آج پاک بھارت جنگ 1965ء کو گزرے ستاون برس ہوچکے ہیں لیکن آج بھی ہمارے خطے میں ایسی عالمی قوتیں سرگرم ہیں جو علاقے میں غلبہ حاصل کرنا چاہتی ہیں، بین الاقوامی طاقتوں کے مابین نادیدہ چپقلش سے ہمارے پیارے وطن کو ملکی سالمیت اور علاقائی استحکام کے حوالے سے سنجیدہ خطرات لاحق ہیں،تاہم پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیربنانے کیلئے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی عسکری حکمت عملی ہر محاذ پر کامیاب ثابت ہوئی ہے، جس کی افادیت کا اعتراف عالمی سطح پر بھی کیا جارہا ہے۔ میں نے چار سال قبل 20ستمبر2018ء کو اپنے ہفتہ وار کالم بعنوان ’’پاکستان افغانستان، امن کا سفر‘‘ میں معروف برطانوی تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ کی باجوہ ڈاکٹرائن رپورٹ کا حوالہ دیا تھا کہ ماضی کی نسبت آج کا پاکستان عالمی دباؤ برداشت کرتے ہوئے اس قابل ہوگیا ہے کہ وہ اب دنیا سے ’’ڈومور‘‘کا مطالبہ کرے،میں نے اپنا موقف بیان کیا تھا کہ اندرونی امن اور علاقائی استحکام کا چولی دامن کا ساتھ ہے ،ہمیشہ وہی قومیں ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھتی ہیں جنہوں نے اپنے لوگوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کی اور ان کو اپنے وطن کو ترقی یافتہ اقوام کی فہرست میں شامل کر نے کیلئے سازگار ماحول فراہم کیا۔میں سمجھتا ہوں کہ گزشتہ برس اگست میں باجوہ ڈاکٹرائن سوفیصد درست ثابت ہوئی جب افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعدپاکستان نے امریکی افواج سمیت عالمی طاقتوں کو افغانستان سے انخلاء کیلئے تعاون فراہم کیا ۔ اندرونی امن واستحکام کو یقینی بنانے کیلئے دہشت گردی کامکمل صفایاضروری ہے اور دہشت گردوں کو ملک میں محفوظ پناہ گاہیں میسر نہیں ہونی چاہئے،پاکستان کے بارڈر پر مکمل امن کا حصول بہت ضروری ہے ، جنرل باجوہ چاہتے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین کسی صورت پاکستان دشمن عناصر کے ہاتھوں استعمال نہ ہو اور کسی نئی جنگ کے شعلے پاکستان کے پڑوس میں نہ بھڑکیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کو مقدم جانتے ہوئے سعودی عرب،قطر ، چین، برطانیہ اور امریکہ سمیت دیگر دوست ممالک کیساتھ قریبی دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے کیلئے بھرپور کوشش کی اور اس عظیم مقصد کے حصول میں حائل مختلف رکاوٹوں کوبھی دور کیا۔جنرل باجوہ نے کراچی کی ایک تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ معیشت کا تعلق تمام شعبہ ہائے زندگی سے ہے، مضبوط معیشتوں نے جارحیت کا بھی سامنا کیا ہے اور قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز کا بھی بخوبی مقابلہ کیا ہے، ہمیں روشن مستقبل کیلئے اپنی معاشی پالیسیوں میں تسلسل برقرار رکھنا ہوگا۔میری نظر میں باجوہ ڈاکٹرائن عالمی برادری کی نظر میں پاکستان کی پہچان ایک امن پسند اور مستحکم ملک کے طور پر بنانے کا دوسرا نام ہے، لیکن اگر کوئی دوسرا ملک پاکستان کی طرف میلی نگاہ سے دیکھنے کی جسارت کرتا ہے توافواجِ پاکستان ایسے اقدام کا منہ توڑجواب دینے کی اہمیت بھی سمجھتی ہیں، پاکستانی افواج نے پلوامہ حملے کے بعد نہ صرف ملکی دفاع مضبوط کیا بلکہ اپنی شاندار پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا عملی مظاہرہ پیش کرکے دنیا کو حیران کردیا،باجوہ ڈاکٹرائن کے تحت دونوں پڑوسی جوہری طاقتوں کو جنگ کی بجائے اپنے عوام کی بہتری پر فوکس کرنا چاہئے۔ جنرل باجوہ کو اس بات کا بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ ان کے دور میں محب وطن غیرمسلم شہریوں کو دفاع وطن کیلئے بہترین خدمات سرانجام دینے کے یکساں مواقع میسر آئے، پاکستان کی عسکری تاریخ میں2019ء میں پہلی مرتبہ ایک ہندو افسر کیلاش کو میجر کے عہدے پر ترقی دیکر غیرمسلم فوجیوں کیلئے ترقی کے دروازے کھول دئیے گئے، ایک اور تازہ مثال رواں برس دو ہندو فوجی افسران کی لیفٹنٹ جنرل کے اعلیٰ عہدے پر تعیناتی ہے۔میری نظر میں آج کا پاکستان اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ جنرل باجوہ کی زیرقیادت ہماری بہادر افواج نے اپنی جانوں کا نذرانہ دیکر پاکستان کی بیرونی اور نظریاتی سرحدوں کو محفوظ بنایاہے۔تاہم ففتھ جنریشن وار فیئر کے دور میں زہریلا پروپیگنڈہ پاکستانی قوم کا مورال ڈاؤن کرنے کیلئے بطور جنگی ہتھیار استعمال کیاجارہا ہے، تھوڑے عرصے بعدبے بنیاد رپورٹس عالمی میڈیا کی زینت بنتی ہیں، سوشل میڈیا پر نفرت آمیز ہیش ٹیگ چلائے جاتے ہیں، ہمارے کچھ ناسمجھ سیاستدان /تجزیہ نگارایسے غیرذمہ دارانہ بیانات دیتے ہیں جس سے عسکری اداروں کی ساکھ مجروح ہوتی ہے ، ملکی سالمیت پرسوال اٹھانے والے یہ امر فراموش کردیتے ہیں کہ آج پاکستان کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے، موجودہ آرمی چیف کی قیادت میں افواجِ پاکستان کی کامیابیوں کی ایک طویل داستان ہے،گزشتہ برسوں میں نہ صرف بیرونی قوتوں کے عزائم خاک میں ملائے گئے ہیں بلکہ اندرونی طور پر نقصان پہنچانے والے ملک دشمن عناصرکی سرکوبی کا عمل جاری ہے۔ بلاشبہ آج قومی جذبے سے سرشارہر محب وطن پاکستانی شہری مذہبی و سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر اپنی بہادر افواج پر فخر کرتا ہے اور اپنے مالک سے دعا کرتاہے کہ وہ باجوہ ڈاکٹرائن پر عمل پیرا پاک فوج کو ہر محاذ پر سرخرو رکھے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)