مرزا غالب کی بھی کیا بات ہے۔ ان کی عبارت ہو۔ اشارت ہو یا اداہو، سب ہی دل کو لبھانے والی ہیں۔ اگرچہ ان کی وجہ شہرت ان کا اردو کلام ہے لیکن کمال فن کا زیادہ اظہار فارسی میں ہوا ہے۔ جس طرح غالب کی شاعری گنجینہ معنی کا طلسم ہے۔ ان کی نثر بھی بہار آفرین ہے۔
پرتو روھیلہ کے ایک ممتاز شاعر اور ادیب نہیں۔ انہوں نے غالب کے فارسی خطوط کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ ترجمے کا کمال یہ ہے کہ وہ ترجمہ نہیں لگتا ہے۔ لگتا ہے کہ غالب نے یہ خطوط اردو میں تحریر کئے ہیں۔ غالب کی شخصیت کی شوخی اور طنازی میں ذرا کمی نہیں آنے دی ہم زمین کے باسی چاند کا صرف ایک رخ دیکھتے ہیں۔ دوسرا رخ سامنے نہیں آتا۔ پرتو صاحب نے غالب پرستوں کو چاند کا دوسرا رخ دکھایا ہے جس سے ہماری مسرت اور شادمانی میں اضافہ ہوتا ہے۔
غالب کی شخصیت ہمہ جہت ہے۔ ابھی تک سب پہلو پوری طرح اجاگر نہیں ہو سکے ۔ لیکن نئی نسلوں کے کسی نہ کسی خوش نصیب پر کوئی نہ کوئی نیا رخ روشن ہو جاتا ہے۔ اور وہ اپنا نام غالب شناسوں کی فہرست میں درج کروالیتا ہے۔ پرتو روھیلہ بھی ان خوش نصیب لوگوں میں شامل ہو گئے ہیں جن کا نام اور کام ہمیشہ زندہ رہے گا۔
غالب اردو کے واحد شاعر ہیں جن کے کلام کی پچاس سے زیادہ شرحیں شائع ہو چکی ہیں اور یہ سلسلہ تھمنے والا نہیں۔ ہر روز ان کے کلام یا شخصیت کا کوئی نہ کوئی پہلو روشن ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر یوسف حسین خان نے غالب کے اردو اور فارسی کلام کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ ترجمے کی داد دینا مشکل اور نہ دینا ناانصافی ہوگی۔ غالب کی خوش قسمتی تھی کہ ان کے آخیر دور میں انگریزوں کا قائم کردہ محکمہ ڈاک وجود میں آچکا تھا۔ غالب کو چہار اطراف سے خطوط موصول ہوتے اور وہ گھر بیٹھے ان کے جوابات تحریر کرتے رہتے ، جس سے ان کی دل آویز شخصیت سامنے آئی۔
غالب اردو کے واحد شاعر ہیں جن کی زندگی پر سات آٹھ فلمیں بن چکی ہیں۔ جن میں بڑے بڑے اداکاروں نے غالب کا کردار ادا کیا ہے… مزید خوش قسمتی یہ ہے کہ بڑے بڑے گویوں نے غالب کے کلام کو صوتی حسن سے چمکایا ہے۔ لیکن ان کا کلام پڑھتے وقت بڑے بڑوں سے غلطی ہو جاتی ہے۔ ان کا ایک مصرع ہے قید حیات بتدغم اصل میں دونوں ایک ہیں۔ گوئیے صاحب نے اس طرح گایا قید و حیات و بندوغم اصل میں دونوں ایک ہیں۔ ایک ستم ظریف نےریڈیو اسٹیشن فون کیا ،گوئیے صاحب سے کہیں کہ وہ اس طرح گائیں… اصل میں چاروں ایک ہیں۔
غالب پر اقبال نے ایک بے مثل نظم لکھی ہے۔ اردو کے کسی اور شاعر پر ایسی نظم نہیں لکھی گئی۔
فکر انساں پر تیری ہستی سے یہ روشن ہوا
ہے پر مرغ تخیل کی رسائی تاکجا
تیرے فردوس تخیل سے ہے قدرت کی بہار
تری کشت فکر سے اگتے ہیں عا لم سبزہ وار
نطق کو سو ناز ہیں تیرے لب اعجاز پر
محو حیرت ہے ثریا رفعت پرواز پر
غالب کے وجود سے اردو ادب میں بڑی بہار اور رونق ہے۔ ان کے فارسی خطوط کا ترجمہ سامنے آنے سے اس بہار میں اضافہ ہوگا۔
آئیے غالب کی فارسی کے مزے بزبان اردو؟؟؟
شعر کا ترجمہ۔ اے خدا۔ میری حیثیت اتنی بھی نہیں کہ میرے لئے معذرت کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے۔لیکن تو اس سے بلند ہے کہ مجھے میری تقصیر پر شرمندہ کرے۔
بے بضاعتی کی شرم میں غرق ہو جانے والوں کا قاعدہ تو یہ ہے کہ اپنی گردن جھکائے رکھیں۔ اور سائے کے لئے آفتاب کی شوکت کی پیش گاہ میں یہی ادب ہے کہ اپنے وجود کو نا موجود جانے۔ کون سی طاقت کے اعتماد کو ذریعہ عرض سخن کا، ساز و سامان سمجھوں اور کس تعلق کے زور پر اس ہرزہ سرائی کی جرأت کروں سچ تو یہ ہے کہ اگر تیرے کرم کے حوصلے کی وسعت میرے ضمیر میں جاگزین نہ ہوتی تو میں کب کا ہوش و جواس کی باگ توڑ چکا ہوتا۔
خط نمبر1:بنام سید علی اکبر… قبلہ خدا پرستان خدا آپ کو سلامت رکھے۔ جب ممدوح توصیف سے بے نیاز اور مدح نگار اظہار تعریف میں عاجز ہو تو عرض نیاز میں مبالغہ غیر ضروری اور شرح شوق حسین ،تکرار بدنما لگتی ہے۔ سو کیا کہوں کہ خموشی کی آبرو نہ جائے اور کیا لکھوں کہ کوتاہ قلمی کا داغ بھی مٹ جائے ۔ بے شک یہ معروضہ سلام روستائی سے متصف ہے اور کاسہ گدائی اس کے ہر حرف کے دائرے کی آرائش… آپ کا علاقہ آم کا ہے… میرا شوق یہ سوچتا ہے کہ فصل کے اختتام تک میں اپنے ولی نعمت کو دو تین بار ضرور یاد آئوں۔
شعر کا ترجمہ …میرا گلا پیاس سے خشک ہے۔ میری جان و دل افسردہ ہیں۔ اے ساقی مجھے وہ آب حیات دے جو آگ بھی ہو اور پانی بھی۔ خدا آ پ کے نخل مرادکو بارور بھی کرے اور سایہ دار بھی۔
خط نمبر2۔ بنام سید اکبر علی… وہ گناہ کار اسداللہ کہ جس کا رحمت خداوندی سے رشتہ امید ٹوٹ چکا ہے اور جو اپنے دو روزہ پندار وجود میں زحمت جاوید… کا اسیر ہے۔ نواب ہمایوں القاب۔ قبلہ اہل دل و کعبہ ارباب ایمان کے خدام بلند مرتبہ کی خدمت میں عرض کرتا ہے…
دل سو جگہ الجھا ہوا ہے اور ذہن ہزار تفکرات سے مصروف جنگ ۔مجھے روز و شب اور دیدہ ودل میں امتیاز نہیں رہا۔ اور نہ سانس اور زاری۔ اشک اور نگاہ میں کوئی فرق نظر آتا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو کہ اب قدرت نے اس شور آب میں ہیرے کے ریزے بھی شامل کر دیئے ہیں۔ اس جمال کی تفصیل یہ ہے کہ میرے بلند مرتبہ پسندیدہ خصلت بھائی، امین الدین خان ابن فخرالدولہ دلاور الملک نواب احمد بخش خان بہادر، رستم جنگ نے اپنے ارادے کی محمل کو کلکتے کی جانب ہانک دیا ہے۔ اور میں نقش قدم کی طرح اسی خراب میں خاک بہ سر رہ گیا ہوں… زیادہ نیاز و بس…
نوٹ: مبالغ کا یہ حال تھا کہ چھوٹے چھوٹے نوابوں کے نام کےساتھ، فخرالدولہ دلاور الملک، رستم جنگ کے القاب لکھے جاتے تھے جب کہ وہ کسی ایک لقب کے بھی قابل نہ تھے۔ ان کے دل حوصلوں سے خالی اور دماغ علوم جدیدہ سے محروم تھے۔
خط نمبر3:اعلیٰ حضرت نواب صاحب قبلہ۔ و کعبہ کونین، مدظلہ العالی اپنی پیشانی کو آپ کے آستانے کی ہوس میں سجدہ ریز اور اپنی سانس کو غم خواری کے احسان کے اظہار کے ذوق میں زمزمہ خیز کر کے فدوی عرض کرتا ہے کہ یکم جمادی الاول کو جمعے کے دن باندے کی منزل پر پہنچا۔ اور اسی روز جناب عالی کا نامہ منور مقصود کا خاورستان بن گیا۔ میں نے اس دنیا کے پیدا کرنے والے منصف یگانہ کی خدمت میں نماز ادا کی اور اپنے بخت بلند کا شکر ادا کیا،کہ مجھےبےکس نہیں چھوڑا گیا… اور اپنی درگاہ کے منتجبین کو میری دل جوئی پر مقرر کیا ہے۔
خدا انہیں سلامت رکھے اور تادیر زندہ! امید و بیم کا ہنگامہ فکر کو پگھلا دینے والا ہے۔ سوائے اس کے کہ میں اپنا تماشائی رہوں، اور کیا کر سکتا ہوں۔ فرانسس ہاکنس (انگریزافسر) جو ایک با اختیار اور صاحب مراتب افسرہے دہلی پہنچ گیا ہے۔ اس نے عدالت دیوانی کو زینت بخشی ہے یہ شکار دوست اور لاپروا واقع ہوا ہے او رداد خواہوں کی طرف توجہ نہیں دیتا اور آج کا کام کل پر ٹالتا رہتا ہے… (میرا یہ حال ہے کہ) جب تک تومجھ تک پہنچے گا میں خدا تک پہنج جائوں گا۔ میں ناچار وطن واپس جا رہا ہوں۔ لیکن سخت افسردگی کے عالم میں۔
چنانچہ ہفتہ کے دن تک، اگر پیغام اجل نہ پہنچا تو میں دہلی پہنچ جائوں گا۔
خط نمبر4۔ بنام منشی محمد حسن… قبلہ حاجات غالب چونکہ کیش درویوزہ گری میں نو آموز ہے۔ اس لیے اس نے باامر حیا قدرے خاموشی اختیار کر لی ہے لیکن اب کہ گلبانگ مبارکباد کے جوش و خروش نے منہ سےمہر سکوت اٹھا دی ہے تو خواہی و نا خواہی جوبھی دل میں ہے، ہونٹوں سے بہنے لگا ہے تو میں پہلے تورنگا رنگ مبارک باد اور گوناگوں تہنیت پیش کرتا ہوں اور اپنے مخدوم کے لئے موجودہ مرتبہ سے بلند تر کا طالب ہوں اور جناب عالی کے اوصاف و اقدار کو موجودہ مقام سے بلند تر کا اہل سمجھتا ہوں۔ یہ مبارکباد ایسی بہت سی مبارکبادیوں کا سبب بنے…
اردو کے انگریز استاد۔ رالف رسل نے کہا ہے اگر غالب انگلستان میں پیدا ہوئے ہوتے تو انہیں دنیا کا سب سے بڑا شاعرمانا جاتا۔ غالب کے کلام کو الہامی کلام کہا گیا ہے۔ انہیں خود بھی احساس تھا۔
غالب صریرخامہ نوائے سروش ہے۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی