عین میم
آج کل غیرسر کاری اسکولوں کی ایک فصل سی اُگی ہوئی ہے۔ ہر سطح اور ہر معیار کے اسکول گلی گلی نظر آتے ہیں۔ کچھ امیروں کے بچّوں کے لئے، کچھ متوسط طبقے کے لئے اور چند کم آمدنی والے لوگوں کے بچّوں کے لئے ہیں۔ بے پناہ آسائشات والے، معقول سہولتوں والے اور بس گزارے والے اسکول ہیں۔
ہر روز کسی ایک ادارے کے سر براہ کا اس کے مقاصد ،معیار اور تعلیمی نظام کے حوالے سے بیانات سامنے آتے ہیں۔ اس میں ایک بات تکرار کے ساتھ سامنے آتی ہے کہ ادارے کا مقصد بچّے کی شخصیت کو ایک سانچے میں ڈھالنا ہے۔بہت سے اداروں میں یہ جاننے کی بہت کوشش کی کہ آخر وہ کون سا’’سانچہ ‘‘ ہے، جس میں یہ ادارے اپنے ہاں زیر تعلیم بچّوں کو ڈھالنے کے دعویدار ہیں۔
تعلیم کے اصل وظیفے اورہدف کے بارے میں بنیادی حیثیت رکھنے والی یہ ہے کہ بچّے کی جسمانی، عقلی، فکری اور جذباتی نشو و نما کے راستے میں اُبھرنے والی تمام رُکاوٹوں کو دُور کیا جائے۔ بیج کے پھوٹنے اور ایک نرم و نازک پودے کے زمین سے سر نکالنے کے مرحلے میں اگر اس کے اُوپر کوئی چٹان آ جائے یا کوئی بھاری چیز اسے دبا لے تو اس کی بڑھوتری تو جاری رہتی ہے لیکن اُٹھان میں ایسی ٹیڑھ واقع ہو جاتی ہے جو اس ننّھے سے پودے کے ایک درخت کی شکل اختیار کر لینے پر بھی قائم رہتی ہے۔
یہی معاملہ بچّے کا ہوتا ہے۔ اس کی نشو و نما کے ابتدائی مرحلے پر اگر ذہن، جذبات اور عقل و عقیدہ کے صحیح سمت میں راستہ پکڑنے اور فطری اندازی میں پروان چڑھنے میں ماحول کے اَثرات کے تحت کوئی رُکاوٹ پیدا ہو جائے تو شخصیت میں بہت زیادہ کجی آ جاتی ہے۔ تعلیم کا ایک مقصد ایسی رُکاوٹوں کو رفع کرنا اور پہلے سے پیدا ہو جانے والی رُکاوٹوں سے شخصیت میں آ جانے والے ٹیڑھے پن کو دُور کرنا اور اس کے راست اور دُرست سمت میں بڑھنے کے لئے سازگار فضا مہیا کرنا ہے۔
تعمیر شخصیت کے دو رُخ ہوتے ہیں۔ ایک طرف تو جڑیں گہری سے گہری اور دُور دُور تک پھیلتی ہیں۔ ایمان و عقیدہ کی زرخیز زمین ان کو مضبوطی کے ساتھ اپنے اندر پیوست رکھتی ہے۔ دُوسری طرف ان جڑوں سے بھرپور غذا پانے والے اعمال و اظہارات کی شاخیں بلند سے بلند ہوتی ہیں اور ان کا پھیلائو وسیع رقبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
معاشرے کی مخصوص قدریں بھی کوئی ایسی چیز نہیں کہ ان سے احتراز برت کر بچّے کی شخصیت کے بارے میں ہم سمجھیں کہ اس میں کوئی جُھول نہیں ہے۔ کسی بھی تربیتی نظام اور تشکیل، شخصیت کے سانچے میں ان کی گنجائش رکھے بغیر یہ سمجھ لینا کہ بچّے کی سیرت بن رہی اور شخصیت مکمل ہو رہی ہے ،ایک خام خیالی ہے۔
یہاں تک کہ ہمارے معروضات کا تعلق سا نچے سے ہوتا ہے ،جس میں بچّوں کی شخصیت کو ڈھالنے کا تعلیمی اداروں کے منتظمین اور ذمہ دار ان دعویٰ کرتے ہیں۔ غور و فکر کی بات یہ ہےکہ فی الوقت شخصیت کی تعمیر کے تقاضے کیا ہیں ؟ بات صرف مدرسوں تک محدود نہیں ہے۔ خاندان ہو، تعلیمی ادارہ ہو یا دیکھ بھال اور پرورش پر مامور کوئی فرد ہو، بچّے کو جو بھی ماحول ملے اس میں ضروری ہے کہ اس کی نشو و نما اس طرح ہو کہ وہ اپنی ذات سے آگاہ ہو جائے۔
خودشناسی یا ذات سے آگاہ ہونے کا احساس پیدا ہونے کے بعد ہی اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کے اندر کتنی طاقت و توانائی ہے؟ کسی صلاحیت وقابلیت کا مالک ہے۔ اس کی سوال پوچھنے کی حس کو مارا نہ جائے بلکہ مضبوط بنانے کی تدبیریں کی جائیں۔ اسے سوالوں کے مکمل اور دُرست جواب دیئے جائیں۔ اس کے سامنے کچھ سوال رکھے بھی جائیں اور ٹھیک جواب تک پہنچنے میں اس کی رہنمائی بھی کی جائے۔ مثلاً: زندگی کا اصل مقصد کیا ہے؟ کن چیزوں میں فائدہ ہے اور کون سی چیزیں نقصان کا سبب بنتی ہیں؟ یہ سارے سوالات اس کے سامنے صحیح جوابات کےساتھ آنے چاہئیں۔ وہ اپنے ماحول کےبارے میں جو کچھ جاننے کا متمنّی ہو، اسے اس کا موقع ملنا چاہئے۔
اسے یہ تاثر بھی ملنا چاہئے کہ اس کے ’’فیصلوں‘‘ کا احترام کیا جاتا ہے۔ اس کی رائے کو اہمیت دی جائے۔ محض چھوٹا ہونے کے باعث نہ تو اس کی رائے کو غلط سمجھا جائے اور نہ اسے کچھ کام کرنے سے روکا یا کچھ دُوسرے کام کرنے پر مجبور کیا جائے۔ اس کی رائے کے قابل عمل نہ ہونے اور اس کے اِرادوں اور فیصلوں کے مسترد کئے جانے کے بارے میں اس کو مطمئن کیا جانا چاہیے۔
اس سلسلے میں منفی نتائج اور نقصانات کا احساس دلانے کے لئے منطق و دلیل کا سہارا لینے کے بجائے فیصلوں ، اِرادوں اور ایسی ہی آراء کے نقصان دہ نتائج کی مثالیں دینا بچّے کی رہنمائی کے لئے صیح راستہ ہوتا ہے۔ البتہ بچّہ جب خود دلیل سے کام لے رہا ہو تو اس کی استدلالی صلاحیت کو روکنا نہیں چاہئے۔ اس معاملے میں پورا خیال رکھنا ہے کہ بچّے کے ذوقِ تجسّس اوراس کی خوداعتمادی پر غلط اثر نہ پڑے۔
شخصیت کی تعمیر و تکمیل میں یہ اَمر بہت ضروری ہے کہ بچّے کے اندر شکر گزاری، محبت، احترام، سچائی، نیکی، ہمدردی اورمحنت جیسے اخلاقی اوصاف پیدا اور پختہ کئے جائیں۔ اسے بتایا جائے کہ یہی اوصاف انسان کی عزت، کامیابی اورترقّی کا جائز اور صحیح ذریعہ ہیں۔ اس کو اس عمر میں یہ بات بھی ذہن نشین کرائی جائے کہ خودغرضی، نفس پرستی، نفرت اور اچھے کاموں میں دُوسروں سے عدم تعاون بری خصلتیں ہیں، جن سے آدمی کی اپنی عزت اور قدر ختم ہوتی ہے۔
یہ سب اجتماعی زندگی کا شعور پیدا کرنے کے معاونات ہیں، انہی سے بچّے میں گھر، خاندان، جماعت اور سارے اجتماعی ماحول سے وابستہ رہنے کی خواہش مستحکم ہوتی ہے۔ وہ اپنے ماحول میں مل جل کررہنے کی تربیت پاتا ہے۔ بہن بھائیوں، رشتہ داروں، ہم جماعتوں، ساتھیوں، والدین اور اساتذہ کے وجود کی ضرورت اور اہمیت سے بھی اسے آگاہی ہونی چاہئے۔ اسے بتانا چاہئے کہ ان قربتوں اور رشتوں سے اسے کیا ملا اور ان کو کیا کیا دینے کا وہ پابند ہے۔ گویا حقوق و فرائض کے بارے میں اس کی سُوجھ بوجھ کو پروان چڑھایا جائے۔
بچے کی شخصیت ایک اور اہم پہلو عمل کا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اسکول جانے کی عمر سے پہلے بچّے کی عملیت اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ اس کے اندر کچھ کرنے کے جذبوں کا ایک طوفان پوشیدہ ہوتا ہے۔ اظہار کا ایک سیلاب ہوتا ہے جو ناممکنات کی دیواریں توڑ توڑ کرا پنے لئے راستہ بناتا ہے۔ یہ اُٹھانا، وہ گرانا، یہ لانا وہ لے جانا، اسےتوڑنا اور جوڑنا، اس کے پیچھے بھاگنا اوراس کے آگے دوڑنا، اس کے اُوپر سوار ہونا اور اسے اپنے کندھوں پر لادے لادے پھرنا۔ وہ جب تک جاگ رہاہوتا ہے ،اپنے آپ کو کسی نہ کسی کام میں مصروف رکھتا ہے۔ حرکت و عمل اس کا شعار ہوتا ہے۔
بڑے تھکتے ہیں وہ نہیں تھکتا۔ بڑوں پر سُستی غالب آ جاتی ہے، وہ ہمہ وقت چوکس اور ہوشیار رہتا ہے۔ بڑے کام سے جان چھڑاتے ہیں اور یہ وہ کام بھی کرنے دوڑ پڑتا ہے جو نہ اس کے کرنے کے ہوتے ہیں اور نہ ان کا کرنا اس کے بس کی بات ہوتی ہے۔ کبھی انجینئر بن کر مٹی کی ’’عمارتیں‘‘ بنا رہا ہوتا ہے تو کبھی مکینک بن کر اپنے کھلونوں کے ’’پرزے‘‘ جوڑنے لگتا ہے۔ کبھی ’’ڈرائیور‘‘ بن کر گاڑی چلا رہا ہوتا ہے تو کبھی اسے پائلٹ کی صورت میں ’’ہوائی جہاز‘‘ اُڑاتا دیکھتے ہیں۔ کبھی یہ ’’کلاس رُوم‘‘ میں ’’اُستاد‘‘ کے فرائض انجام دیتا نظر آتا ہے۔
غرض بچّوں کی عملیت سکون پانے کے لئے درجنوں رُوپ دھارتی ہے لیکن ایک عام مشاہدہ یہ ہے کہ اسکول میں داخل ہوکر عموماً زیادہ تر بچّے جوش اور شوق کی رُوح کھو بیٹھتے ہیں۔ گھر کی فضائوں میں انتہائی متحرک و فعال بچّے اسکول میں بالکل بجھ کررہ جاتے ہیں، گو کہ تمام بچّے اس انجام سے دوچار نہیں ہوتے۔ سب پر افسردگی کے دورے نہیں پڑتے اور سارے نونہال جوہر عمل سے محروم نہیں ہو جاتے۔ اسکولوں کے اشتہار کی بنیاد وہی خوش قسمت بچّے ہوتے ہیں جن کی فعالیت و سرگرمی مٹنے سے محفوظ رہتی ہے۔
تعلیمی اداروں، اساتذہ اوروالدین کے کرنے کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ وہ ہر بچّے میں چُھپے ہوئے مخصوص جوہر کا کھوج لگائیں۔ اس کے رُجحانات و میلانات کا پتہ چلائیں۔ اس کے ذوق و شوق کی سمتوں کو تلاش کریں۔ اس کی جسمانی، عقلی اور فکری قوتوں کا ٹھیک اندازہ کریں۔ اس کے گھریلو ماحول کے بارے میں پوری معلومات حاصل کریں۔
اس پر اثرانداز ہونے والے عوامل سے آگاہ ہوں۔ اس پر ہونے والی نوازشوں کی بارش یا اس کی زندگی کی کھیتی کے بنجر و بے آب ہونے کی کیفیت سے وہ بے خبرنہ ہوں۔ اس کی راحتوں یا محرومیوں کی داستاں ان کے علم سے باہر نہ ہو۔ ان اَسباب کو بھی نظر میں رکھیں جنہوں نےبچّے کی دلچسپیوں کا دائرہ متعین کیا۔ بچّوں کی جسمانی اور عقلی قوت کی کمی کا مکمل چارٹ ان کے سامنے ہونا چاہیے۔