• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر یہ کہا جائے کہ پانی انسانی زندگی کا ایک اہم جُز ہے تو غلط نہیں ہوگا، کیوں کہ اس کی بدولت ہی انسانی زندگیاں بھر پور طریقے سے رواں دواں ہے۔اگر یہ نہ ہوتو جینامحال ہوجاتا ہے، یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم ایسے سیارے پر رہتے ہیں جہاں زندگی پوری آب وتاب سے گزر رہی ہے اور اس کی اہم وجہ یہاں پر پانی کا ہونا ہے۔ ہماری زمین کا 70 فی صد حصہ پانی اور 30 فی صد خشکی پر مشتمل ہے لیکن اس کے باوجود ہمیں ہر دوسرے دن پانی کے مسائل کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے۔ نہ پینے کے لیے صاف پانی میسر ہےنہ استعمال کے لیے۔

گزرتے وقت کے ساتھ یہ مسئلہ دن بہ دن سنگین صورت ِحال اختیار کرتا جارہا ہے ۔ پاکستان کونسل برائے تحقیقات آبی وسائل(پی سی آرڈبلیو آر ) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 80 فی صد آبادی آلودہ اور مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق ملک کے اضلاع سے جمع کیے جانے والی پانی کے نمونوں میں سے 69 سے 82 فی صد نمونے آلودہ اور مضر صحت پائے گئے ۔پانی کی آلودگی کی سب سے اہم وجہ فضلے میں پیدا ہونے والے جراثیم ،زہریلی دھاتیں ،گدلاپن ،پانی میں حل شدہ مضر صحت عناصر،نائٹریٹ اور فلورائیڈ ہے۔

بعض علاقوں سے حاصل کیے گئےنمونوں میں مضر صحت جر اثیموں کی تعداد 69 فی صد سے بھی زیادہ پائی گئی،جب کہ کچھ علاقوں سے نقصان دہ دھاتوں کی مقدار 24 فی صد اورگدلے پن کی شر ح 14 فی صد تھی۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں پینے کا پانی صرف 22 فی صدہی صاف ہے۔علاوہ ازیں 24 شہروں کا پانی 80 فی صد آلودہ ہے ،جس میں جر اثیم کا تناسب 69 فی صد ہے ،جب کہ جنوبی پنجاب اور سندھ کے پانی میں سنکھیا کی مقدار 15 فی صد زیرزمین پانی میں نائٹریٹ کی مقدار93 فی صد اور بلوچستان کے پانی میں فلورائیڈ کی مقدار 8 فی صد ہے۔

پاکستان کونسل برائے تحقیقات آبی وسائل (پی سی آر ڈبلیو )پانی کی مانیٹرنگ کا مجاز ادارہ ہے ،جو تمام واٹر سمپل اکھٹے کرکے پانی کے ٹیسٹ کرتا ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق منرل واٹر کے نام پر بوتلوں میں پیک پانی بھی پینے کے قابل نہیں ہوتا ،کیوں کہ یہ پانی گر ائونڈواٹر سے بھرا جاتا ہے، منرل واٹر اگر اپنی مقررہ مقدار سے کم یا زیادہ ہوجائے تو پانی مضر صحت بن جاتا ہے ۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق آلودہ پانی 80 فی صد بیماریوں کا باعث بنتا ہے ،جن میں ہیپاٹائٹس، آنتوں ،معدہ، جگر ،گردے کی بیماریاں ،کینسر اور دیگر جان لیوا بیماریاں شامل ہیں۔

پہلے پانی برف کی صورت میں پہاڑوں پر گرتا ہے، پھر ندی اور دریائوںکے ذریعے بہتا ہوا ہم تک پہنچتا ہے اس دوران اس میں معدنیات شامل ہوتی ہیںجن میں کیلشیم، میگنیشم، کلورائیڈ، فلورائیڈ،آرسینک ،نائیٹریٹ ،آئرن اورسلفیٹ شامل ہیں۔ ان قدرتی معدنیات کو منرلز کہا جاتا ہے ۔اگر یہ تمام معدنیات ایک خاص مقدار میںشامل ہوں تو یہ پانی پینے کے لیے مناسب ہوتا ہے اور اگر زیادہ ہوں تو صحت کے لیے مضر ہوگا ،اس حد تک کہ موت کا باعث بھی بن سکتا ہے ۔اس کے علاوہ پہاڑوں، دریائوں، جھیلوں اور ڈیموں سےگزرتے ہوئے گھروں تک پہنچنے کے دوران اس میں بہت سے پارٹیکلز شامل ہوجاتے ہیں جوانسانی زندگی کے لیے انتہائی مہلک ہوتے ہیں ۔ پانی میں دو طرح کے پارٹیکلز شامل ہوتے ہیں ،ایک وہ جو پانی میں حل ہوچکے ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر بیکیٹریا ،وائرس،کلورین ،نائٹریٹ اور کوپر سمیت سیکڑوں اقسام کے پارٹیکلز ،جنہیں صرف ریورس اوسموس ( reverse osmosis) پلانٹ کے ذریعے ہی نکالا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں ان پارٹیکلز کو بھی نکالا جاسکتاہے جو پانی میں حل نہیں ہو تے۔ دوسرے پارٹیکلز وہ ہوتے ہیں جو پانی میں شامل تو ہوجاتے ہیں لیکن حل نہیں ہو پاتے، انہیں صرف ایک اچھے فلٹریشن پلانٹ کے ذریعے ہی نکالاجاسکتاہے۔ ان میں مٹی ،ریت ،فضلہ ،آئرن ،زنگ سمیت بہت سے پارٹیکلز شامل ہیں ،مگر تمام طریقے معلوم ہونے کے باوجود ان پر عمل نہیں کیا جاتا۔

اگر ہم اپنے اردگرد نگاہ ڈالیں تو ہر گھر میں ایک نہ ایک فرد لازمی بیمارنظر آئے گا ، اور آج کل تو ویسے متعدد بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہمارے معاشرے میں ایک چیز بہت عام ہے کہ لوگ پینے کےقابل استعمال پانی کا فیصلہ اس کے میٹھے یا کھارے ہونے کی بنیاد پر کرتے ہیں۔پانی پینے کے قابل ہے یا نہیں اس کا فیصلہ موجود پارٹیکلز کی نمکیات یا(Total dissolved solids) TDS کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

مارکیٹ میں دستیاب منرل واٹر کاTDS 300 سےکم ہوتا ہے، اس کی یہ مقدار عالمی ادارہ صحت کی طرف سے مقرر کردہ ہے ،جس پانی کی TDS کی مقدار 300 ہوگی، اس میں کیلشیم ،میگنیشم ،کلورائیڈ ،فلورائیڈ ،آرسینک، نائیٹریٹ، آئرن اور سلفیٹ لازمی شامل ہوں گے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق یہ پانی انسانی صحت کے لیے انتہائی مفید ہوتا ہے۔ اگر اس کا لیول 300 سے بہت زیادہ بڑھ جائے یا کم ہو جائے تودونوں صورتوں میں صحت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق اگر پانی میں آرسینک زیادہ ہو توسینے کا کینسر،جلد اور ہائی بلڈ پریشر جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ فلورائیڈ کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے دانتوں اور ہڈیوں کی بیماریاں ہوتی ہیں،علاوہ ازیںپانی میں موجود جر ثو موںسے ہیضہ، ڈائریا اور ٹائیفائیڈ جیسی بیماریاں بھی عام ہورہی ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق 40 فی صد اموات پیٹ کی بیماریوں کے باعث ہوتی ہے، جن کی بنیادی وجہ آلودہ پانی کا استعمال ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شہری علاقوں میں پینے کے پانی کی صورت حال دیہی علاقوں سے بھی ابتر ہے، کچھ عر صے قبل کیے گئے ایک سروے کے مطابق ملک کے 23 بڑےشہروں میں پینے کے پانی میں مضر صحت بیکٹیریا ،مٹی اور فضلے کی آمیزش کے علاوہ آرسینک کی کثیر مقدار پائی گئی۔ جب کہ شہری علاقوں میں صرف 15 فی صد آبادی کو پینے کے لیے صاف پانی میسر ہے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ سمندر کے کنارے آباد باسیوں کی بڑی تعداد بھی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے ۔سمندری پانی کو ڈی سیلینیشن اور ریورس اوسموس کے طریقوں سے میٹھا بنا کر کراچی کی کروڑںسے زائدآبادی کے لیے پینے کے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائی جاسکتی ہے لیکن ارباب اختیار ان طر یقوں پر غور کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔

پاکستان میں یہ مسئلہ دن بہ دن گھمبیر ہوتا جارہا ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ زیر زمین پانی کی سطح کا کم ہونا بھی ہے۔ دیہی علاقوں میں بڑی تعداد میں لگائے جانے والے زرعی ٹیوب ویل کی وجہ سے زیرزمین پانی کے ذخائر کم ہورہے ہیں۔ علاوہ ازیں عالمی درجۂ حرارت میں بتدریج اضافہ اور بارشوں میں کمی سے بھی زیر زمین پانی کی سطح کم ہو رہی ہے۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید