جی۔ایم۔اصغر
پبلک اسکول حیدر آباد
رات کے سائے ہر سو پھیل چکے تھے ۔موت کی وادی میں سناٹے کا راج تھا ۔پناہ گزین کیمپ میں موجود زندہ لاشیں سانسیں بھی احتیاط سے لے رہی تھیں کہ کہیں موت کو ان کی موجودگی کا پتا نہ چل جائے۔ خوف کو سینے میں دبائے میں ماں کی چھاتی میں اپنے سر کو چھپائے خود کو تسلی دے رہی تھی کہ موت کی اس وادی میں فرشتہ اجل اب کیا کرنے آئے گا؟ اچانک فضا میں جنگی طیاروں کی آوازیں گونجنے لگیں۔ رات کی تاریکی میں خوف و دہشت کا سناٹا گشت کرنے لگا۔ مجھے یوں لگا جیسے آسمان پر چمکتے ہوئے موت کے جگنو یہ اعلان کررہے ہوں کہ اب تم بھی کل کا سورج نہیں دیکھ پاؤگے۔
کوئی دس دن پہلےاسی طرح رات کے وقت جنگی طیاروں کی آوازیں گونجی تھیں۔ موت کے جگنوؤں نے اپنے پروں سے ایسی آگ برسائی کہ سارا شہر جل اٹھا۔ ہمارا گھر بھی شعلوں کی لپیٹ میں آگیا۔ بابا نے بہ مشکل مجھے اور ماں کو باہر نکالا لیکن بھائی کی جان بچانے کی ناکام کوشش میں وہ خود بھی اس آگ کا ایندھن بن گئے۔ ذہن کے پردے پر اس اندوہ ناک منظر کے ابھرتے ہی میرے رگ و پے میں خوف کی لہر سرایت کرنے لگی۔ دہشت کے مارے میری دبی دبی سسکیاں ماں کے کانوں سے ٹکرائیں تو اس نے اپنے دونوں بازوؤں کے درمیان مجھے لےکر زور سےبھینچ لیا۔
اس کے کمزور ہاتھوں میں نہ جانے کون سی قوت تھی کہ موت کے پیام بر کچھ ہی لمحوں میں بھاگ کھڑے ہوئے۔ بھوک اور خوف کی وجہ سے نیند میری آنکھوں سے عنقا ہوچکی تھی۔را ت کے اندھیرے میں میں نے ماں کے چہرے کو ہاتھ لگایا تو اس کے گالوں کی نمی ہتھیلی کے راستے میرے دل میں اتر گئی۔ ماں نے ایک بار پھر مجھے اپنے گداز سینے کے ساتھ چمٹا لیا۔ محبت کی حرارت نے نہ صرف خوف بلکہ رات کی خنکی کو بھی مجھ سے دور کردیا۔ گرمی کی آغوش پاکر نیند کی پری نے میری آنکھوں میں ڈیرے ڈال دیے۔
اگلی صبح سورج کی کرنیں پھیلیں تو کیمپ میں زندگی حرکت کرتی نظر آئی۔شعاعوں کی تیزی نے نیند کو پسپائی پر مجبور کیا تو میں بھی آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھی۔ ماں تو جیسے سوئی ہی نہ تھی۔ اس کی بوجھل آنکھیں اس بات کی گواہی دے رہی تھیں۔ یہ ایک اسکول کی عمارت تھی۔ جنگ کی تباہی نے اسے بھی کھنڈر بنا دیا تھا۔ سیکڑوں لوگ جن میں زیادہ ترعورتیں اور بچے تھے اس کھنڈر میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ ہر ایک کے چہرے پر ایک المیہ تحریر تھا۔ کرب کی لکیریں ان کی قسمت کا نوحہ پڑھ رہی تھیں۔ کچھ دیر میں ایک فوجی ٹرک جس پر سفید جھنڈا لہرا رہا تھا صدر دروازے سے داخل ہوا۔
اسےدیکھ کر مردہ تنوں میں زندگی کی حرارت پیدا ہوئی اور وہ تیزی سے ٹرک کی جانب بڑھنے لگے۔"یہاں سے ہلنا مت " یہ کہتے ہوئے ماں بھی ٹرک کی جانب لپکی۔ٹرک کے رکتے ہی ایک ہجوم اس کے گرد جمع ہوگیا ۔ٹرک میں موجود سپاہیوں نے تیزی سے کھانے کے پیکٹ پھینکنا شروع کیےاور چند منٹوں میں اپنا کا م نمٹا کرچلتے بنے۔ان کی تقسیم بھی رب دوجہاں کی طرح تھی۔ کسی کے ہاتھ ضرورت سے زیادہ آگیا اور کوئی اپنی ضرورت کے لیے ہاتھ ملتا رہ گیا۔ ہم جب سے یہاں آئے تھے صبح و شام یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ آج بھی یہی کچھ ہوا۔ کچھ لوگوں کے چہروں پر وقتی رونق نے اپنا رنگ جمالیا اور کچھ لوگ جاتے ہوئے ٹرک کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے رہ گئے۔
سارہ !ماں کی پرجوش آواز سن کر میں تخیل کی دنیا سے باہرنکلی۔ آواز میں مسرت کی جو لہر میں نے محسوس کی وہ ماں کے چہرے پر بھی نمایاں تھی۔دو دن کے بعد کھانے کا ایک پیکٹ اس کے ہاتھ لگ ہی گیا تھا۔قریب آکر ماں نے میرا گال تھپتھپایا۔ جلدی جلدی پیکٹ کھولا۔ اندر سے ڈبل روٹی کے چند ٹکڑے، جیم اور کیچپ کے شاشے، اچار کا چھوٹا پاؤچ اور ابلے ہوئے چاول کی بند پلیٹ بر آمد ہوئی۔ ماں نے کاغذی پلیٹ پر سے ٹیپ نوچ کر ڈھکی ہوئی پلاسٹک ہٹائی۔چاولوں پر تھوڑا سا اچار ڈالااور ہاتھ سے لقمے بنا بنا کر تیزی سے میرے منہ میں ڈالنے لگی جیسے کوئی چڑیا اپنے بچوں کو دانا چگاتی ہے۔
پیٹ بھر گیا تو مجھے خیال آیا کہ ماں نے تو کچھ کھایا ہی نہیں۔"ماں تم بھی کھاؤ نا" میں نے ماں سے اصرار کیا تو اس نے دو تین لقمے اپنے منہ میں ڈال لیے اور باقی سامان یہ کہتے ہوئے دوبارہ پیکٹ میں بند کرکے ایک طرف رکھ دیا کہ ابھی مجھے بھوک نہیں ہے، یہ ہم بعد میں کھالیں گے۔ ماں ہم کب تک یہاں رہیں گے؟ سوال کرتے ہوئے میں نے ماں کے چہرے کی طرف دیکھا جس پر گہری افسردگی چھا ئی ہوئی تھی۔"پتا نہیں" ماں نے خلا میں گھورتے ہوئے مایوسی سے جواب دیا۔
ماں میں اپنے اسکول کب جاؤں گی؟ میں نے بے خیالی میں ایک اور سوال کر ڈالا۔"بہت جلد ان شاء اللہ"ماں نے ایک سرد آہ بھری اورچہرہ دوسری طرف پھیرلیا۔ لیکن وہ اپنے عارض پر بہتے ہوئے آنسو چھپانے میں ناکام رہی۔ میں نے اپنی انگلیوں کے پوروں سےاس کے آنسو صاف کیےتو ماں نے میرا سر اپنی بانہوں میں لے کر سینے میں چھپالیا، ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اور ایک سیل رواں اس کی آنکھوں سے بہ نکلا۔
آنسو اس کے گالوں سے بہتے ہوئے میرے بالوں میں جذب ہونے لگے۔ کچھ دیر بعد جب سیلاب تھما تو ماں نے اپنی قمیض کے دامن سے چہرہ صاف کیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر صدر دروازے کی طرف چلی۔ دروازے کے قریب اندر کی جانب ایک لڑکا جس کی ایک ٹانگ کٹی ہوئی تھی چھوٹی سی ریڑھی پر بھٹے بھون کر بیچ رہا تھا ۔ماں بھٹے لیں؟ میں نے امید بھرے لہجے میں ماں سے کہا۔"نہیں بھٹے کھانے سے پیٹ میں درد ہوجاتا ہے ۔"ماں نے پیار سے میری طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
" وہ آرہے ہیں " بھاگتا ہوا ایک شخص صدر دروازے سے داخل ہوتے ہوئے زور سے چیخا۔اس کی آواز سنتے ہی کیمپ میں بھگدڑ مچ گئی۔بھاگو۔نکلو چلو۔ہر شخص بد حواس ہوکرباہر کی جانب دوڑنے لگا۔ ماں نے میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا اور مجھے کھینچتے ہوئے صدر دروازے کی طرف لپکی۔ لوگ ایک دوسرے کو دھکیلتے ہوئے باہر نکلنے کی کوشش کررہے تھے۔ہر شخص بھاگ رہا تھا جیسے موت اس کے پیچھے پڑی ہو۔ دورکہیں جنوب کی جانب گولیوں کی تڑتڑاہٹ مسلسل سنائی دے رہی تھی۔
آسمان پر دھوئیں کے بادل نظر آرہے تھے۔ہجوم کی دھکم پیل میں ہم دونوں بھی کیمپ سے باہر نکل آئے۔ ماں ایک لمحے کو میرا ہاتھ پکڑے ساکت کھڑی رہی پھر دوسرے لوگوں کی طرح شمال کی سمت مجھے گھسیٹتے ہوئے دوڑنے لگی۔ آہستہ آہستہ گولیوں کی آوازیں دم توڑنے لگیں۔ لوگوں کا ہجوم کم ہونے لگا۔ویران مکانات ایک ایک کرکے معدوم ہونے لگے۔ پکی سڑک کچے راستے میں تبدیل ہونے لگی۔ ہماری رفتار بھی مدھم پڑنے لگی۔ آخر کار ہم دونوں کچے راستے کے کنارے ایک جلے ہوئے درخت کے تنے سے ٹیک لگاکر بیٹھ گئے۔
کچھ دیر میں سانس درست ہوئی تو میں نے ماں کے ایک ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لےکر اپنا سر اس کے زانو پر رکھ دیا اور پوچھا " ماں اب ہم کہاں جائیں گے ؟"ماں دوسرے ہاتھ سے میرا گال سہلاتے ہوئے بولی:"فکرنہ کرو میری بچی !اللہ ہماری مدد ضرور کرےگا۔"ماں نے امید بھری نظروں سے آسمان کی طرف دیکھا۔ کچھ دیر ہم اسی طرح خاموش بیٹھے رہے۔چڑھتےسورج کا زوال شروع ہوچکا تھا۔ تھوڑی دیر بیٹھنےسے کچھ سکون ملا تو ماں نے پھر قصد سفر باندھا۔ چلو سارہ، اٹھو،تھوڑی ہمت کرو۔ ماں نے کھڑے ہوتے ہوئے میرا ہاتھ تھاما۔ کہاں ماں ؟میں نے اٹھتے ہوئے بےزاری سےپوچھا۔ میری بچی ہمیں سورج ڈھلنے سے پہلے کسی محفوظ مقام تک پہنچنا ہے۔ماں نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئےجواب دیااور ڈھلتے سورج کی سمت سفر شروع کردیا۔
چلتے چلتے سورج کی روپہلی دھوپ اب پیلی پڑنے لگی تھی۔ میرے لیے چلنا دو بھر ہوگیا۔ پیر بے جان ہونے لگے۔ ماں ! مجھ سے اب نہیں چلا جاتا۔ میں نے زمیں پر پیر پٹختے ہوئے روہانسی ہوکر دہائی دی اور آگے چلنے سے انکار کردیا۔ بس تھوڑی دور اور میری جان۔ وہ دیکھو سامنے جو درخت نظر آرہے ہیں، بس وہاں تک، یہ یقیناً کوئی گاؤں ہے۔ ماں نے سامنے کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے مجھے ہمت دلائی اور میرا ہاتھ پکڑکر دوبارہ گھسیٹنا شروع کردیا۔ درختوں کی طرف بڑھتے ہوئے کچے راستے کےدونوں جانب کہیں کہیں میدانوں میں سبزہ بھی دکھائی دینے لگا۔ ماں کا اندازہ درست نکلا ۔جیسے جیسے ہم درختوں کے قریب ہونے لگے ویسے ویسے کچھ کچے مکانات کے نقوش بھی ابھرنے لگے۔
ڈھلتا سورج افق کے لبوں پر شفق کی لالی بکھیر چکا تھا۔ ماں کے قدم تیز تیز اٹھنے لگے۔خود میرے پیروں میں بھی جیسے جان سی پڑگئی۔ اب درختوں کے قریب کچے مکانات واضح نظر آرہے تھے۔مکئی کے کھیت کے قریب سے گزرتے ہوئے اچانک ماں کے پیروں کو جیسے بریک لگ گئے۔ اس کے بازوؤں نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا۔ میں حیرت سے اس کے چہرے کی طرف تکنے لگی۔ چند لمحے وہ ساکت کھڑی نہ جانے کیا سوچتی رہی پھر اس نے مجھے اپنے بازوؤں کی قید سے آزاد کیا اور میرا ایک ہاتھ پکڑکر گھسیٹتے ہوئے مکئی کے کھیت میں جا گھسی۔اس کی نظریں مسلسل مکانوں کی سمت جمی ہوئی تھیں۔ ماں کیا ہوا؟ میں نے پریشان ہوکر پوچھا۔
ماں نے اپنے ہونٹوں پر شہادت کی انگلی رکھتے ہوئے مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔پھر وہی انگلی اپنے ہونٹوں سے ہٹاکر اس جانب اٹھائی جہاں اس کی نظریں جمی ہوئی تھیں اور سرگوشی کے انداز میں بولی:"دشمن یہاں بھی آگئے ہیں۔" میں نے اس کی اٹھی ہوئی انگلی کی سیدھ میں دیکھا تو مکانوں کے پاس دو تین گاڑیاں کھڑی نظر آئیں جن کے آس پاس کچھ وردی والےہاتھوں میں ہتھیار لیے کھڑے تھے۔ اچانک فضا میں گولیاں چلنے کی آوازیں گونجنے لگیں۔انسانی چیخوں نے ایک کہرام برپا کردیا۔
ماں نے مجھے اپنی بانہوں کے حصار میں لےکر چھاتی سے چمٹالیا جیسے مجھے دشمن کے حملوں سے بچارہی ہو۔پھر چیخوں کی آوازیں دم توڑ گئیں، گولیاں چلنے کی آوازیں آنا بند ہوگئیں اور مکانات سے آگ کے شعلے بلند ہونے لگے۔ کچھ دیر بعد گاڑیوں کے انجنوں نے روانگی کا بگل بجایا ۔چند لمحوں میں گاڑیوں کی گڑگڑاہٹ مدھم پڑتے پڑتے معدوم ہوگئی۔ جب ماں کو دشمن کے جانے کا یقین ہوگیا تو وہ مکئی کے کھیت سے باہر نکلی اور جلتے مکانوں کی طرف دیکھنے لگی۔ افق پر سرخ آفتاب دن کے اجالے پر اپنا آخری سلام بھیج رہا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے مکان کے سرخ شعلے دیکھ کر وہ راہ فرار اختیار کر رہا ہو۔
ماں مجھے بھوک لگی ہے۔ میں نے ماں کو مخاطب کرتے ہوئےاس کے چہرے کی طرف دیکھا۔ جلتے مکانوں کی تیز لو میں ماں کا چہرہ بجھا بجھا سا لگ رہا تھا۔میری آواز سن کر ماں نے غور سے میرے چہرے کی طرف دیکھا پھر بایاں ہاتھ اٹھا کر اس کی انگلیاں میرے سر میں پھیرنے لگی۔"بھوک لگی ہے" ماں زیرِ لب بڑبڑائی۔ اس کی نطریں میرے چہرے سے ہٹ کر ایک بار پھر جلتے مکانوں پر جم گئیں جن کے بلند شعلے اب مدھم پڑنے لگے تھے۔"ہاں ماں سخت بھو ک لگ رہی ہے۔"میں نے ماں کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھا جیسے میرے ہر درد کا درماں اس کے پاس ہو۔
ماں نےپلٹ کر افسردہ نگاہوں سےمجھے دیکھا پھر یکایک اس کی مایوس آنکھوں میں امید کی کرن چمکی۔ایک اداس مسکراہٹ کے ساتھ وہ مکئی کےکھیت میں جا گھسی۔ باہر نکلی تو اس کے دونوں ہاتھوں میں بھٹے تھے۔بھٹے ہاتھوں میں لیے وہ جلتے مکانوں کی طرف بڑھی۔ میں بھی اس کے ساتھ ساتھ چل پڑی۔ مکانات کے بڑھکتے شعلے اب سلگتے انگاروں میں تبدیل ہورہے تھےاور ان کے مکین اپنے لہو کی سرخی سے ان کا منہ چڑا رہے تھے۔
شکست خوردہ سورج کی جگہ سلطنت آسمان پر چاند تخت نشیں ہوچکا تھا۔ فضا میں خنکی بڑھ رہی تھی۔ ماں چلتے چلتے ایک مکان کے قریب رکی جو اب انگاروں کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا تھا۔وہ کچھ دیر خلا میں نہ جانے کیا تلاش کرتی رہی پھر دو قدم آگے بڑھی اور زمین پر بیٹھ گئی۔ ایک بھٹے کی مدد سے کچھ سلگتے انگاروں کو اپنی طرف کیا اور ان پر بھٹے بھوننے لگی۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی