عدنان رسول
پاکستان کو درپیش چیلنجز کو آپ کیسے بھی دیکھیں، لگتا یہی ہے کہ روزگار کا فقدان ہی سب مسائل کی جڑ ہے۔ چاہے وہ دہشت گردی ہو، صحت کے مسائل ہوں یا سیاسی اتھل پتھل، ہر بحران کے پیچھے اصل مسئلہ روزگار کا بحران ہے۔ بےوزگاری کے حوالے سے غیر پیداواری سمجھ بھی اس کے وجود کی ایک وجہ ہے حالانکہ اس مسئلے پر مسلسل بڑی بڑی رقمیں لگائی جا رہی ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ نوکریاں پیدا کرنے اور معاشی بہتری کے لئے ہم اپنی اپروچ ٹھیک کریں۔ سب سے پہلے تو یہ خیال ہی غلط ہے کہ حکومت کو روزگار کے مواقع پیدا کرنے چاہئیے۔ حکومت کا کام تو یہ ہے کہ وہ ایک ایسا ماحول پیدا کرے کہ جس میں نجی ادارے اور کاروبار، پھل پھول سکیں اور اس کے نتیجے میں روزگار کے موقعے پیدا ہوں۔
اس بات کا احساس کئے بغیر کہ پیسہ پھینکنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہونے والا بلکہ ایسا کرنے سے صرف یہ غلط تاثر ہی ملتا ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ سالوں کے دوران مختلف قرضہ اسکیموں کے نام پر خرچ کئے جانے والے فنڈز کی مثال لے لیں۔ ہر کیس میں حکومت روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے اور آخر میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک بہت بڑی نوکر شاہی کی فوج پیدا ہو جاتی ہے جو کہ حکومت کے سیاسی مفادات کے نام پر پیسہ خرچ کر رہی ہوتی ہے، جبکہ اصل میں ہو یہ رہا ہے کہ روزگار کے مناسب مواقع تو پیدا ہو نہیں رہے لیکن سیاستدان اپنے اپنے حلقوں میں اپنا اثر و رسوخ مضبوط کرنے کے لئے اسے استعمال کر رہے ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ زیادہ تر دیگر اسکیموں کا بھی ہے، جن کا بنیادی مقصد روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔ اصل گڑبڑ یہ ہے کہ پیسہ صرف لٹایا جا رہا ہے بجائے اس کے کہ اس پیسے کو موجودہ اور نئے کاروبارکے فروغ اور استحکام کے لئے استعمال کیا جائے۔
یہ بھی درحقیت ایک فرسودہ خیال ہے کہ روایتی تعلیم سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار حاصل ہو گا ، جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم، بہترین نوکریاں حاصل کرنے کے لئے لازمی ہے۔ اس غلط سوچ کی وجہ سے ڈگری فراہم کرنے والی ایسی فیکٹریاں قائم ہو گئی ہیں، جہاں طالب علم، 'ایم سی کیوزکے ذریعے جاب مارکیٹ میں داخل ہونے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں ، اس رجحان نے ڈگری یافتہ نوجوانوں کی ایک فوج ظفر موج پیدا کر دی ہے جنہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ انہیں کیا چاہئے۔
ایسی صورتحال میں خاص طور پر جب نئے مواقع بھی پیدا نہ ہو رہے ہوں، آجر چاہتے ہیں کہ انہیں سب سے سستا امیدوار مل جائے ۔ صرف زیادہ یونیورسٹیاں اور کالج قائم کرنے سے زیادہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی ضمانت نہیں ملتی اور آخر میں نیا کاروبار شروع کرنے کا جنون بھی غلط ہے۔یہ تاثر کہ معیشت ایک دم صحیح ہو جائے گی اگر ریاست سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں نئے کاروبار شروع کروانے کے لئے پیسے لگائے گی، ذرا سوچیں تو یہاں بنیادی منطق یہ ہے کہ اگر آپ کو نوکری نہیں مل رہی تو آپ کو اپنا کاروبار شروع کر دینا چاہئے اور اگر آپ یہ راستہ اختیار کرتے ہیں تو حکومت اس کے لئے خرچہ اٹھانے کو تیار ہے۔ علمائے معاشیات اور خاص تو پر ایک فوربس رپورٹ کے مطابق دس میں سے آٹھ شروع کئے جانے نئے کاروبار اپنی ابتدا کے اٹھارہ ماہ کے دوران ہی ناکام ہو جاتے ہیں۔
اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے ہمیں اپنی سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت سے نوجوان ایسے ہوتے ہیں جن کے لئے ٹیکنیکل تعلیم زیادہ بہتر ہوتی ہے، جس سے انہیں روزگار حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ جرمنی، فرانس، کینیڈا اور دیگر ترقی یافتہ اقوام تکنیکی تعلیم کو نہ صرف خصوصی توجہ دیتی ہیں اور اس میں سرمایہ کاری کرتی ہیں ،جس سے نہ صرف مستقل روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں بلکہ ان تکنیکی اداروں کے طالب علموں کے لئے نئے کاروبار شروع کرنے کے بھی مواقع پیدا ہوتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ، اپرنٹس شپ پروگرامز اور ٹیکس کریڈٹ پروگرامز بھی یورپ اور امریکہ میں کارآمد ہیں۔ ان پروگرامز کا اصل آئیڈیا یہ ہے کہ جب بھی پرائیویٹ سیکٹر کسی گریجویٹ کو نوکری دیتا ہے یا کسی کو اپرنٹس شپ پر رکھتا ہے تو اسے ٹیکس کی مد میں خصوصی چھوٹ دی جاتی ہے۔ ایسے کسی بھی کیس میں روزگار کے موقع پیدا کرنے کے لئے نجی سیکٹر میں اس کی لاگت کہیں کم ہوتی ہے۔
اگر ہم اس مسئلے کے حل کے لئے واقعی سنجیدہ ہیں تو ہمیں اپنے حساب کتاب میں سب سے پہلے 'انڈر ایمپلائمنٹ کے اصل اعدادوشمار کا حساب کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ یا تو ہم ایک اندھے کنویں میں پیسے ڈالنے کی طرح رٹو طوطے گریجویٹس پیدا کرنا جاری رکھیں یا پھر اپنی سوچ درست کر کے ٹیکنیکل تعلیم پر توجہ دیں اور اگر یہ نہیں تو پھر ہم ایک دوسرے پر الزام دھرنے کا کھیل جاری رکھ سکتے ہیں۔ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کئی قسم کے مسائل کو جنم دے رہی ہے۔ تعلیم اور روز گار کے حصول کے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ مسئلہ اس قدر گھمبیر ہو چکا ہے کہ اسے گلوبل کرائسز میں شمار کیا جانے لگا ہے۔
تعلیم اور روزگار کا یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومتی سطح پر ہر شعبہ ہائے زندگی میں روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں۔ اس کے بعد باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہر شعبے کے ماہرین تیار کیے جائیں، تاکہ پہلے سے جمع کردہ اعداد وشمار کی روشنی میں ہمیں ڈاکٹر، انجینئر، صحافی، استاد اور دیگر سماجی وسائنسی علوم کے ماہرین مل سکیں تاکہ ایک طرف ہم تعلیم یافتہ نوجوانوں کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کر سکیں تو دوسری طرف ’’تعلیم یافتہ بے روزگاری‘‘ جیسے مسئلے سے بھی گلوخلاصی ہو۔
جس کے بعد بتدریج شرح خواندگی اور تعلیمی میدان میں ترقی کی راہیں کھُلتی چلی جائیں اور ’’تعلیم برائے ملازمت‘‘ کے نظریے کو بدلنے میں بھی مدد ملے، ورنہ اس وقت سرکاری سطح پر پی ایچ ڈی کرنے والے طالب علم کے لیے بھی من پسند پیشہ یا روزگار اختیار کرنے کی ضمانت موجود نہیں ہے جو ملک سے جہالت کے اندھیرے دور کرنے والے دانشوروں سمیت، حکومت کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔