• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نصرت شمسی

آج سب بچے پروگرام بنائے بیٹھے تھے کہ رات کو نانی اماں سے کہانی سننا ہے، اس لئے سب کھانا کھاتے ہی نانی اماں کے کمرے میں چلے گئے۔ شعیب چونکہ سب سے بڑا اور نانی کا لاڈلا بھی، اس لیے اس نے نانی اماں کے پاس جاتے ہی اعلان کردیا ”نانی اماں آج ہم سب کو آپ سے کہانی سننا ہے بتایئے کون سی سنائیں گی؟“

نانی اماں نے ٹالنا چاہا کہا،”تم سب ایسا کرو کہ یہاں مل کر بیٹھو اور لوڈو کھیلو۔“

”ہمیں تو کہانی سننا ہے تو سننا ہے۔“ شعیب نے ضد کرتے ہوئے کہا ۔

’’نانی اماں سنائیے نا پلیز۔ سب بچوں نے ایک زبان ہوکر کہا۔

”اچھا چھا۔ چلو سب بیٹھو، سناتی ہوں۔“

”ہاں تو بچو! جو کہانی میں سنانے والی ہوں وہ فارسی کی ہے اور پتہ ہے یہ کہانی میں نے اُس وقت پڑھی تھی جب میں اسکول جایا کرتی تھی۔“

”اچھا نانی! آپ کو ابھی تک یاد ہے؟“ بچوں نے حیرت سے پوچھا۔

”ہاں بیٹا! اور یہ کہانی مجھے بہت پسند ہے۔ جس کو میں اردو میں سناتی ہوں۔کہانی کا نا م ہے ’ ’درخت کی گواہی‘ ‘۔

ایک نیک آدمی تھا۔ ایک دن اس کا ایک ملنے والا اس کے پاس آیا اور اپنی کچھ پریشانی بتاکر کچھ قرض مانگا۔ اس نیک انسان نے اس کی پریشانی سن کر اسے سو اشرفیاں دے دیں۔ قرض لینے والا اسے چار ماہ بعد لوٹانے کا کہہ کر چلا گیا۔ وقت گزر تا گیا لیکن وہ قرض لوٹانے نہیں آیا اور نہ ہی اس نے کچھ مہلت مانگی،اس طرح چھہ ماہ گزر گئے۔

ایک دن وہ نیک آدمی اس کے گھر گیا اور اس سے اپنا قرض واپس مانگا ، قرض لینے والے نے کہا کہ،’’ کون سا قرض؟ میں نے تو کوئی قرض لیا ہی نہیں ہے‘‘۔دونوں میں کافی بحث ہوئی لیکن وہ انکار کرتا رہا۔ آخر کار اس نیک آدمی نے کہا کہ اچھا چلو ہم قاضی کے پاس چلتے ہیں، وہ جو فیصلہ کریں گے وہ ہم دونوں قبول کر لیں گے۔“

بے ایمان شخص اگلے دن چلنے پر راضی ہو گیا۔ اگلے دن دونوں قاضی صاحب کی عدالت میں پیش ہوئے ، نیک شخص نے پورا واقعہ قاضی کو سنایا۔قاضی نے کہا کہ،’’ ٹھیک ہے ابھی فیصلہ ہو جائے گا اس نے نیک شخص سے پوچھا کہ ”تمہارے پاس کوئی گواہ ہے؟“

’’نہیں حضور! کوئی نہیں‘‘۔ اس وقت میں اپنے کھیتوں میں تھا، میرے آس پاس کوئی نہیں تھا۔“

قاضی نے پوچھا کہ،’’ تم نے اشرفیاں کس وقت دیں تھیں اور تم اس وقت کیا کررہے تھے؟“

”حضور میں کھانا کھانے کے لیے درخت کے نیچے بیٹھا تھا۔“

”اچھا تو جاؤ اس درخت کو یہاں لے کر آؤ،وہی گواہی دے گا۔“

قاضی کی بات سن کر سب حیران رہ گئے کہ درخت کیسے گواہی دے گا؟

”حضور! درخت کیسے آ سکتا ہے؟‘‘اس نیک انسان نے حیران ہو کر پوچھا۔

”آئے گا۔تم جاؤ اور اس سے کہو کہ قاضی صاحب نے بلایا ہے۔“

وہ حیران تھا لیکن قاضی جی کا کہنا بھی ماننا تھا، اس لیے چل پڑا۔ قاضی جی نے اس بے ایمان شخص سے کہا کہ تم یہیں میرے ساتھ درخت کے آنے کا انتطار کرو۔

بے ایمان شخص قاضی کی بے وقوفی پر بہت خوش ہوا ،اُس نے سوچا کہ درخت تو آہی نہیں سکتا، گواہی کیا دے گا۔“

کئی گھنٹے گزر گئے لیکن گواہی دینے کوئی نہیں آیا نہ ہی وہ نیک آدمی واپس آیا۔

تین گھنٹے گزرنے کے بعد اچانک قاضی نے اس بے ایمان شخص سے پوچھا کہ،”وہ آدمی درخت تک پہنچ گیا ہوگا؟“

تب اس نے بے ساختہ کہا،”ابھی نہیں۔“

تین گھنٹے اور گزر گئے۔ شام ہونے کو تھی کہ وہ نیک آدمی پسینہ میں شرابور تھکا ماندہ قاضی کی عدالت میں واپس آ یا اور رورو کہ کہنے لگا،”حضور میں نے اس درخت سے بہت کہا کہ میرے ساتھ چل تجھے قاضی نے گواہی دینے کے لیے بلایا ہے لیکن وہ نہیں آیا۔“

قاضی صاحب مسکرائے اور بولے،”لیکن درخت توآکر گواہی دے بھی گیا۔“

اتنا سننا تھا کہ سب نے حیران ہوکر ایک دوسرے کو دیکھا کہ کب آیا درخت؟وہ بے ایمان شخص بھی چونک اٹھا۔

تب قاضی صاحب نے اپنا فیصلہ سنایا کہ،”یہ آدمی سچا ہے اور تم اس کی سو اشرفیاں واپس کرو۔“

’’لیکن قاضی صاحب درخت کب آیا؟ کسی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی تھی،تب قاضی صاحب نے اس بے ایمان شخص سے کہا کہ جب میں نے تم سے پوچھا کہ کیا گواہی کے لیے گیا شخص درخت تک پہنچ گیا ہوگا؟ تب تم نے کہا کہ ابھی نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم اس درخت کو جانتے ہو جہاں یہ گیا تھا، بس یہی درخت کی گواہی تھی۔

دربار کے سب لوگ قاضی کی اس سمجھداری کے فیصلے پر بہت خوش ہوئے اور اس طرح نیک انسان کو اس کی اشرفیاں بھی واپس مل گئیں۔

سب بچے بہت غور سے کہانی سن رہے تھے۔”تو بچو! کیسی لگی کہانی؟ اور کیا سیکھا؟“ نانی نے مسکرا کر سب سے پوچھا۔

”واہ نانی مزہ!آگیا۔“شعیب نے خوش ہو کر سب کو دیکھا”اور کہا، نانی یہ سیکھا کہ کبھی بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔ یہ ہمیشہ ہمیں شرمندہ کراتا ہے۔“

شاباش میرے بچو! چلو اب بھاگو۔ مجھے ابھی نماز بھی پڑھنا ہے۔

”ہپ ہپ ہرے چلو بچوں۔“ شعیب شور مچاتا ہوا سب کو لے کر کمرے سے نکل گیا۔