• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہندی سے ترجمہ: استوتی اگروال

’’جولائی ۱۹۸۹ء کی بات ہے۔ میرے بچنے کی کوئی امید نہیں تھی۔تین تین زبردست ہارٹ اٹیک، ایک کے بعد ایک ہوئے۔ ایک تو ایسا کہ نبض بند، سانس بند، دھڑکن بند۔ ڈاکٹروں نے اعلان کر دیا کہ اب جان نہیں رہی ،پر ایک ڈاکٹر’’ بوجیرس‘‘ نے پھر بھی ہمت نہیں ہاری، انھوں نے نو سو بالٹس کے (shocks) شاکس دیئے۔ خطرناک تجربہ تھا لیکن ڈاکٹر نے کہا اگر یہ مردہ جسم ہے تو درد محسوس ہی نہیں ہوگا اور پر اگر کہیں بھی ایک ذرہ جان باقی ہوگی تو دل حرکت کر سکتا ہے۔ خیر زندگی تو لوٹی، پر اِس تجربے میں ساٹھ فیصد دل ہمیشہ کے لیے بیکار ہو گیا، صرف چالیس فیصد بچا۔ اُس میں بھی تین رکاوٹ (blockage) ہیں۔

اوپن ہارٹ آپریشن تو کرنا ہی ہوگا ،پر سرجن ہچکچا رہے ہیں۔ صرف چالیس فیصد ہارٹ ہے۔ آپریشن کے بعدبھی دل نے کام نہ کیا تو؟ طے ہوا کہ دیگر ماہرین کی رائے لے لی جائے، تب کچھ دن بعد آپریشن کرنے کا سوچیں گے،تب تک گھر جاکر بغیر ہِلےڈُلے آرام کریں۔ بہرحال، ایسی ادھ مَری حالت میں واپس گھرآیا۔ اب میری ضد کہ بیڈ روم میں نہیں، مجھے اپنے کتابوں والے کمرے میں ہی رکھا جائے، وہیں لِٹا دیا گیا ہےچلنا، بولنا، پڑھنا منع سب پر پابندی تھی۔

دن بھر پڑےپڑے دو ہی چیزیں دیکھتا رہتا ،بائیں طرف کی کھڑکی کے سامنے ہوا میں جھولتے سُپاری کے پیڑ کے جھالردار پتّے اور اندر کمرے میں چاروں طرف فرش سے لے کر چھت تک اونچی، کتابوں سے ٹھساٹھس بھری الماریاں۔بچپن میں(Fairy tales) پریوں کی کہانیوں میں جیسے پڑھتے تھے کہ راجا کی جان اُس کے جسم میں نہیں، طوطے میں رہتی ہے، ویسے ہی لگتا تھا کہ میری جان اِس جسم سے تو نکل چکی ہے، وہ جان اِن ہزاروں کتابوں میں بسی ہے جو پچھلے چالیس--پچاس برس میں دھیرے-- دھیرے میرے پاس جمع ہوتی گئی ہیں۔ کیسے جمع ہوئیں؟یہ کہانی بعد میں سنائوں گا۔ پہلے تو یہ بتانا ضروری ہے کہ کتابیں پڑھنے اور سنبھال کر رکھنے کا شوق کیسے جاگا۔ بچپن کی بات ہے۔ اُس وقت آریہ سماج کا’’ Reformist Movement‘‘اپنے پورے زور پر تھا۔میرے والد آریہ سماج رانی منڈی کے رہنما تھے اور ماں نے عورتوں کی تعلیم کے لیے آدرش کنیا پاٹھ شالا کی بنیاڈالی تھی۔

باباکی اچھی خاصی سرکاری نوکری تھی۔ جب برما روڈ بن رہی تھی، تب بہت کمایا تھا انھوں نےلیکن میری پیدائش سے پہلے ہی گاندھی جی کے بلاوے پر انھوں نے سرکاری نوکری چھوڑ دی تھی۔ ہم لوگ بڑی مالی مصیبتوں سے گزر رہے تھے، پھر بھی گھر میں پابندی سے اخبار، رسائل آتے تھے, جن میں آریہ دو بچوں کے رسالے خاص میرے لیے آتے۔ اُن میں پریوں، راجکماروں، راکششوں اور خوبصورت شہزادیوں کی کہانیاں اور تصویری خاکے ہوتے تھے۔ یوں مجھے پڑھنے کی چاٹ لگ گئی۔

ہر وقت پڑھتا رہتا۔ کھانا کھاتے سامنے رسالے رکھ کر پڑھتا۔اپنے دونوں رسائل کے علاوہ دوسری کتابیں پڑھنے کی کوشش کرتا۔ گھر میں کتابیں بھی تھیں اور ان کے ہندی تراجم بھی، جنہیں پوری طرح سمجھ تو نہیں پاتا تھا، پر پڑھنے میں مزہ آتا تھا۔ میری پسندیدہ کتاب تھی’’ سوامی دیانند کی ایک سوانح‘‘، جو دلچسپ انداز میں لکھی گئی تھی، بے شمار تصویروں سے سجی ہوئی۔ سوامی اُس وقت کی منافقت کے خلاف غیر معمولی ہمت دِکھانے والی انوکھی شخصیت تھے۔کتنے ہی حیرت انگیز واقعات تھے اُن کی زندگی کے جنہوں نےمجھے بہت متاثر کیا۔

اماں اسکول کی پڑھائی پر زور دیتیں۔ فکرمند رہتیں کہ لڑکا کلاس کی کتابیں نہیں پڑھتا،پاس کیسے ہوگا! کہیں سادھو بن کر گھر سے بھاگ گیا تو؟ بابا کہتےزندگی میں یہی پڑھائی کام آئے گی،پڑھنے دو۔ مجھے اسکول میں داخل نہیں کیا نہیں بھیجا گیا تھا، ابتدائی تعلیم کے لیے گھر پر ماسٹر رکھے گئے تھے۔ بابا نہیں چاہتے تھے کہ ناسمجھی کی عمر مَیں میں غلط صحبت میں پڑ کر گالی گلوچ سیکھوں، برے عادات اپناؤں اس لیے میرا نام جب اسکول میں لکھایا گیا، جب میں درجہ دو تک کی پڑھائی گھر پر کر چکا تھا۔

تیسرے درجے میں داخل ہوا۔ اُس دن شام کو بابا اُنگلی پکڑ کر مجھے تفریح کے لیے لے گئے۔ ایک دُکان تازہ انار کا شربت مٹی کے کلہڈ میں پلایا اور سر پر ہاتھ رکھ کر بولے،’’وعدہ کرو کہ نصاب کی کتابیں بھی اِتنے ہی دھیان سے پڑھوگے، جیسے دوسری پٹھتے ہوماں کی فکر مٹائو گے۔‘‘

اُن کی دعائیں تھیں یا میری جی توڑ محنت کہ تیسرے، چوتھے درجے میں میرے اچھے نمبر آئے اور پانچوے درجے میں تو اوّل آیا۔ ماں نے آنسو بھرکر گلے لگا لیا، بابا مسکراتے رہے، کچھ نہیں بولے۔ انگریزی میں میرے نمبر سب سے زیادہ تھے، اس لیے اسکول سے انعام میں دو انگریزی کتابیں ملی تھیں،جن میںایک کتاب میں دو چھوٹے بچے گھونسلوں کی تلاش میں باغوں اور کُنجوں میں بھٹکتے ہیں اور اِس بہانے پرندوں کی ذاتوں، اُن کی بولیوں، اُن کی عادتوں کی معلومات انھیں ملتی۔

دوسری کتاب تھی’ٹرسٹی دا رگ‘‘ تھی جس میں پانی کے جہازوں کی کہانیاں تھیں مثلاَ جہاز کتنے قسم کے ہوتے ہیں، کو نون سا مال لاد کر لاتے ہیں، کہاں سے لاتے ہیں، کہاں لے جاتے ہیں، ناخدائوں کی زندگی کیسی ہوتی ہے، کیسے کیسے جزیرے ملتے ہیں، کہاں وہیل ہوتی ہے، کہاں شارک ہوتی ہے۔ اِن دو کتابوں نے ایک نئی دنیا کا دروازہ میرے لیے کھول دیا۔

پرندوں سے بھرا آسمان اور بھیدوں سے بھرا سمندر۔ بابانے الماری کے ایک خانے سے اپنی چیزیں ہٹاکر جگہ بنائی اور میری دونوں کتابیں اُس خانے میں رکھ کر کہا-- ’’آج سے یہ خانہ تمھاری اپنی کتابوں کا۔یہ تمھاری اپنی لائبریری ہے۔‘‘یہاں سے شروع ہوئی اُس بچے کی لائبریری۔ بچہ جوان ہوا، اسکول سے کالج،پھر یونیورسٹی گیا، ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی، یونیورسٹی میں پڑھایا، پڑھانا چھوڑ کر الہٰ آباد سے بمبئی آیا، ایڈیٹر شپ کی، اُسی نسبت میں اپنی لائبریری کو وسیع کرتا گیا۔

آپ پوچھ سکتے ہیں کہ کتابیں پڑھنے کا شوق تو ٹھیک،کتابیں اِکٹھی کرنے کی دھن کیوں سوار ہوئی؟اُس کی وجہ بھی بچپن کا ایک تجربہ ہے۔ الہٰ آباد ہندوستان کے مشہور تعلیمی مرکزوں میں نمبر ون رہا ہے۔ ایسٹ انڈیا کی جانب سے قائم کی گئی پبلک لائبریری سے لے کر مہامنا مدن موہن مالویہ کی جانب سے قائم کی گئی بھارتی بھون لائبریری تک۔ یونیورسٹی کی لائبریری اور بے شمار کالجوں کی لائبریریاں تو ہیں ہی، تقریباً ہر محلے میں ایک الگ لائبریری ہے۔ وہاں ہائی کورٹ ہے، اِس لیے وکیلوں کی ،اساتذہ کی ذاتی لائبریریاں ہیں۔

اپنی لائبریری ویسی کبھی ہوگی، یہ تو خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا،پر اپنے محلے میں ایک لائبریری تھی ہری بھون‘۔ اسکول سے چھٹی ہوتے ہی میں اُس میں جاکر جم جاتا تھا۔ بابا فوت ہو چکے تھے،لائبریری کا چندا چُکانے کا پیسہ نہیں تھا، اس لیے وہیں بیٹھ کر کتابیں نکلوا کر پڑھتا رہتا تھا۔ اُن دنوں ہندی میں عالمی ادب خصوصاًنا ولوں کے خوب ترجمے ہو رہے تھے۔

مجھے اُن ترجمہ شدہ ناولوں کو پڑھ کر بڑا سکون ملتا تھا۔اپنے چھوٹے سے علاقے ’ہری بھون‘میں خوب ناول تھے۔ وہیں تعارف ہوا بنکِم چندر چٹو پادھیایے کی’دُرگیش نندنی‘،’کپال کنڈلا‘اور ’آنند مٹھ‘ سے،ٹالسٹائی کی ’انّا کرینِنا‘،وِکٹر ہیوگو کا’پیرس کا کُبڑا‘(ہنچ بیک آف ناتریدام)،گورکی کی ’مدر‘، الیکذنڈرکوپِرن کا ’گاڑی والوں کا کٹرا‘(یاما دا پِٹ) اور سب سے دلچسپ سروا--ریز کا ’وِچِتر ویر‘(یعنی ڈان کِیوکزوٹ)۔

ہندی کے ہی ذریعے سے ساری دنیا کے کہانی--کرداروں سے ملاقات کرنا اتنا دلکش تھا کہ میں لائبریری کھُلتے ہی پہنچ جاتا اور جب لائبریرین کہتے کہ بچہ، اب اٹھو، لائبریری بند کرنی ہے، تب بڑی بے دلی سے اٹھتا۔ جس دن کوئی ناول ادھورا رہ جاتا،اُس دن دل میں کسک ہوتی کہ کاش،اتنے پیسے ہوتے کہ ممبر بن کر کتاب گھر لے آتا، یا کاش، اِس کتاب کو خرید پاتا تو گھر میں رکھتا، ایک بار پڑھتا، دو بار پڑھتا، بار بار پڑھتا ،پر جانتا تھا کہ یہ خواب ہی رہے گا،بھلا کیسے پورا ہو پائے گا۔

والدکے انتقال کے بعد تو مالی مسائل اتنے بڑھ گئے کہ پوچھیے مت۔ فیس ادا کرنا تک مشکل تھا تو اپنے شوق کی کتابیں خریدنا ممکن ہی نہیں تھا۔ ایک ٹرسٹ سے ضرورت مند طالب علموں کو نصاب کی کتابیں خریدنے کے لیے کچھ روپے سیشن کے آغاز میں ملتے تھے۔ اُن سے اہم پرانی نصابی کتابیں خریدتا تھا، باقی اپنے ہم جماعتوں سے لے کر پڑھتا اور نوٹس بنا لیتا۔ اُن دنوں امتحان کے بعد طالب علم اپنی پرانی نصابی کتب آدھے دام میں بیچ دیتے تھے، جنہیں غریب طالب علم خرید لیتے تھے۔ اِسی طرح کام چلتا تھا۔

لیکن پھر بھی میں نے زندگی کی پہلی ادبی کتاب اپنے پیسوں سے کیسے خریدی؟ یہ آج تک یاد ہے۔ اُس سال انٹرمیڈیٹ پاس کیا تھا۔پرانی کتابیں بیچ کر بی اے کی کتابیں لینے ایک سیکنڈہینڈ بُک شاپ پر گیا۔ اُس بار جانے کیسے درسی کتابیں خرید کر بھی دو روپیے بچ گئے تھے۔ سامنے کے سنیما گھر میں ’دیوداس‘لگی تھی۔ نیو تھیٹرس والی۔ بہت چرچا تھا اُس فلم کا۔لیکن میری ماں کو سنیما دیکھنا بالکل پسند نہ تھا۔ کہتی تھیں اُسی سے بچے بگڑتے ہیں۔خیر اس فلم کے گانے سنیما گھر کے باہر بجتے تھے۔

اُس میں سہگل کا ایک گانا تھا--’’دُکھ کے دن اب بیتے ناہیں‘۔ میں اُسے اکثر گنگناتا رہتا تھا، کبھی کبھی گنگناتے ہوئےآنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے ،جانے کیوں! ایک دن ا ماں نے سُنا۔ ماں کا دل تو آخر ماں کا دل ہوتا ہے۔ ایک دن بولیں’’دکھ کے دن بیت جائیں گے بیٹا، دل اِتنا چھوٹا کیوں کرتا ہے؟ ہمت سے کام لے‘‘۔ جب اُنھیں معلوم ہوا کہ یہ تو فلم’دیوداس‘ کا گانا ہے،تو سنیما کی سخت مخالف ماں نے کہا’’اپنا من کیوں مارتا ہے،جاکرفلم دیکھ آ۔ پیسے میں دے دوں گی۔‘‘

میں نے ماں کو بتایا کہ ’’کتابیں بیچ کر دو روپیے میرے پاس بچے ہیں۔‘‘وہ دو روپیے لے کر ماں کی اجازت سے فلم دیکھنے گیا۔ پہلا شو ختم ہونے میں دیر تھی،قریب میں اپنی شناسا کتاب کی دُکان تھی ،وہیں چکّر لگانے لگا۔ اچانک دیکھا، کائونٹر پر ایک کتاب رکھی ہے’دیو داس‘۔ مصنف:شرت چندر چٹو پادھیایے۔ دام صرف ایک روپیہ، میں نے کتاب اُٹھا کر اُلٹی پلٹی۔ تو کتاب فروش بولا,’’تم طالب علم ہو۔ یہیں اپنی پرانی کتابیں بیچتے ہو۔ ہمارے پرانے گاہک ہو۔تم سے اپنا کمیشن نہیں لوں گا۔صرف دس آنے میں یہ کتاب دے دوں گا۔‘‘

میرا من پلٹ گیا،کون دیکھے ڈیڑھ روپیے میں فلم؟ دس آنے میں’دیوداس‘ خریدی۔ جلدی ،جلدی گھر لوٹا، اور دو روپے میں سے بچے ایک روپیہ چھ آنا اپنی ماں کے ہاتھ میں رکھ دیے۔

’’ارے تُو لوٹ آیا؟فلم نہیں دیکھی؟‘‘ماں نے پوچھا۔

’’نہیں اماں! فلم نہیں دیکھی، یہ کتاب لے آیا دیکھو۔‘‘

اماں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، خوشی کے تھے یا غم کے، یہ نہیں معلوم۔ یہ میرے اپنے پیسوں سے خریدی، میری اپنی ذاتی لائبریری کی پہلی کتاب تھی۔

آج جب اپنے کتابی خزانے پر نظر ڈالتا ہوں جس میں ہندی، انگریزی کے ناول، ڈرامے، افسانوی مجموعے، سوانح، یادداشتیں، تاریخ، آرٹ، آثارِ قدیمہ ،سیاست کی ہزارہا کتابیں ہیں، تب کتنی شدت سے یاد آتی ہے اپنی وہ پہلی کتاب کی خریداری۔ کتنے لکھاریوں، فلسفیوں کی اِن کاوشوں کے بیچ اپنے آپ کو کتنا بھرابھرا محسوس کرتا ہوں۔

مراٹھی کے معروف کوی وِندا ،میرا آپریشن کامیاب ہونے کے بعد مجھےدیکھنے آئے تھے، بولے--’’یہ سیکڑوں مہان ہستیاں جو کتاب کے روپ میں تمھارے چاروں طرف رونق افروز ہیں، ان ہی کی دعائوں سے تم بچے ہو۔ انھوں نے تمھیں دوسری زندگی دی ہے۔‘‘

میں نے من-ہی-من سلام کیا وِندا کو بھی اوراِن عظیم ہستیوں کو بھی جو کتاب کے روپ میں میرے چاروں طرف تھیں۔‘‘

(نوٹ:یہ مضمون دھرم ویر بھارتی کی برسی کے موقع پر بھارت سے موصول ہوا۔) دھرم ویر بھارت کے مشہور شاعر ، مصنف، ناول نگار، ڈرامہ نگارا اور مفکر تھے۔