انگریزی میں ایک قول مشہور ہے کہ واٹر لُو کی جنگ انگلستان کے اسکولوں کے کھیل کے میدانوں میں جیتی گئی تھی(واٹر لُوکی جنگ میں برطانوی افواج اور اس کے اتحادیوں نے نپولین کوشکست دی تھی)۔ اس قول میں یقینا کچھ مبالغہ ہے لیکن یہ تعلیم ، تربیت اورتعلیمی اداروں میں کردار سازی کی اہمیت کو پوری طرح اجاگر کرتا ہے ۔کسی قوم کے تعلیمی ادارے ہی ایسے افراد کی ذہن سازی کرتے ہیں جنھیں آگے چل کر جنگوں میں حصہ لینا ہوتا ہے، یعنی سپاہی۔
کسی قوم کا ذہن اس کے سپاہیوں میں بھی جھلکتا ہے لیکن جنگ صرف سپاہی اکیلے ہی نہیں لڑتے ، ان کے پیچھے ان کی قوم بھی کھڑی ہوتی ہے۔ اور قوم اور سپاہی اس شے کی خاطر لڑتے ہیں جس سے وہ محبت کرتے ہیں ۔اس بات کو معروف برطانوی ادیب ، فلسفی اور طنزنگار جی کے چیسٹرٹن نے بڑی خوب صورتی سے بیان کیا ہے، کہتے ہیں کہ ’’سچا سپاہی اس لیے نہیں لڑتا کہ جو کچھ اس کے سامنے ہوتا ہے وہ اس سے نفرت کرتا ہے بلکہ وہ اس لیے لڑتا ہے کہ جو کچھ اس کے پیچھے ہوتا ہے وہ اس سے محبت کرتا ہے‘‘۔سپاہی کے سامنے اس کا دشمن ہوتا ہے اور پیچھے اس کا وطن اور قوم ۔
جواباً قوم بھی ان سپاہیوں سے محبت کرتی ہے جو ان کی پُر سکون نیند کی خاطرخود راتوں کوجاگ کر سرحدوں پر پہرہ دیتے ہیں۔ قوم کے ان افراد میں شاعر اور ادیب بھی یقینا شامل ہیں اور وہ اپنے سپاہیوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اس کی مثالیں دور ِ جدید میں بھی مل جاتی ہیں ، مثال کے طور پر جب امریکا پہلی جنگ ِ عظیم میں شامل ہوا تو عوامی جذبات فوراً ہی اس کی حمایت میں ابھر کر سامنے آئے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی ادیبوں اور فلسفیوں نے قومی تقاضوں پر لبیک کہا تھا۔ اس جنگ میں امریکا کے شامل ہونے کی حمایت صرف جان ڈیوی جیسے فلسفیوں ہی نے نہیں کی تھی بلکہ بائیں باز وکے رجحانات رکھنے والے بعض اہل قلم بھی اپنے ذاتی اختلافات کے باوجود قومی مفاد میں اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔
یہ درست ہے کہ رنڈولف بورن اور اس جیسے کچھ اور دانش وراس جنگ میں امریکا کے شمول کے مخالف تھے لیکن ایسے لکھنے والے مٹھی بھر ہی تھے اور ان کے پاس اس کی اپنی وجوہات اور دلائل ہوں گے مگر وہ کم از کم کسی غیر ملکی فنڈنگ یا تنخواہوں کے لالچ میں اپنی فوج کے خلاف باتیں نہیں کررہے تھے۔ ماضی ِ قریب میں صدام حسین کے خلاف لڑنے والی افواج کے جلو میں امریکی اور مغربی صحافیوں کی ایک پوری پلٹن تھی اور اپنے’’ قومی مفادات‘‘ کے پیشِ نظر رپورٹنگ کرتے ہوئے وہ صحافی غیر جانب داری اور معروضیت پر مبنی خبر رسانی جیسے اہم صحافتی اصولوں کو بھی بسہولت فراموش کیے ہوئے تھے اور بخوشی فوجیوں کے ہم عناں تھے۔
اصولی بات یہ ہے کہ کوئی فوج اس وقت تک دشمن سے نہیں لڑ سکتی جب تک اس کی قوم اس کے ساتھ نہ کھڑی ہو اور بھارت کے خلاف انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں پاکستانی قوم نے جس بے مثال جذبے سے اپنی مسلح افواج کا ساتھ دیا، پاکستانی اہلِ قلم بھی اسی جذبے سے اپنے سپاہیوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے کیونکہ انھیں علم تھا کہ یہ وہ سچے سپاہی ہیں جن کے سامنے دشمن اور پیچھے ان کا وطن اور ان کی قوم ہے، ان سے محبت کی خاطر ہی وہ سپاہی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے تھے۔
ڈاکٹر وحید قریشی نے اپنی کتاب اردو نثر کے میلانات میں درست نشان دہی کی ہے کہ انیس سو پینسٹھ میں بھارتی فوج کے حملے نے پاکستانی قوم میں وہ یک جہتی اور یگانگت پیدا کردی جس کا بڑی حد تک فقدان رہا تھا اور جس کی شدید ضرورت تھی۔ جن شہریوں نے اس جنگ کے زمانے کو خود دیکھا ہے وہ آج بھی گواہی دیں گے کہ اس جنگ کے دوران میں پاکستانی قوم میں جو اتحاد اور جوش و جذبہ تھا اس کی مثال اس سے پہلے ہماری تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہاں تک کہ ان رومانیت پسند اور داخلیت پسند شاعر وں اور ادیبوں نے بھی جو پوچھا کرتے تھے کہ ’’کیا لکھنے والوں کو اپنے ملک کا وفادار ہونا چاہیے ‘‘ اپنے خیالات پر نظر ِ ثانی شروع کردی۔
جیسا کہ شہزاد منظر نے لکھا ہے کہ حلقۂ ارباب ِ ذوق سے تعلق رکھنے والے شاعر و ادیب ’’افادیت ‘‘ کے نظریے کے تحت ادب تخلیق کرنے کے حامی نہیں تھے اور ادب میں ’’کمٹمنٹ ‘‘ یعنی کسی نظریے یا مقصد کے تابع ہوکر لکھنے کے خیال کے بالعموم قائل نہیں تھے بلکہ سمجھتے تھے کہ تخلیقی ادب کو سیاسی اور سماجی نظریات سے بالا تر ہونا چاہیے ، لیکن انھوں نے بھی اس جنگ میں نظریاتی اور ادبی طور پر اپنا حصہ ڈالا۔
بقول شہزاد منظر کے، اس سترہ روزہ جنگ کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ایسے ادیبوں اور شاعروں کا دَبا ہوا جذبۂ حب الوطنی بھی بیدار ہوگیا جو مقصدی اور افادی ادب کو نہیں مانتے تھے ، چھوٹے بلکہ بڑے اختلافات بھی بھلا دیے گئے اور ہم ایک متحد قوم بن کر ابھرے۔ پینسٹھ کی جنگ میں حلقۂ ارباب ِ ذوق حتیٰ کہ ترقی پسند ادبی تحریک سے تعلق رکھنے والے اہلِ قلم نے بھی بعض ایسی ادبی تحریریں پیش کیں جو پوری قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتی تھیں اور ان میں سے بعض قومی گیت اور جنگی نغمے ایسے ہیں کہ انھیں آج بھی سنیں تو دل میں ایک ولولہ اور جذبہ موجیں مارنے لگتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان نغموں اور جذبوں کو عام کرنے میں ریڈیو پاکستان نے ایک بہت ہی اہم کردار ادا کیا اور ملک کے چپے چپے پر ان شاعروں کا پیغام پہنچایا جو وطن کی محبت کے گیت گارہے تھے۔
یہ ممکن نہیں ہے یہاں ان تمام شعرا کے نام دیے جاسکیں جنھوں نے پینسٹھ کی جنگ میں جوش آور اور خوب صورت قومی گیت اور جنگی ترانے لکھے ، البتہ ان میں سے کچھ کے نام یہ ہیں : رئیس امروہوی، احسان دانش، مسرور انور، فیاض ہاشمی، حفیظ ہوشیارپوری، صوفی تبسم، جمیل الدین عالی، حمایت علی شاعر۔ ان ترانوں اور نغموں کے ساتھ ساتھ کچھ ایسی نظمیں بھی لکھی گئیں جو ان گیتوں سے کہیں زیادہ فکری گہرائی لیے ہوئے تھیں اور جذبات کو اجاگر کرنے کے ساتھ دائمی ادبی خوب صورتی کی بھی حامل تھیں۔ ایسی نظموں کے خالقوں میں سے کچھ کے نام یہ ہیں: احمد ندیم قاسمی، نعیم صدیقی، جیلانی کامران، مجید امجد ،منیر نیازی، صفدر میر، قتیل شفائی، شورش کاشمیری، فارغ بخاری، شاعر لکھنوی، ادا جعفری، امجد اسلام امجد، صہبا اختر، ساقی جاوید، جعفر طاہر، مختار صدیقی، احمد فراز اوردیگر۔یہاں تک کہ غزل جیسی صنف بھی اس جوش و جذبے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی اور بعض شعرا کی غزلوں میں بھی اس قومی جذبے کا عکس نظر آتا ہے، مثلاً ماہر القادری اور احمد فراز کی بعض غزلوں میں یہ رنگ موجود ہے۔
بعض نقادوں کا خیال ہے کہ اس موقعے پر اردو فکشن نے اس جذبے اور شدت کا مظاہر ہ نہیں کیا جو شاعری میں نظر آیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اردو فکشن نے بھی اس میں کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ڈالا۔ اس ضمن میں شہزاد منظر نے پتے کی بات یہ لکھی ہے کہ گیتوں اور نظموں کے برعکس ناول اور افسانے میں پلاٹ، کردار ، بیانیہ انداز، مکالمے اور کہانی پن ضروری ہوتا ہے اور ان سب کو مختصر وقت میں مجتمع کرکے ایک خاص نقطۂ نظر یا نظریے اور وابستگی (کمٹمنٹ ) کے ساتھ پیش کرنا آسان نہیں ہے۔ گیت یا غزل یا نظم چند روز میں لکھی جاسکتی ہے، بلکہ ہمارے بعض شعرا نے اس جنگ میں چند گھنٹوں میں وجد آور گیت تخلیق کردیے لیکن ناول لکھنے میں برسوں نہیں تو مہینوں تو لگ ہی جاتے ہیں اور یہ کام جلد بازی میں ٹھیک سے ہوبھی نہیں سکتا۔ یہ حقیقت ہے کہ تخلیقی نثر لکھنا شاعری سے زیادہ خون ِ جگر طلب کرتا ہے۔
تاہم اردو میں اس جنگ کے پس منظر میں یا اس کے واقعات و حالات پر مبنی خاصے افسانے لکھے گئے ۔ یہ اور بات ہے کہ ان میں سے بعض پر افسانوں کے بجائے رپورتاژ کا گمان ہوتا ہے اور کچھ تو بالکل نعرے بازی کی سطح تک پہنچ جاتے ہیں لہٰذا ادبی معیار پر پورے نہیں اترتے۔ لیکن بعض ادیبوں نے پاک بھارت جنگ پر بعض نہایت متاثر کن افسانے لکھے اور ان میں بالخصوص انتظار حسین، الطاف فاطمہ ، مسعود مفتی اور بعض دیگر لکھنے والے شامل ہیں۔ مسعود مفتی کے افسانوں کا مجموعہ ’’رگ ِ سنگ‘‘ ۱۹۶۹ء میں شائع ہوا۔ اس کے تمام افسانے انیس سو پینسٹھ کی جنگ کے پس منظر میں ہیں اور اہل وطن کے جذبات اور ان کی قربانیوں کی پُر تاثیر عکاسی کرتے ہیں ۔ ان میں فنکارانہ مہارت بھی ہے اور معاشرے کی عکاسی بھی۔ یہ محض نعرے بازی نہیں ہیں بلکہ ان کا ادبی پایہ بلند ہے۔
جیسا کہ رگ ِ سنگ کی مثال سے واضح ہے، جنگ تو سترہ روز میں ختم ہوگئی لیکن اس نے پاکستانیوں کے قلب و روح پر اَن مِٹ نقوش چھوڑے اور بعد میں بھی ان جذبات کا اعادہ ہوتا رہا جو جنگ میں محسوس کیے گئے تھے۔ مثلاً جنگ کے بعد کئی اخبارات اور رسالوں نے جنگ ِ ستمبر کے موضوع پر خاص نمبر یا خصوصی گوشے شائع کیے اور یہ سلسلہ خاصے عرصے تک چلتا رہا۔جن ادبی رسالوں نے اس جنگ کے موضوع پر خاص اشاعتیں پیش کیں ان میں سے چند کے نام ہی یہاں دیے جاسکتے ہیں اور وہ یہ ہیں: نقوش، نقش، فنون، ساقی، ادبی دنیا، افکار، خاتون ِ پاکستان۔ شاید ہی کوئی رسالہ یا اخبار ایسا ہوجس میں پاک بھارت جنگ پر مضامین اور اداریے شائع نہ کیے ہوں اور ان سب نے یک آواز ہوکر قومی نقطۂ نظر سے پاک فوج کا ساتھ دیا اور شہدا کے لیے عقیدت ، محبت اور فخر کے جذبات کا اظہار کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ نے کئی ادبی، علمی اور فلسفیانہ سوال کھڑے کردیے اور دانش وروں اور اہلِ قلم میں اس موضوع پر مباحث چِھڑ گئے کہ کیا مصیبت کی گھڑی میں ادیب کو اصولی بنیادوں پر غیر جانب دار ہونا چاہیے اور کیا جنگ اور امن کے مسئلے پر جنگ کے خلاف لکھنا چاہیے یا اپنی ریاست (حکومت نہیں )کا ساتھ دینا چاہیے۔
اس نئی عصری حسیت کے بعد جنگ اور امن کے مسئلے پر اٹھائے گئے بعض سوالات کی زد میں قیام ِپاکستان، پاکستانی کلچر اور پاکستان کی جغرافیائی حدود بھی آگئیں۔ نظریۂ پاکستان اور پاکستانی قومیت پر بھی بحث و مباحثہ ہوتا رہا۔ اس کے بعد پاکستانی کلچر اور پاکستانی قومیت کے موضوع پر مقالات بلکہ کئی کتابیں بھی لکھی گئیں کہ پاکستانی کلچر سے کیا مراد ہے اور پاکستانی قومیت کیا ہے۔ احمد جاوید نے لکھا ہے کہ پینسٹھ کی جنگ نے پاکستانی قوم کے لیے کتھارسس یا تزکیۂ جذبات کا کام کیا۔
انیس سو پینسٹھ کی جنگ کے اردو ادب پر اثرات ایک ایسا موضوع ہے جس پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا جاسکتا ہے اور اس مختصر مضمون میں تمام پہلوئوں کو سمیٹنا ممکن نہیں ہے تاہم کچھ اشارے پیش کیے گئے ہیں جن پر مزید کام ہوسکتا ہے۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی