کرّۂ فضاء کے اطراف پیدا ہونے والی گرمی کا اصل منبع سُورج کی وہ خارج کردہ حرارتی توانائی ہوتی ہے جو خلاء سے ہوتی ہوئی شمسی شعاعوں کی صورت میں فضاء اور فضاء بسیط کے راستے سطح زمین تک رسائی حاصل کرتے ہوئے ہر چہار جانب پھیل جاتی ہیں لیکن اس گرمی کو فضاء فوراً اندر جذب نہیں کر پاتی۔ اس وجہ سے ہوا بھی فوری طور پر گرم نہیں ہوتی۔ ہاں البتہ جب گرمی زمین کو چُھوتی ہے تو چٹان اور تراب سے بنی ہوئی زمین میں جذب ہو کر اس کو گرمی پہنچاتی رہتی ہے۔ اس طرح زمین حرارتی انرجی کے حصول سے گرم سے گرم ترین ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہ قدرتی عمل ’’ایصالِ حرارت‘‘ (Conduction) کہلاتا ہے۔
گرم ہوا چونکہ ہلکی ہوتی ہے، اس لئے یہ کسی ایک مقام پر مستقل قیام نہیں کرتی بلکہ ہلکی کثافت کی وجہ سے پستی سے بلند و بالا مقام تک پھیل جاتی ہیں۔ جذب شُدہ حرارت کا اس طرح خارج ہونے سے ہوا میں گرمی کی شدت بڑھ جاتی ہے ،جس کا اَثر ملک کی آب و ہوا پر پڑتا ہے، کیوں کہ دیگر عوامل کے علاوہ گرمی بھی آب و ہوا کو کنٹرول کرتی ہے۔ گرم ہوا کا اس طرح ایک مقام سے دُوسرے مقام تک سفر کرنا ’’نقل و حرارت‘‘ کے زمرے میں آتا ہے، جس میں گرمی کی کل مقدار ہجرت کرتی ہے۔
گرمی کی کل مقدار جو ہوا میں جذب ہوتی ہے یا فرار ہوتی ہے اسے ’’انسولوشن‘‘ (Insolution) کہتے ہیں۔ جذب شُدہ حرارتی توانائی یا گرمی کی مقدار کی پیمائش دو طرح سے کی جاتی ہے۔ یعنی وہ زاویائی جھکاؤ (Angle of Inclination) جس پر سُورج کی کرنیں سطح زمین سے ٹکراتی اور پھر دِن بھر سُورج کی شعائیں جو زمین کے اطراف منتشر ہو کر اس کے کل وقت کا تعین شامل ہے اور یہ کیفیت عرض بلد، طول بلد سے معلوم کی جا سکتی ہے۔
جب کسی جگہ کا محلِ وقوع بتانا مقصود ہو تو سب سے پہلے یہ نقاط سامنے آتے ہیں کہ یہ جگہ اتنے عرض بلد اور اتنے درجہ طول بلد پر واقع ہے جب کسی جگہ کا عرض بلد بتایا جاتا ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ یہ خطِ استواء سے اتنی دُوری شمال یا جنوب کی طرف واقع ہے جب کہ خطِ استواء ایک فرضی لکیرہے جو زمین کے اطراف کھینچی گئی ہے۔ یہ قطب شمال اورجنوب کی درمیان ایک جیسے فاصلہ پرہیں جو قطبین کہلاتی ہیں۔
زمین کے محور کا جھکاؤ اور موسموں کی کیفیت کے نقشوں سے اس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ خطِ استواء کے قریب سُورج کی شعاعیں تقریباً سارا سال عموداً پڑتی ہیں۔ چنانچہ خطِ استواء کے علاقے دُنیا کے دُوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ گرمی وصول کرتے ہیں۔ نقشے پر وہ لائن جو بلند گرمی والے محلِ وقوع کو منسلک کرتے ہیں۔ حرارتی استواء(Heat Equation) کہلاتا ہے۔ یہ عام طور پر جغرافیائی خطِ استواء کی پیروی کرتا ہے۔ عرض بلد جہاں شمسی کرنیں ترچھی پڑتی ہیں جہاں درجۂ حرارت میں کمی ہوتی ہے ،جس کی وجہ سے گرمی کم ہوتی ہے۔
یہ سردیوں کے موسم میں خاص طور پر دُرست ہوتا ہے جب عرض بلد میں اضافہ کے ساتھ رات لمبی ہو جاتی ہے ۔مثلاً ° Oپر 12 گھنٹے اور 90° عرض بلد پر 6 مہینے جب کے اس کے ساتھ ہی دن کی روشنی کا دورانیہ بھی اسی حساب سے کم ہوتا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ گرمی میں طویل رات کے ساتھ دِن کا دورانیہ بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔ گرمیوں میں بلند عرض بلد میں دِن کے وقت روشنی کا دورانیہ طویل ہوتا ہے۔ اس صورت حال میں سُورج کی کرنیں تقریباً عموداً پڑتی ہیں، جس کی وجہ سے ان علاقوں میں موسم گرما میں گرمی سردیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
مثلاً 27½(ساڑھے ستائیس) عرض بلد پر یہ 13 اور 53 منٹ جبکہ 42½ (ساڑھے بیالیس) عرض بلد 16 گھنٹے۔ لیکن صرف عرض بلد کی وجہ سے یہ نہیں ہوتا کہ کسی خاص جگہ پر درجۂ حرارت کی مقدار کا تعین کیا جا سکے۔ اگر ایسا ہوتا تو ایک ہی عرض بلد پر واقع علاقے مساوی گرمی کی زَد میں ہوتے۔ سطح زمین پر حرارت کی تقسیم کو عام طور پر نقشے میں ’’خط ہم تپشی‘‘ (Isotherm) سے ظاہر کیا جاتا ہے۔
یہ مساوی اوسط درجہ ٔحرارت کے مختلف حرارتی نقاط کو منسلک کرنے کے بعد ظاہر کئے جاتے ہیں جہاں پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ’’خط ہم تپشی‘‘ عرض بلد کے بالکل متوازی نہیں ہوتے ہیں، جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ’’انسولوشن‘‘ ہی وہ واحد کارندہ نہیں ہے جو کسی بھی علاقے کی درجۂ حرارت کو باقاعدگی سے کنٹرول کرتا ہو۔
اس کے اثرات پانی اور خشکی کے فرق کے حوالے سے بھی منسلک ہوتا ہے، کیونکہ نسیم برّی اور بحری سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ’’انسولوشن‘‘ کی مساوی مقداربرّی خطّہ کو بڑی تیزی سے گرم کرتی ہے اور حرارتی توانائی مہیا کرتی ہے۔ نسبتاً بحری کی سطح کے۔ اس تفریق کی ایک وجہ یہ ہے کہ سطح کے قریب پانی موجوں اور لہروں کے ساتھ باہم مل کر سرد ہو جاتًے ہیں۔
گرم سطحی پانی کا مسلسل نیچے سے آنے والے سرد پانی سے تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ اس صورت حال کی وجہ سے حرارتی عمل سُست ہو جاتا ہے،پھر یہ کہ سطحی پانی خشکی کے مقابلے میں مزید سرد ہوتا ہے ،جس کی وجہ ’’کنویکشن کرنٹ‘‘ ہوتی ہیں ،جس کے تحت ٹھنڈا پانی نیچے کی طرف جاتا ہے جب کہ نیچے سے آنے والے گرم پانی سے اس کا تبادلہ ہوتا ہے۔ ’’انسولوشن‘‘ کی مساوی مقدار خشکی کو تیزی سے پانی کے مقابلے میں گرم کر دیتا ہے۔
خشکی اور پانی دونوں کی حرارت جذب کرنے اور آزاد کرنے کی اپنی الگ الگ صلاحیت ہوتی ہے، جس کو حرارت خاص (Specific Heat) کہتے ہیں۔ پانی کی ’’حرارت خاص‘‘ خشکی کے مقابلے میں بلند ہوتی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ایک ہی ڈگری درجہ ٔحرارت پر پانی کو گرم کرنے کے لئے خشکی کے حوالے سے ایک ہی ڈگری پر زیادہ درجۂ حرارت درکار ہوتا ہے۔
حالاںکہ پانی بلند ’’حرارت خاص‘‘ رکھتا ہے لیکن خشکی کے مقابلے میں بتدریج سُست انداز میں ہوتا ہے۔ پانی ٹھنڈا بھی سُست رفتاری سے ہوتا ہے، کیوںکہ یہ اپنے اندر گرمی کو زیادہ دیر تک مقید رکھتا ہے۔ غیرمساوی گرمی کی اور بھی وجہ ہوتی ہے۔ شمسی شعاعوں کی کل مقدار میں سے جو پانی میں شامل ہوتی ہے۔ اس کی ایک مقدار عمل تبخیر کے ذریعہ فضاء میں فرار ہو جاتی ہے جو یقیناً پانی کو گرمی پہنچاتے ہیں لیکن استعمال نہیں ہوتے لیکن خشکی اس عمل سے متاثر نہیں ہوتی ،کیوں کہ پانی کی کم مقدار عمل تبخیر کے ذریعہ بخارات بن کر فضاء میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔
سمندر کی سطح پر بلند (Altitude) بھی درجہ حرارت میں فرق کا باعث بنتی ہیں ’’ٹروپوسفیر‘‘ (Troposphere) میں ہوا کی گرمی عام طور پر بلند میں اوسطاً عام طور پر 5.5 ڈگری فارن ہائیٹ فی 1000 فٹ پر کمی ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے بلند عرض بلد خطّوں میں گرمی ہمیشہ کم ہی ہوتی ہے، کیونکہ اطرافی ہوا سرد ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ خطِ استواء کے ساتھ کچھ بلند و بالا پہاڑوں پر سردی ہوتی ہے ،کیوں کہ یہ برف سے ڈھکی ہوتی ہے، پھر یہ کہ جب پہاڑی علاقوں میں ہوا کی بڑی مقدار بلند ہوتی ہے تو وہاں ’’ایڈیابیٹک‘‘ (Adiabatic) شرح سے حرارت میں فرق پڑتا ہے۔
یعنی ہر 1000 فٹ عرض بلد پر ہوا میں تقریباً 3 ڈگری فارن ہائیٹ درجۂ حرارت کی مناسبت سے سرد ہو جاتی ہے۔ اگر ہوا اپنے رُخ پر بلند ہوتی ہے (Windward Side) اور اس شرح سے حرارت میں تبدیلی ہوتی ہے تو اُسے ’’نم ایڈیا بیٹک‘‘ (Moist Adiabatic) شرح کہا جاتا ہے۔ لیکن جب ہوا بلند ہوتی ہوتی اپنے اندر موجودہ زیادہ تر آبی بخارات کو ’’عمل تکثیف‘‘ (Condensation) کے ذریعہ کم کر دے تو پھر یہ ’’خشک ایڈیابیٹک‘‘ (Dry Adiabatic) شرح سے سرد ہوتی ہے۔
جب ہوا پہاڑوں کے عقب (Lee Word Side) میں پستی کی طرف جاتی ہے تو یہ خشک ’’ایڈیابیٹک‘‘ شرح سے گرمی پھیلاتی ہے جو تقریباً ہزار فٹ پر 5.5 ڈگری فارن ہائیٹ ہو جاتی ہے۔ اب اگر ہوا پہاڑی سلسلوں میں 1000 فٹ بلند پر پہنچتی ہے تو یہ بلند ہوتے ہوئے تقریباً 30 ڈگری فارن ہائیٹ درجہ حرارت میں کمی کرتا ہے جب کہ دُوسری جانب پستی میں جاتے ہوئے 55 ڈگری فارن ہائیٹ درجہ ٔحرارت میں کمی ہو جاتی ہے۔ اس طرح درجۂ حرارت میں تقریباً 25 ڈگری کا فرق پیدا ہوگا۔ اس طرح گردش دوراں میں رہنے والی ہوا گرم اور خشک ہوگی۔
گرمی جس وسیلہ سے آتی ہے ان میں اور بھی کارندے شامل ہوتے ہیں۔ مثلاً ہوا کے جھونکے ایک مقام کی گرم یا سرد ہوا کو دُوسرے مقام تک پہنچا دیتی ہے۔ ساتھ ہی سمندری روئیں منطقہ حارہ کے سمندروں کے گرم پانی کو قطبین کی طرف لے جاتی ہیں تو جس کے اثر سے ٹھنڈے علاقوں کے درجۂ حرارت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جغرافیائی نقشے میں دیکھنے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ بحر اوقیانوس کی روئیں خطِ استواء کے آس پاس سےگرم پانی میں شامل ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے شمالی یورپ کا درجۂ حرارت زیادہ ہوگیا۔
اس طرح جو سمندری روئیں سرد پانی کے ساتھ کسی علاقے میں شامل ہوتی ہیں تو ان کے اثر سے علاقے کی درجۂ حرارت میں کمی آ جاتی ہے۔ علاوہ ازیں گرمی جن وسیلوں سے آتی ہے اور خطہ کی آب و ہوا میں جو فرق پیدا ہوتا ہے۔ اس میں سب سے حیرت انگیز نظریات میں کوہ سازی، آتش فشانی اور قطبین کے مقام کی تبدیلی سے متعلق ہے۔ تازہ ترین کوہ سازی کا عمل گرمی پر دو طرفہ نوعیت کا ہوتا ہے۔ کوہ سازی کا عمل جب مشرقی سے مغرب سمت میں ہوتا ہے تو یہ شمال۔ جنوب ہوا کے بہائو کے عمل میں خلل پیدا کر دیتا ہے۔ یہ قطبین کے علاقوں کو سرد اور خطِ استوا کے خطّوں کو گرمی مہیا کرتا ہے۔
دُوسری طرف پہاڑی علاقوں کے بالائی جانب گلیشیئر کی تخلیق کرتے ہیں، جس سے اگر تمام عوامل موافق ہو تو پھر گلیشیائی دور کا آغاز ہو جاتا ہے، جس سے ہوا کی گرمی میں فرق پیدا ہونے لگتا ہے۔ آتش فشانی کا عمل گرد و غبار اور گرمی کی بہت بڑی مقدار فضاء میں شامل کرتی ہے یہ حتمی طور پر ’’انسولوشن‘‘ شروع کو کم کر دیتے ہیں، کیوں کہ آتش فشانی سے مراد ہی آگ اُگلنے والا، آگ برسانے والا یا شعلے اور چنگائی چھوڑنے والا۔
کرّۂ اَرض پر بے شمار آتش فشاں اور آتش فشانی پہاڑی سلسلے موجود ہیں اور زندہ آتش فشاں ہیں ان میں گرمی کی بہت بڑی مقدار شامل ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی جب قشرِ ارض کے مدِمقابل قطبین اپنی جگہ تبدیل کرتے ہیں تو گلیشیائی علاقے سطح زمین کے اُوپر سے حرکت کرتے ہیں، تاہم یہ تبدیلیاں صدیوں میں رُونما ہوتی ہیں لیکن ہوتی ضرور ہیں۔