• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج رات میں خواب میں عزرائیل اور شیطان سے بیک وقت لڑ رہی تھی۔ میں کہہ رہی تھی کہ تمہیں ہم جیسے بوڑھے، نابکار، بیمار اور کرم خوردہ لوگ نظر نہیں آتے کہ میرے غریب، بھوکے اور بدحال بچوں کو بے گھر کرتےہوئے مارتے ہوئے میرے خدا سے بھی نہیں ڈرتے ہو، شیطان بولا۔

ہم ایسے اجاڑ دیں گے دریا

کشتی بھی یہاں نہیں ملے گی

سیلاب کہہ رہا ہے ہنس کے

سجدے کو زمیں نہیں ملے گی

فرعون بہت ہو گئے تھے یہاں یہ

اب سب کو سزا یہیں ملے گی

یہ شعر سن کر میں خاموش ہو گئی۔ اب عزرائیل نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا :دراصل میرے اوپر کام کا بوجھ بہت زیادہ تھا۔ اس لئے سیلابوں والا علاقہ میں نے پانی کے سپرد کر دیا۔ پانی زیادہ ذمہ داریوں پر ناراض ہو گیا۔ اس لئے ہوائیں جو بادلوں کو پنجاب اور خیبرپختونخوا لے کر جانے والی تھیں ان کو سندھ اور بلوچستان میں داخل کر دیا ۔ یہیں کہیں محکمۂ موسمیات کے ڈائریکٹر نے ہمارا مکالمہ سنا تو بولے، یہ سچ ہے اس بار اپریل ہی میں گرمی نے زور پکڑ لیا تھا۔ سوچا، چناں چہ ہوائوں کا رُخ بلوچستان کی طرف ایسے موڑا کہ سندھ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے کر ان کی تسکین نہیں ہوئی۔ ادھر فورٹ منرو کے پہاڑی سلسلے میں کبھی کوہِ سلیمان کو پیاس لگتی تھی۔ اس بار تو زور اتنا تھا کہ آٹھ دن تک ساری ٹریفک رُکی رہی۔

غنودگی کے عالم کو جھنجھوڑا، میرے سامنے وہ سارے تیراک آگئے جنہوں نے جنازے والی مسہری کو کشتی بنا کے جگہ جگہ سینکڑوں لوگوں کی جان بچائی ۔ نوشہرو میں خاتون وزیر نے پانی میں اترکر لوگوں کی مدد کی۔ اپنی جان کی پروا نہ کی۔

حالات اتنے دگرگوں ہوئے کہ جلسہ جلسہ کھیلنے والے نے اپنی پکار کو بدلا۔ ٹیلی تھون کرنے کا اعلان اس لئے کیا کہ شاید، یوں ٹی وی پہ لوگ براہ راست مجھے دیکھیں کہ میں کبھی کے پی کے علاوہ بس لاہور کے اردگردچلاتا رہا ہوں۔ اب خود کو بلوچستان اور سندھ کے علاقوں کو اپنا چہرہ دکھائوں۔ یوں شایدآئی ایم ایف کو بھی ترین کے ذریعے دھوکہ دے سکوں کہ … ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبے گے۔ نوشہرہ میں حفاظتی بند ٹوٹنے کے باعث اپنے لے پالک کے پی کے وزیر اعلیٰ کے ساتھ بس ایک دن جھولا لیا اور مولانا طارق جمیل سے مشورہ کیا شاید سیاسی غبارے میں دعا کی ہوا بھری گئی۔جس ملک کے دو تہائی حصے میں پانی کی حکومت روز بروز بڑھتی گئی۔ وہاں تو درخت نہیں رہے۔ فصلیں کیسے سیلاب کے تائو کو برداشت کرتیں ۔ چکوال سے سرگودھا، ادھر ایبٹ آباد کے علاقوں میں جو فصلیں تھیں، انہوں نے اس محاورے پرعمل کیا ’’ کہ کسی کا گھر جلے اور کوئی ہاتھ تاپے‘‘۔قیمتوں میں یوں اضافہ ہوا کہ آلوجیسی کم قیمت سبزی بھی سونے کے مول بکنے لگی۔ ڈالر کی طرح ساری سبزیوں نے چھلانگ لگائی ۔ دال کی قیمت پانچ سو روپے فی کلو ہو گئی۔ لوگوں کی خالی جیبیں بغلیں جھانکنے لگیں۔ اشرافیہ کے اسکولوں کے مطالباتِ زر بڑھتے گئے۔ مکلی سے لے کر سجاول تک کے قبرستان نئے لوگوں کے آنے کیلئے پانی نے خالی کر دیے،روہنگیا کا سا منظر پورے بلوچستان اور سندھ میں تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایف بی آر لوگوں سے کیسے اورکس منہ سے پیسے مانگے گا۔ اب تو امراض نےبھی سیلاب زدگان کا گھر دیکھ لیا ہے۔ کہیں ہیضہ، کہیں بخار تو کہیں کورونا، خدا سے کیا مانگوں؟

دروازوں سے اونچی گردنیں تھیں۔ ان کی بھی جھکی جبیں ملیں گی۔ پھیلے ہوئے ہاتھ اب سمجھ لیں۔ مانگے سے اماں نہیں ملے گی۔اب تک بند گھروں کو بجلی کے بل بھیجتے رہے ہو۔ اب گھر ہی نہیں توکیا کرو گے؟ ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کا لائف اسٹائل بدل گیا ہے۔ شیمپو بچانے کے لئے ہفتے میں ایک دن سر دھونا، بکرے یا گائے دونوں کا گوشت خرید سے باہر کبھی دال اور پھر سبزیاں تو مرغی سے بھی مہنگی، دن میں تین وقت کی جگہ دو وقت کا کھاناکھانا۔ آئس کریم ، کولڈ ڈرنک بس اشتہاروں میں دیکھنا۔ یہ بھی معلوم کرنا کہ یہ اندھا دھند اشتہار دینے والوں نے آخر سیلاب میں گھرے لوگوں کو کس قدر فنڈز دیے ہیں۔

اب بہت مشکل زمانہ آگیا ہے جو پانی گھروں اور گلیوں میں بھرا ہے، اس کے لئے پمپنگ کرنے کو بہت سے رضاکار اور بہت سے ہمت والے لوگ چاہئیں۔ سارے بلڈرز، جنہوں نے گزشتہ تین برس میں بہت کمایا،ان کی یہ ذمہ داری لگائی جائے کہ سیمنٹ اور اینٹیں وہ فراہم کریں۔ سارے ملک کے آرکیٹیکٹ کم خرچ میں تعمیر ہونے والے مکانوں کے نقشے بنائیں۔ ہر یونین کونسل میں پانچ سو گھر ہوتےہیں۔ مقامی لیبر لگا کر دو دوکمروں کے گھر اورایک برآمدہ بنا دیں۔ یوں سر چھپانے کو جگہ تو ملے گی۔ گھر بنانے کیلئے ، ہاتھ میں پیسے نہ دیں۔ وہ توکھائے جائیں گے۔ زیادہ سے زیادہ سولر بجلی استعمال کرنے کے منصوبے بنائیں۔ جو فنڈز آرہے ہیں ان سے فصلوں کو لگانے کے لئے قرضے دیں۔ اسکولوں کی عمارتیں بنائیں اور تمام بے روزگار نوجوانوں کو وظیفہ دے کر گائوں گائوں بچوں کو پڑھانے اور تکنیکی کام سکھانے کا انتظام کیا جائے۔

تازہ ترین