افتخار احمد
آج دنیا میں وہی ممالک معاشی طور پر مضبوط ہیں جن کے پاس ذرائع پیدا وار تخلیقی صلاحتیں، جدید ایجادات، ، مواصلات اور قدرتی وسائل کے استعمال کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ان تمام وسائل کے حصول کےلئے سب سے پہلے ہنر مندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں لا تعداد پرائیویٹ سیکٹر میں یونیورسٹیاں کام کر رہی ہیں جہاں سے لاکھوں کی تعداد میں طالبعلم ڈگریاں حاصل کر رہے ہیں، جن کی گلوبل مارکیٹ میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے پاکستان سے اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں حاصل کرنے والے بیرون ممالک میں اپنے تعلیمی معیار کے مطابق ملازمتیں نہیں حاصل کر سکتے۔
عام طور پر ہوٹلوں و سٹوروں میں ملازمت کرتے یا ٹیکسی چلاتے ہیں۔ جس کی وجہ اُن کو پڑھایا جانے والا نصاب سائنس اور ٹیکنالوجی کے عالمی معیار سے مطابقت نہیں رکھتا۔ انسانی سرمائے کی تخلیق کا تعلق ایسے فن اور ہنر کا حصول ہے جو طالب علم کو عالمی منڈی میں جاب کے حصول میں معاونت کر سکے۔ ہم ویسے بھی کتاب دوست قوم نہیں ہیں۔ کتابوں کو رٹ کر محض ڈگری اعلیٰ نمبر اور ملازمت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کسی ریاست میں صنعتی ترقی کےلئے انسانی وسائل کے ہنر مندی کی ضرورت ہوتی ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد پیدا ہونے والی نسل کے تعلیمی معیارات کچھ اور تھے، جن میں لسانی علوم، سیاست اور معاشیات کو اہمیت حاصل تھی کیونکہ اس وقت ملازمتیں کلریکل یا انتظامی شعبہ تک محدود تھی۔1990کے بعد تیز رفتار تبدیلیوں کا دور شروع ہوا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کو اہمیت حاصل ہوئی۔
آج کی نوجوان نسل خود کو سیاسی و سماجی ثقافت کے ساتھ انٹر نیٹ، ای میل ، گوگل سیل فون اور یاہو وغیرہ سے تعلق رکھنا ضروری سمجھتی ہے۔ ترقی یافتہ ا سکولوں کے چھوٹے بچے کمپیوٹر اور گوگل کے ذریعے اپنی اسائنمنٹ مکمل کرتے ہیں۔ چھوٹے بچے بھی اپنے والدین کے موبائل فون میں کارٹون دیکھنے میں یا گیم کھیلنے میں مصروف نظر آتے ہیں، مگر دوسری طرف نصاب کو عالمی مارکیٹ کی ضروریات اور ملازمتوں کےلئے بہتر بنانے کی کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔
پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی درآمدات زیر استعمال ہیں، مگر ہماری انڈسٹری اور زراعت پیچھے رہ گئی ہے۔ پاکستان ٹیکنالوجی کے اعتبار سے پسماندہ ہے۔ ہمارے ہاں امیر اور غریب طبقات کے درمیان وسیع خلیج ہے، ہمارا مالیاتی اور انتظامی ڈھانچہ ناقص ہے،تعلیم پر نجی شعبہ غالب آ چکا ہے۔ اس کی اجارہ داری میں تعلیم مہنگی ہے جس کو غریب حاصل نہیں کر سکتا ہے۔ ہمارا ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے، مگر ہم ان وسائل کو بروئے کار نہیں لاسکتے۔ ہم لاکھوں کی تعداد میں ہر سال ڈگری یافتہ فوج تو تیار کررہے ہیں لیکن نہ ہم ایجادات کی دنیا میں کوئی نمایاں کامیابی حاصل کرسکے ہیں اور نہ ہی روز بروز بڑھتی بے روزگاری کی شرح پر قابو۔
نوجوانوں کی توانائیاں ، غربت ، جہالت اور بے روز گاری کی وجہ سے ضائع ہو رہی ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے قومی سطح پر سنجیدہ کوششیں بھی نہیں کی گئیں۔ ایک نوجوان جب ڈگری حاصل کرکے عملی میدان میں قدم رکھتاہے تواس کو وہاں کے حالات بدلے ہوئے ملتے ہیں۔کیوں کہ اس کوجو پڑھایا گیا ہوتا ہے وہ وہاں ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے وہ اس کو پڑھایا نہیں گیا ہوتا، نتیجتاً وہ مایوسی کا شکار ہوجاتاہے اور اس کی نظر میں اپنی ڈگری کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس نے یونیورسٹی میں پڑھ کر اپنا وقت ہی ضائع کیا۔ انڈسٹری اور اکیڈمی کے درمیان فاصلہ اس وقت ہمارا ایک قومی ایشو بن چکا ہے۔ تعلیمی ادارے اپنے نصاب اور اپنے اساتذہ کو اپ گریڈ نہیں کرتے۔
سرکاری سطح پر نئی نسل کے لیے ایسے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جن کی بدولت ان کی قابلیتوں کو نکھاراجاسکے۔ تعلیمی نصاب کو عالمی گلوبل مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق بنانا ہوگا۔ نصاب کی عملیت کے پہلو کو مد نظر رکھنا ہوگا کیونکہ محض لا تعداد غیر معیاری اور نا قابل عمل ڈگریوں کے اجراء سے انسانی سرمائے کی تشکیل کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا ہے۔