• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد

حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ ۹۷۱ھ/۱۵۶۳ء میں سرہند (مشرقی پنجاب، بھارت) میں پیدا ہوئے۔ سلسلۂ نسب ۲۹ واسطوں سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ‘ سے ملتا ہے۔ علوم معقولہ و منقولہ اپنے والد ماجد شیخ عبدالاحد کے علاوہ مولانا کمال الدین کشمیری، مولانا محمد یعقوب کشمیری، قاضی بہلول بدخشی وغیرہ علمائے عصر سے حاصل کیے اور سترہ برس کی عمر میں فارغ ہوگئے۔ تقریباً ۹۹۸ھ/۱۵۸۹ء میں دارالسلطنت اکبرآباد (آگرہ) تشریف لائے، یہاں دربار اکبری کی دو مشہور شخصیتوں شیخ ابوالفضل اور ان کے بھائی شیخ ابوالفیض فیضی سے ملاقاتیں رہیں۔ 

فیضی کی تفسیر سواطع الالہام (۱۰۰۲ھ/۱۵۹۳ء) میں ایک جگہ آپ نے اس کی مدد بھی کی۔ جب ان دونوں بھائیوں نے بے راہ روی اختیار کی تو حضرت مجدد ؒ کنارہ کش ہوگئے۔ حضرت مجدد ؒ کو مختلف سلاسل میں اجازت و خلافت حاصل تھی، سلسلہ چشتیہ میں اپنے والد سے، سلسلہ نقشبندیہ میں خواجہ محمد باقی باللہؒ سے، اور سلسلہ قادریہ میں شاہ کمال کیتھلی ؒسے۔حضرت خواجہ باقی باللہ آپ کے روحانی کمالات کے معترف تھے اور اس طرح توقیر و تعظیم کرتے تھے جیسے کوئی اپنے شیخ کی تعظیم و تکریم کرتا ہے۔

حضرت مجدد ؒنے اپنی اصلاحی کوششوں کا آغاز اکبر بادشاہ کے عہد سے کیا۔جہانگیر کے عہدِ حکومت میں یہ کوششیں بارآور ہوئیں۔ آپ نے دربارِ اکبری اور دربارِ جہانگیری کے وُزراء و اُمراء سے قریبی روابط قائم کیے۔ بے شک آپ مجدد برحق تھے۔ آپ نے اسلامی حکومت کے قیام، سیاسیات میں غیر مسلموں سے عدم تعاون اور اسلامی ہند کی تعمیر کےلیے انتھک کوشش کی اور شریعت، طریقت، سیاست، حکومت اور معاشرت و معیشت کے شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیئے۔

عوام و خواص شریعت سے بیگانہ ہوتے جارہے تھے۔ آپ نے اپنے علمی مقالات، مکالمات اور مکتوبات کے ذریعے آشنائے شریعت کیا… صوفیائے خام، طریقت کے حقیقی معنی سے ناواقفیت کی وجہ سے گمراہ ہورہے تھے۔ آپ نے ان کو طریقت کا واقف کار و اداشناس بنایا… تصورِ وحدۃ الوجود کی غلط تعبیرات و تشریحات نے ایک عالم کو بے راہ کردیا تھا، آپ نے اس نظریے کی معقول توجیہ و تشریح فرمائی۔ صوفیائے سلف کا مؤثر دفاع کیا اور تصور وحدۃ الشہود پیش کرکے اہل طریقت کی صحیح سمت پر رہنمائی فرمائی۔ یہی نظریہ تھا جس نے اقبال کو اپنی طرف کھینچا،اسی نظریے کو اقبال نے اپنا مسلکِ فکر و سخن بنایا۔ اگر مجدد نہ ہوتے تو اقبال، اقبال نہ ہوتے، حضرت مجدد اقبال کی آرزُو تھے، حضرت مجدد اقبال کی تمنا تھے ؎

تو مِری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ

تیرے پیمانے میں ہے ماہِ تمام اے ساقی

سیاست و حکومت میں حضرت مجدد ؒنے جو کارنامہ انجام دیا، وہ اکبر کے ایک قومی نظریے کے خلاف دو قومی نظریے کا اعلان تھا۔ حضرت مجددؒ نے اسلام کے اس ازلی نظریے کو حیاتِ نو بخشی اور یہ واضح کردیا کہ کفر و اسلام دو متضاد حقیقتیں ہیں۔ دونوں کامزاج الگ الگ ہے، اس لیے یہ دونوں سیاست و حکومت میں ایک دوسرے کے شریکِ کار نہیں ہوسکتے۔ متاخرین میں احمد رضا خاں بریلویؒ اور اشرف علی تھانوی ؒاسی نظریےکے داعی تھے۔ اوّل الذکر نے جس شدومد کے ساتھ پاک و ہند میں اس نظریے کا احیاء کیا۔ حضرت مجددؒ کے بعد اسکی نظیر نہیں ملتی۔ 

اقبال نے بھی اس نظریہ کا پرچار کیا اور قائداعظم محمد علی جناح بھی آخرکار اس نظریے کی طرف آئے اور ایک تاریخ ساز جدوجہد کے بعد پاکستان معرض وجود میں آیا۔حضرت مجددؒ کی کوششیں عہد جہانگیری میں بارآور ہوئیں، جبکہ جہانگیر نے اُمورِ مذہبیہ و حکومت میں مشورے کے لیے علماء کا ایک کمیشن مقرر کیا۔ اس طرح حکومت میں غیر مسلموں کا اثر و رسُوخ کم ہوا، چنانچہ اس کے بعد اسلام کو مسلسل فروغ ہوتا رہا ،حتیٰ کہ دورِ عالمگیری میں حضرت مجددؒ اور ان کے صاحبزادگان کی مساعی نقطۂ عروج پر پہنچ گئیں۔ اورنگ زیب عالمگیر حضرت مجدد ؒکے صاحبزادے خواجہ محمد معصوم کے مرید اور ان کے صاحبزادے خواجہ سیف الدین کے فیض یافتہ تھے۔ بلاشبہ خاندان مجددیہ نے سلطنت مغلیہ اور فکرِ مسلم پر گہرے اثرات چھوڑے اور ایک عظیم انقلاب برپا کیا۔ اقبال نے سچ کہا ہے ؎

وہ ہند میں سرمایۂ ملّت کا نگہبان

اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار