• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصیبت اور آزمائش کی گھڑی میں ہمارا طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے؟

مولانا نعمان نعیم

رسول اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے ساتھ ایک مضبوط عمارت کے اجزاء کی طرح رہنا چاہیے،جو ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں اور ان کے جڑنے سے ہی عمارت قائم ہوتی ہے(مفہوم حدیث)۔(صحیح بخاری) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، ’’پوری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، اور اللہ کے نزدیک محبوب ترین وہ ہے، جو اُس کے کنبے سے اچھا سلوک کرتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ)

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’رحم کرنے والوں پر رحمٰن بھی رحم کرتا ہے، زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔‘‘ (ترمذی)حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’تم ایمان داروں کو باہمی محبّت اور مہربانی میں ایک جسم کی مانند دیکھو گے، جب جسم کے کسی عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو تمام بدن کے اعضاء بیماری اور تکلیف کے زیرِ اثر آجاتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم)

حضرت ابنِ عمرؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، وہ نہ اُس پر ظلم کرتا ہے، نہ اُس سے کنارا کرتا ہے، جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی حاجت براری میں مصروف رہے، اللہ تعالیٰ اُس کی حاجت براری کو پورا کرنے میں رہتا ہے اور جس کسی نے کسی مسلمان کا ایک دُکھ بانٹا، اللہ تعالیٰ نے روزِ قیامت کی مشکلات میں سے اُس کی ایک ایک مشکل کو دُور کردیا اور جس کسی نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اُس کے عیوب پر پردہ ڈالے گا۔‘‘ (صحیح بخاری)

رسول اللہﷺ کے یہ ارشاداتِ گرامی اس امر کا پتا دیتے ہیں کہ مسلمانوں کا باہمی تعلق اخوت و یگانگت، دینی و ملی بھائی چارے اور ایثار و ہمدردی پر مبنی ہے۔ پوری مسلم برادری جسد واحد اور ایک مضبوط عمارت کی طرح ہے، جو ایک دوسرے کی بقاکا ذریعہ اور استحکام و سلامتی کی ضمانت ہیں۔

بدقسمتی سے ان دنوں ہم جس قدرتی آفت اور آزمائش سے دوچار ہیں، ملک میں سیلاب کی بدترین تباہ کاری ہے، تباہ کن سیلاب سے ساڑھے تین کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ ایک ہزار سے زائدافراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ لاکھوں مویشی ہلاک ہو گئے ہیں اور کھربوں کی فصلیں ، گھریلو سازوسامان ، سڑکیں ، پل، ڈیمز تباہ ہو گئےہیں۔ یہ اعداد و شمار ابھی ابتدائی تخمینوں کا نتیجہ ہیں جبکہ مکمل سروے کے بعد اصل نقصانات اس سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں۔

قدرتی آفت اور سخت آزمائش اور امتحان کی اس گھڑی میں سیلاب سے متاثر اپنے بھائیوں کی مدد کرنا ہمارا دینی ،ملی اور قومی فریضہ ہے۔ دکھ اور مصیبت کی اس گھڑی میں اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرنا بہ حیثیت مسلمان ہم پر لازم ہے۔ مشکل کی گھڑی میں تمام شعبۂ زندگی سے وابستہ افراد اور مختلف طبقات کو شانہ بشانہ مل کر مصیبت زدگان کی مدد کرنی چاہئے۔

اس کائنات میں ہونے والا ہر واقعہ اللہ کے حکم سے ہی انجام پاتا ہے، جن طبعی قوانین کے تحت یہ کارخانۂ حیات چل رہا ہے، ان کا وضع کرنے والا اللہ ہی ہے، انسان تو بس ان کا علم ہی حاصل کرسکتا ہے۔ زندگی گزارنے کے نتیجے میں انسان طرح طرح کی برائیوں میں ملوث ہوجاتا ہے، بعض اخلاقی برائیاں ایسی ہیں جو قدرتی آفات کو دعوت دیتی ہیں، یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ وہ یک لخت نیست ونابود نہیں کرتا، بلکہ پہلے وارننگ دیتا ہے، تاکہ انسان سنبھل جائے اور اپنا طرز زندگی درست کرلے۔ 

اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ’’اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں (کسی نہ کسی چھوٹے) عذاب کا مزا چکھاتے رہیں گے، شاید کہ یہ اپنی (باغیانہ روش سے) باز آجائیں‘‘۔ (سورۂ سجدہ: آیت: ۳۱) بڑے عذاب سے مراد آخرت کا عذاب ہے جو کفر اور فسق کی پاداش میں دیا جائے گا، اس کے مقابلے میں عذاب ادنیٰ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، جس سے مراد وہ تکلیفیں، مصیبتیں اور آفتیں ہیں جو اسی دنیا میں انسان کو پہنچتی ہیں، مثلاً افراد کی زندگی میں سخت بیماریاں، اپنے عزیز ترین لوگوں کی موت، المناک حادثے، نقصانات،ناکامیاں وغیرہ۔اجتماعی زندگی میں طوفان، زلزلے، سیلاب، وبائیں، فسادات، لڑائیاں اور دوسری بہت سی بلائیں جو ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ 

ان آفات کے نازل کرنے کی مصلحت یہ بیان کی گئی کہ مصیبت اور آزمائش میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی لوگ ہوش میں آجائیں، اور اس طرز فکروعمل کو چھوڑ دیں، جس کی پاداش میں آخر کار انہیں بڑی مصیبت اور آزمائش سے دوچار ہوناپڑے گا۔ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہوتا ہے۔ اس لیے یہ سوال یہ آفات وبلیات، طوفان وسیلاب کون لایا ہے؟ بہ ظاہر غیر ضروری معلوم ہوتا ہے، لیکن اس کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ بعض دانشوروں کی طرف سے کھلے بندوں یہ کہا جا رہا ہے کہ طوفان اور سیلاب کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ یا سزا سمجھنے کی بجائے فطری قوانین اور نیچرل سورسز کی کارروائی سمجھا جائے کہ ایسا ہمیشہ ہوتا آیا ہے اور نیچرل سورسز کے حوالے سے یہ معمول کی کارروائی ہے، مگر ہم مسلمان اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ کائنات میں کسی درخت کا ایک پتّہ بھی اس کی مرضی کے بغیر حرکت نہیں کرتا۔

قرآن کریم نے گزشتہ اقوام پر آنے والی آفات، آندھی، طوفان،زلزلہ، وبا، اور سیلاب کا ذکر ان اقوام پر اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے اظہار کے طور پر کیا ہے اور ان قدرتی آفتوں کو ان قوموں کے لیے اللہ کا طے شدہ نظام قرار دیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے قیامت سے پہلے اپنی امت میں آنے والی قدرتی آفتوں کا پیش گوئی کے طور پر تذکرہ فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا یا تنبیہ کے طور پر ان کا ذکر کیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا : تم نیکی کا حکم ضرور دیتے رہنا، لوگوں کو برائی سے ضرور منع کرتے رہنا، اور ظلم کرنے والے کا ہاتھ پکڑ کر اسے ظلم سے ضرور روکنا ،ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کو ایک دوسرے پر مار دے گا اور تم پر اسی طرح لعنت کرے گا جس طرح پہلی امتوں پر کی تھی۔(جامع ترمذی)

حضرت حذیفہ ؓسے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا : خدا کی قسم! تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ضرور انجام دیتے رہنا، ورنہ تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت گرفت ہوگی، پھر تم دعائیں کرو گے تو تمہاری دعائیں بھی قبول نہیں ہوں گی۔(ترمذی شریف )حضرت صدیق اکبر ؓسے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا : جب لوگ معاشرے میں منکرات یعنی نافرمانی کے اعمال کو دیکھیں اوراصلاح کی کوشش نہ کریں اور جب کسی ظالم کو ظلم کرتا دیکھیں اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ظلم سے نہ روکیں تو قریب ہے کہ سب پر اللہ کا عذاب آجائے۔(سنن ابو داؤد )

حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا : جب غنیمت کے مال کو ہاتھوں ہاتھ لوٹا جانے لگے، امانت کو غنیمت کا مال سمجھ لیا جائے، زکوٰۃ کو تاوان سمجھا جانے لگے، تعلیم حاصل کرنے میں دین کے مقصد کو پسِ پشت ڈال دیا جائے، خاوند اپنی بیوی کا فرماں بردار ہو جائے، بیٹا اپنی ماں کا نافرمان ہو جائے، بیٹا اپنے دوست کو قریب کرے اور باپ کو خود سے دور رکھے، مسجدوں میں شور و غل ہونے لگے، قبیلے کا سردار اس کا فاسق شخص ہو، قوم کا لیڈر اس کا رذیل ترین شخص ہو، کسی شخص کی عزت صرف اس کے شر سے بچنے کے لیے کی جانے لگے،ناچ اور گانے بجانے کے آلات عام ہو جائیں، شراب پی جانے لگے، امت کے بعد والے لوگ پہلے لوگوں پر لعن طعن کرنے لگیں تو پھر اللہ کے عذاب کا انتظار کرو جو سرخ آندھی، زلزلوں، زمین میں دھنسائے جانے، شکلوں کے مسخ ہونے، پتھر برسنے، اور ایسی دیگر نشانیوں کی صورت میں اس طرح لگاتار ظاہر ہوگا جیسے کسی ہار کی ڈوری ٹوٹ جائے اور موتی لگاتار گرنے لگیں۔(جامع ترمذی )

اسی طرح آقائے نامدار حضرت محمد ﷺ نے ہمیں بتایا کہ یہ قدرتی آفتیں پہلی امتوں کی طرح اس امت میں بھی آئیں گی اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا اظہار ہوں گی،اس لیے سیلاب، آندھی اور طوفان کے ظاہری اسباب پر ضرور نظر کی جائے اور ان کے حوالے سے تحفظ کی ضرور کوشش کی جائے ۔یہ اللہ تعالیٰ کا قانون اور ضابطہ ہے جس کی نبی اکرم ﷺ وضاحت فرمارہے ہیں۔ اس کے مطابق ہمیں جہاں یہ عقیدہ رکھنا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، وہاں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناراضی کا اظہار اور تنبیہ ہے جس سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہیے۔

حالیہ سیلاب کی تباہ کاری اور اس قدرتی اور ناگہانی آفت کی وجہ سے ہمارے جو بھائی آزمائش اور مصیبت کا شکار ہیں، ان کی مدد کرنا ایک دینی ،اخلاقی اور ملی تقاضا ہے ،ضرورت اس امر کی ہے کہ مصیبت کی اس گھڑی میں ہم اسلامی اخوت کے جذبے کے تحت اپنے بھائیوں کو بے یار و مدد گار نہ چھوڑیں، بلکہ انصارِ مدینہ کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مواخات اور ایثار و ہمدردی کا مظاہرہ کریں، اس موقع پر اپنے مظلوم بھائیوں کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کریں، آزمائش کی اس گھڑی میں ایثار وہمدردی اور غم گساری کا وہ نمونہ پیش کریں جو ہمارے مذہب کی بنیادی شناخت اور ہمارے دین کی روح ہے۔ ہمیں ہر وقت خاص کر ایسے مصیبت زدہ حالات میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہئے، اپنے گناہوں سے معافی کے ساتھ اللہ کے احکام پر پابندی سے عمل کرنا چاہئے۔ قرآن کریم میں بھی حالات آنے کے وقت صبر اور نماز کے ذریعے مدد حاصل کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ 

مالدار اورصاحب حیثیت حضرات اس مصیبت کے وقت غریبوں کی حتیٰ الامکان مدد کریں، ضروریات زندگی کا سامان خرید کر ان کے گھروں تک پہنچانے کا انتظام کریں، خواہ ان کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کو ضرورت کے وقت کپڑا پہنائے گا، اللہ تعالیٰ اسے جنت کے سبز لباس پہنائے گا۔ جوشخص کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کچھ کھلائے گا، اللہ تعالیٰ اسے جنت کے پھل کھلائے گا، جو شخص کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں پانی پلائے گا، اللہ تعالیٰ اسے جنت کی ایسی شراب پلائے گا، جس پر مہر لگی ہوئی ہوگی۔ (ترمذی)

دعاؤں کے ساتھ ہمیں سچے دل سے توبہ بھی کرنی چاہئے، اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اے ایمان والو! اللہ کے حضور سچی توبہ کرو۔ کچھ بعید نہیں کہ تمہارا پروردگار تمہاری برائیاں تم سے جھاڑ دے، اور تمہیں ایسے باغات میں داخل کردے، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ (سورۃ التحریم) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں سے کہا کہ وہ سچی توبہ کریں۔ سچی توبہ کے لیے ضروری ہے کہ پہلے گناہ سے باز آئیں، اس گناہ پر شرمندہ بھی ہوں اور آئندہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ بھی ہو، لیکن اگر توبہ کے بعد پھر گناہ دوبارہ ہوجائے، تب بھی ہمیں چاہئے کہ ہم دوبارہ سچی توبہ کریں۔ ہمیں گناہوں سے بچ کر ہی زندگی گزارنی چاہئے، لیکن اگر ایک ہی گناہ بار بار ہوجائے، تب بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔

اقراء سے مزید