بلّی ماروں میں سگِ دنیا موسوم بہ اسد‘‘۔ظاہر ہے یہاں بلّی، کْتے اور شیر کی مناسبت سے فائدہ اْٹھایا گیا ہے۔‘‘ (یہ دلیل اپنے مدعی میں واضح نہیں۔حامد)۔

(۲)ہر گوپال تفتہ کو لکھتے ہیں:اسماء و اعلام کا ترجمہ فارسی میں کرنا، یہ خلاف دستور تحریر ہے۔ بھلا اس شہر میں ایک محلّہ بلّی ماروں کا ہے۔ اب ہم اس کو’’گْربہ کْشاں‘‘ کیوں کر لکھیں؟‘‘

(۳)’’ایک جگہ سے مجھ کو خط آیا۔ چوں کہ میں بلّی ماروں کے محلّے میں رہتا ہوں، اس نے پتا لکھا کہ’’در محلّہ گْربہ کْشاں‘‘ واہ فارسی‘‘۔ ان سب شواہد سے یہ ثابت ہے کہ محلے کا نام’’ِبلّی ماروں کا محلّہ‘‘ بالکسر ہی تھا‘‘۔

آخری دو اقتباسات سے یہ تو واضح ہوتا ہے کہ مرزا غالب نے اس کا تلفظ بِلی ماراں ہی کیا ہے۔ لیکن اس کے پس منظر میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ بِلی اور بَلی پر اگر زیر زبر نہ ڈالے جائیں تو اس کا املاء’’بلی ‘‘ ہو گا اور ظاہر ہے کہ عوام الناس بِلی نام کے جانور سے زیادہ واقف ہیں بہ نسبت بَلی کے، اس لیے وہ اس کو بِلی ماراں بولنے لگے اور مرزا غالب نے اُسی تلفظ کو نقل کردیا۔ عوامی بگاڑ اور معیاری تلفظ میں زمین آسمان کا فرق ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں میوات (دلی کے مضافات) میں دادا ہیجا کے نام سے ایک دانش ور کردار معروف ہے۔ ایک دفعہ کنویں کا بوکا(پانی بھرنے والا چمڑے کا تھیلا)رسی سے ٹوٹ کر پانی کی تہہ میں گرگیا۔ میواتی لوگ دادا ہیجا کے پاس بوکا نکالنے کا طریقہ پوچھنے پہنچ گئے۔ 

دادا جی نے پہلے تو جی بھر کے ڈانٹا کہ چھوٹے چھوٹے مسائل لے کر میرے پاس آجاتے ہو، یہ خود حل نہیں کرسکتے اور پھر کہا کہ بَلی سے نکا ل لو۔ بَلی ، لمبی سی لکڑی کا ایک اوزار ہوا کرتا تھا ،جس کے نچلے سرے پر لوہے کے کْنڈے لگے ہوتے تھے۔ بوکا ان کنڈوں میں سے کسی میں مچھلی کی طرح پھنس جاتا اور اس کو اوپر کھینچ لیا جاتا۔ میواتیوں نے بھی بَلی کو بِلی سمجھا ،انھوں نے ایک بِلی پکڑی اور اس کو رسی سے باندھ کر کنویں میں لٹکا دیا۔ بلی پانی میں ڈوبنے لگی تو چیاؤں چیاؤں کرنے لگی۔

میواتی کہنے لگے : ’’آں کر یا چاں کر ، بوکا تو تْو نے ہی نکالنا ہے ، دادا ہیجا نے جو کہہ دیا ہے‘‘۔ بَلی ماراں بھی اسی طرح پہلے بِلی ماراں بنا اوراس کے بعد’’گربہ کشاں ‘‘ اور’’ cat killers‘‘۔ لاہور صدر سے ائیر پورٹ کی طرف جائیں توایک سٹاپ’’ مرغی خانہ‘‘ کے نام سے موجود ہے۔ عربی جاننے والے جانتے ہیں کہ اس نام میں دو حروف غ اور خ ’’حروف تہجی ‘‘ میں سے ہیں۔ ان کی ادائی نسبتا ً ٹھہر کے ہوتی ہے۔ راقم نے ایک دن صدر گول چکر کے رکشا سٹاپ پر کھڑے ہو کر ایک گھنٹا اس پر ضائع کیا کہ لوگ اس کو کیا بولتے ہیں۔ افسوس ناک نتیجہ یہ نکلا کہ کسی ایک شخص نے بھی اس کو صحیح تلفظ کے ساتھ ادا نہیں کیا۔ اکثر نے مُرگی کھانہ اور بعضوں نے مُرگی خانہ ادا کیا۔

نیز مرزا غالب کا یہ نقل کرنا بطور طنز اور استہزاء بھی ہو سکتا ہے۔ ہمارے گھر میں راچھا کو آج بھی رانجھا ہی کہا جاتا ہے۔عین ممکن ہے کہ مرزا غالب اِن لاعلم لوگوں پر طنز کرتے رہے ہوں ، اْن کا طنز تو معروف ہے۔

شہروں کے نام اگر کسی انسان کی طرف منسوب ہوں تو شرفاء ، امراء اور حکام کی طرف ہوتے ہیں اور محلے پیشوں کی طرف۔جدید دور میں ریلوے کالونی اور واپڈا کالونی جیسے نام بالکل معروف ہیں۔ اسی طرح یہ محلہ بَلی ماروں (ملاحوں) کا تھا۔ اسی محلے میں ایک کٹڑا چوڑی والان بھی موجود ہے ، یہ بھی چوڑی کے پیشے والوں کی طرف منسوب ہے۔ ملتان (پاکستان) میں بھی ایک محلہ چوڑی گراں کے نام سے موجود۔ قدیم زمانے کی بھی بکثرت مثالیں موجود ہیں کہ محلے کا نام کسی پیشے کی طرف منسوب ہوا، قاضی اطہر مبارک پوری کی کتاب ’’ مسلمانوں کے ہر طبقہ و ہر پیشہ میں علم وعلماء‘‘ سے چند مثالیں پیش ہیں: ’’۱۔ طرسوسی کی حدود میں ایک پہاڑی قلعہ  ’’ملقوبیہ‘‘ ہے۔ 

ملقوبیہ کا مطلب ہے چکی کا پاٹ ، جو یہاں کے پہاڑوں سے کاٹے تراشے جاتے تھے۔ (ص۱۶۰)۔ ۲۔ جو لوگ خالص جو کی کاشت اور تجارت کرتے ہیں، ان کو شعیری کہتے ہیں۔ عربی میں شعیر جو کو کہا جاتا ہے۔ بغداد کے مغربی دروازے کا نام’’ باب الشعیر‘‘ تھا اور اسی نام سے علاقہ کرخ میں ایک محلہ بھی تھا۔ (ص۱۶۷)۔۳۔خبز عربی زبان میں روٹی کو کہا جاتا ہے ، بغداد میں چھٹی صدی ہجری تک ایک علاقہ ’’مخبز ‘‘ کے نام سے مشہور تھا، جہاں امرا ء و حکام کی روٹیاں پکائی جاتی تھیں۔ (ص۱۷۹)‘‘۔

مرزا غالب کا محلہ بھی بَلی مار کی طرف منسوب ہے ۔ بلی نیزے کو بھی کہا جاتا ہے ، مرزا غالب نے اپنے آباء واجداد کو سپہ گری سے منسلک قرار دیا ہے ، قرین قیاس ہے کہ اسی پیشے سے ان کا محلہ منسوب ہو۔ بھارتی فلم ’’باہو بلی‘‘ میں بھی یہ لفظ قابل غور ہے ۔ بلی ،لکڑی کے تختے (پھٹے ) کو بھی کہا جاتا ہے ۔ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی تیسری جماعت کے لیے مطبوعہ اردو کی کتاب (۱۹۹۳ء) میں لکھا ہے :آرا مشین پر جاکر اپنے سامنے لکڑی کے تختے اور بَلیاں تیار کرواتا ہے ۔‘‘

لیکن بِلی مار اور کتا مار جیسے نام کسی مہذب شہر میں تو ہو نہیں سکتے ، کون ایسا شخص ہے جو کہے کہ میں بِلی مارنے والے سورماؤں کے محلے میں رہتا ہوں۔ ایسے لوگ افریقا میں تو ہو سکتے ہیں ، دلی میں ہر گز نہیں۔ یہ بڑا عجیب لگتا ہے کہ ایک محلے میں رہنے والے سبھی یا اکثر لوگ بِلی مارنے جیسے مضحکہ خیز مشغلے میں ملوث رہے ہوں۔ نیز اگر ایک سولوگ یومیہ دو بلیاں بھی ماریں تو اتنی بلیاں کہاں پائی جاتی تھیں ؟ کیا دلی جیسے شہر میں اس کی توقع کی جاسکتی ہے؟ یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ وہ بلیاں مارتے کیوں تھے؟ اس کے جواب میں مظفر علی سید مرحوم کی گفت گو نقل کی گئی کہ یہاں سانسی رہتے تھے جو بلّیاں کھاتے تھے۔ معلوم نہیں سیّد صاحب کا ماخذ کیا تھا مگر بات دل کو لگتی ضرور ہے‘‘۔ 

اس دلیل میں بھی دم نہیں، کیوں کہ اگر اس محلے کے باسی بِلیوں کو کھانے کے عادی ہوتے تو پھر اِس کو محلہ’’ بِلی خوراں (بلی کھانے والے)‘‘ کہا جاتا نہ کہ بِلی ماراں۔ جیسا کہ جنگلی قبیلوں کو آدم خور کہا جاتا ہے نہ کہ آدم مار،لفظ ہمیشہ وہ منتخب کیا جاتا ہے جو اپنے مفہوم کو مکمل ادا کرے نہ کہ ناقص۔ ایک اور دلیل پیش کی گئی کہ : نثار احمد فاروقی مرحوم جنھوں نے دلّی میں ایک عُمر گزاری ہے، سے معلوم کیا تھا کہ آج دلّی میں عام آدمی مثلاً رکشے والا کیا بولتا ہے؟ انھوں نے ِبلّی ماراں، بالکسر ہی بتایا‘‘۔حیرت ہے کہ اب رکشے والوں کو بھی اردو زبان پر سند مان لیا گیا جو رکشا کو بھی رشکا بولتے ہیں۔ یہ ہماری بد نصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ اب مرزا داغ دہلوی کی اردو پر سند رکشا چلانے والے ہوں گے؟ دلیل اور سند تو ادیب و مصنفین ہونے چاہییں جنھوں نے اس کو بَلی ماراں ہی بولا ہے۔ 

نیز اگر رکشے والے ہی دلیل ہوں تو اس حوالے سے دِلی جانے کی ضرورت نہیں۔رائے ونڈ تبلیغی مرکز سے ایک سڑک نکل کر سیدھی فیروز پور روڈ میں شامل ہو جاتی ہے، یہاں میں نے ایک رکشے والے سے ایک گائوں ’’بِلیاں والے کھوہ‘‘ کے بارے میں پوچھا، اُس نے میری تصحیح کی اورکہا ’’بَلیاں والا کھوہ‘‘۔مذکورہ محلے کی گلی قاسم جان میں ایک سکول ’’ربیعہ پبلک سکول‘‘ کے نام سے واقع ہے ، سکول کے بورڈ پر ’’Ballimaran‘‘ لکھا ہوا ہے، اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ تلفظ بَلی ماراں ہے۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی