• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوات، سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی مدد سے غیر قانونی ہوٹلز تعمیر ہوئے

اسلام آباد (انصار عباسی) مختلف سیاسی جماعتوں اور بیوروکریسی کی ملی بھگت کے ساتھ سوات میں دریا کے کنارے اور دریا میں قائم کی جانے والی بیشتر عمارتیں بشمول بڑے کثیر المنزلہ ہوٹلز ریور پروٹیکشن ایکٹ 2014ء کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تعمیر کیے گئے ہیں۔

 سرکاری رپورٹ کے مطابق، زیادہ تر نئی تعمیرات، از سر نو تعمیرات اور نقصان کا شکار ایسی غیر قانونی عمارتیں جن کی تزئین و آرائش کی گئی ہے جن میں ہوٹلز بھی شامل ہیں اور یہ پی ٹی آئی کی حکومت میں دریا کے کنارے یا پھر دریا کے بیچ میں تعمیر کی گئی تھیں اور کچھ 2014ء سے 2019ء کے درمیان تعمیر کی گئی تھیں، یہ سب اُس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہوا ہے جو پی ٹی آئی کی حکومت نے خود منظور کرایا تھا۔

 تاہم، ان میں سے زیادہ تر انفرا اسٹرکچر یا تو سیاست دانوں کا ہے یا پھر ان کے قریبی رشتہ داروں یا دوستوں کا ہے۔ ان سیاست دانوں کا تعلق پی ٹی آئی، نون لیگ اور اے این پی سے ہے۔

قانون کہتا ہے کہ کوئی بھی شخص دریا کے دونوں کناروں اور اس سے نکلنے والی شاخوں سے 200؍ فٹ کے سلوپ تک (لے آف لینڈ) یا پھر دریا کے کنارے کی حدود میں آنے والی زمین پر کمرشل یا نان کمرشل عمارت تعمیر کر سکتا ہے اور نہ تعمیرات یا ترقیاتی کام سے وابستہ جڑا کوئی کام کر سکتا ہے۔ نہ صرف اس قانون کی سنگین خلاف ورزی کی گئی ہے اور بڑی عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں بلکہ اس خلاف ورزی اور جرائم کیخلاف مقدمات چلانے کیلئے ایکٹ کے تحت خصوصی عدالتوں کے قیام کی شق کو بھی نظرانداز کر دیا گیا ہے۔

 ایکٹ کے تحت یہ خصوصی عدالتیں قائم کی جانا ہیں لیکن آج تک یہ عدالتیں قائم نہیں کی گئیں۔ تعمیرات کیلئے ٹی ایم اے کی تمام تر شرائط، جن میں ماحولیاتی ایجنسی سے کلیئرنس، این ایچ اے اور پی کے ایچ اے کے ساتھ ایری گیشن ڈپارٹمنٹ سے این او سی کا حصول، سوائل ٹیسٹنگ رپورٹ اور اسٹرکچرل فٹنس سرٹیفکیٹ کا حصول شامل ہیں، کو نظر انداز کیا گیا اور ہوٹلز اور دیگر عمارتوں کی تعمیر کے معاملے میں ان میں کسی بھی معیار پر عمل نہیں کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ سب مقامی انتظامیہ کی غفلت اور سیاسی اثر رسوخ کی وجہ سے ہوا ہے۔

 رپورٹ کے مطابق، خیبر پختونخوا حکومت میں ایک اعلیٰ سیاسی شخصیت کے بھائی نے غیر قانونی تعمیرات کیلئے سرکاری محکموں پر دبائو ڈالا تھا۔ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ایک سابق وفاقی وزیر بھی غیر قانونی تعمیرات کے فروغ میں اپنا اثر رسوخ استعمال کر چکے ہیں۔

کے پی سے تعلق رکھنے والے نون لیگ کے ایک رہنما کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر تعمیر کیے گئے ایک ہوٹل کے مالک ہیں۔ جہاں تک بیوروکریسی کے کردار کی بات ہے، رپورٹ کہتی ہے کہ انتظامیہ سے جڑے تمام تر محکموں نے خود کو بچانے کیلئے دوسرے محکموں پر ملبہ ڈالتے ہوئے صرف نوٹسز جاری کیے۔

لکھا ہے کہ یہ چالیں عمارتوں کے مالکان کے ساتھ مل کر چلی گئیں۔ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر سخت اقدامات نہ کیے گئے تو یہ لوگ حالیہ سیلاب میں تباہ ہونے والے اپنے ہوٹلز دوبارہ تعمیر کر لیں گے اور متعلقہ حکام دریائے سوات کے کنارے یا شاخوں پر دوبارہ تعمیرات روکنے کے معاملے میں شاید کوئی مداخلت نہ کریں۔ لہٰذا، ضروری ہے کہ نہ صرف ذمہ داروں کا تعین کیا جائے بلکہ اس کے بعد ضروری قانونی کارروائی بھی کی جائے۔

 رپورٹ میں با اثر ہوٹل مالکان کے نام اور ان کے سیاسی تعلقات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں اہم سرکاری عہدیداروں کے نام بھی بتائے گئے ہیں جن کے دور میں یہ سب غیر قانونی تعمیرات کی گئی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ علاقے میں ہوٹلنگ اور ٹوئر ازم کی وجہ سے ایسا گروپ پیدا ہوا ہے جس کی سیاسی وابستگیاں ہیں اور اسی وجہ سے یہ لوگ سیاست دانوں اور بیوروکریسی کے ساتھ مل کر سسٹم میں ہیرا پھیری کرتے ہیں۔

 رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ ریور پروٹیکشن ایکٹ کے تحت متعلقہ ایری گیشن اور ریونیو ڈپارٹمنٹ کی مدد سے دریا کے کناروں کی واضح حد بندی کی جائے، صوبائی حکومت کی جانب سے ایکٹ کی شقوں کے تحت خصوصی عدالتوں کے قیام میں ناکامی کی وجہ سے غیر قانونی انکروچمنٹ میں تیزی آئی ہے۔

اہم خبریں سے مزید