شہر کے صدر بازار میں برتنوں کی دکان پر ایک نوجوان مارے حیرت کے برتنوں کو دیکھ رہا تھا۔ بوڑھا دکاندار لڑکے کی اس حیرت کو بھانپ گیا اور پوچھا بیٹا تم ان برتنوں کو دیکھ کر حیران کیوں ہو رہے ہو۔ نوجوان نے کہا بابا جی آپ کی دکان میں ہر طرح کا برتن ہیں ایک سے بڑھ کر ایک قیمتی ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں یہاں کانچ کے رنگ برنگے برتنوں کے ساتھ ساتھ چینی کے بھی برتن ہیں، مگر مجھے ان ہی کے درمیان پڑے مٹی کے برتنوں پر حیرانی ہورہی ہے کہ ان کے درمیان ان کی کیا حیثیت۔ انہیں کون استعمال کرنا چاہے گا۔ ان کی تو اب اتنی اہمیت نہیں۔
بوڑھے نے مسکراتے ہوئے نوجوان کو کہا،’’ ادھر آؤ،یہ دیکھو یہ تین گلاس ہیں۔ تینوں ایک ساتھ رکھے ہیں۔ پہلا گلاس سادہ کانچ کا ،دوسرا رنگدار کانچ کا اورتیسراگلاس مٹی کا ہے۔
بظاہر دیکھنے میں سب سے زیادہ کشش اس رنگدار کانچ کے گلاس کی اور اس کے بعد سادہ شیشے کے گلاس کی اور پھر مٹی کے گلاس کی ہے ۔کیا تم میری اس بات سے اتفاق کرتے ہو ‘‘۔’’نوجوان نے کہا جی جی ایسا ہی ہے اور میرے دل میں بھی یہی تھا ۔‘‘
بوڑھے نے تینوں گلاسوں میں الگ الگ کچھ ڈالا اور کہا،’’ اب اگر میں کہوں کہ تم کسی ایک گلاس کا انتخاب کرو تو کس کا انتخاب کرو گےیعنی کس گلاس کا مشروب پینا چاہو گے نوجوان نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے اپنی سوچ فکر گمان خیال وہم کے عین مطابق رنگدار کانچ کا گلاس اٹھا لیا۔
بوڑھے نے چلو اب میں تمھیں یہ بتاتا ہوں جو چیز تم پینے جا رہے ہو وہ تیز زہر ہے اور جس گلاس کو تم نے مٹی کا سمجھ کر چھوڑا ہے اس میں شہد ہے۔‘‘
نوجوان سن کر ایک دم پسینے سے شرابور ہو گیا۔ بوڑھا مسکرایا اور کہا، اب بتاؤ ان تینوں گلاسوں میں سے سب سے برا گلاس یا قابل نفرت یا دور رہا جانے کے قابل کون سا گلاس ہے۔‘‘ نوجوان نے کہا، یقینا ِ’’یہی گلاس جسے میں نے سب سے زیادہ قیمتی سمجھا۔‘‘ بوڑھے نے کہا،’’ لو ہمارا مسئلہ حل ہو گیا یاد رکھنابرتن کے ظاہر سے زیادہ اسے قیمتی وہ چیز بناتی ہے جو اس کے اندر ہو۔
ہماری زندگی کے یہی مسائل ہیں ہم اشیاء کوہی نہیں بلکہ انسانوں کو بھی ان کے ظاہر سے جاننا چاہتے ہیں اور ان کے ساتھ ان کے ظاہر کی وجہ سے سلوک رویے اور لہجے ترتیب دیتے ہیں۔ یہی نہیں ہم سب اپنے ظاہر کو سنوارنے پر زور دیتے ہیں۔ ہم تعلقات بنانے اور بگاڑنے میں ظاہر کو ترجیح دیتے ہیں یہی وجہ ہے ہمارے تعلقات پائیدار نہیں ہوتے۔
ہم شخصیت کے ظاہر سے متاثر ہو کر دھوکہ کھاتے ہیں اور ایسا وہی کرتے ہیں جو خود بھی ظاہر ی دنیا پر توجہ دیتے ہیں۔ یاد رکھیں ایسا کرنے والوں کے باطن خالی رہ جاتے ہیں۔ جب باطن خالی ہوں تو سکون نہیں ملتا بازگزشت رہتی ہے شور ہی شور ہوتا ہے پھر علم پر عمل نہیں ہوتا۔ گفتار ہوتا ہے کردار نہیں ہوتا ۔بات ہوتی ہے پر تاثیر نہیں ہوتی۔
نوجوانو! اگر قیمتی بننا چاہتے ہو تو اپنے دل کی دنیا پر توجہ دو ۔ اپنے اندر کو سنواریں۔ اس کی چار دیواری پر میل نہ لگنے دیں۔ آپ کی شخصیت کے باطن کا ہی حقیقی اثر ہوتا ہے ۔ اگر ظاہر پر توجہ دیں گے تو ظاہر والے متاثر ہوں گے اور اگر باطن پر توجہ دیں گے توکوئی متاثر ہو یا نہ ہو آپ کا خدا آپ سے راضی ہو گا ۔ جب خدا کی رضا میسر ہو تو پھر دنیا کی کوئی وقعت نہیں رہتی۔
( ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم کی کتاب ،’’کامیاب زندگی کے راز‘‘ سے انتخاب)