انیلہ افضال ایڈووکیٹ
عالمی اقوام کا کسی ایک نکتے پر متفق ہونا بالکل ایسا ہی ہے جیسا زندہ مینڈکوں کو تولنا، کوئی نہ کوئی اچھل کر سائیڈ سے نکل ہی جاتا ہے۔ بس ایک پوائنٹ ایسا ہے جس پر دنیا کی ہر قوم ، ہر ملک ، تمام فلسفی اور دیگر ماہرین متفق ہیں ؛ اور وہ یہ ہے کہ کسی بھی ملک کے روشن مستقبل کا انحصار اس کی نوجوان نسل پر ہوتا ہے۔ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ یہاں کی نصف آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے لیکن نوجوانوں کے حالات کو دیکھتے ہوئے مستقبل کچھ زیادہ امید افزاء نہیں۔
پاکستان اپنے قیام کے بعد سے ہی بوجوہ بہت سے سماجی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی مسائل کا شکار رہا ہے اور اب یہ مسائل چیلنج کا روپ دھارچکے ہیں۔ کمزور معاشی حالات، خراب تعلیم، غربت، روزگار اور ترقی کے کم ہوتے مواقع، امن و امان کی خراب صورتِ حال اور ناانصافیوں نے نوجوان نسل کو بنیاد پرستی، انتہا پسندی، جرائم، اور نفرت کی طرف ایسا مائل کردیا ہے کہ جو طبقہ عوام کی اُمنگوں کا ترجمان بن سکتا تھا، وہ خود روگی ہوتا چلا جارہا ہے۔ ان کی صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ روزمرّہ کی ضروریات پورا کرنے کی مصروفیات اور پریشانیوں نے ان کی سماجی شعور کو گہنا دیا ہے۔
اس وقت ہمارے نوجوان زیادہ مسائل کا شکار ہیں، جس سے اُن میں مایوسی، نفرت، غصہ، انتشار، تعصب، عدم تحفظ، بےراہ روی، منشیات کا استعمال اور خودکشی جیسے بڑھتے ہوئے رحجانات دیکھے جارہے ہیں۔ ساتھ ہی نوجوانوں سیاست میں دلچسپی لینا۔ اور دیگر شعبہ جات میں آگے بڑھنے کی کوشش کرنا، حق رائے دہی کا استعمال خوش آئند ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب نوجوان جمہوری روایات کو سمجھنے لگے ہیں۔
جو نئے سیاسی رجحانات کو جنم دینے کا سبب ہے۔ آج کےنوجوان سیاست اور ریاستی امورپر کھل کر بات تو کرتے ہیں لیکن ان کی سنی جائے تب نہ۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کے نوجوان نسل سیاست کے بارے میں باخبر بھی ہیں، متفکر بھی اور سوشل میڈیا کے ذریعے اس کا اظہار بھی کرتے ہیں لیکن مسئلہ ان کو آگے لانے کا ان کی باتوں پر عمل درآمد کرنے کا ہے۔ یہ تو صرف سیا ست دانوں کے مہرے بن کر رہ گئے ہیں۔ اس صورت حال نے نوجوان کو مزید ڈپریش میں مبتلا کر دیا ہے۔
ایک وقت تھا کہ بچوں کے سامنے خاندانی اختلافات تک کا ذکر نہیں کیا جاتا تھا تاکہ ان کی ذہنی نشوونماپر منفی اثر نہ پڑے اور ایک یہ وقت ہے کہ ہمارے بیشترنوجوان ملک کی معاشی، سیاسی اور سماجی حالات کی وجہ سے غلط سمت کی طرف گامزن اور کئی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں ۔تربیت کی کمی بھی ان کےلئے مسائل پیدا کر رہی ہے۔
اس کی ایک بڑی وجہ والدین کی عدم توجہی ہے یا پھر وہ بھی موبائل فونز اور سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزار نا پسند کرتے ہیں، جس سے بچے خود سے جو سیکھ رہے ہیں اسے ہی اپنائے ہوئے ہیں۔ ہر گھر کے سربراہ کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہوں گی کہ اس کی زیر پرورش نسل نو بگڑنے نہ پائے۔
سطحی مباحث اورسر گرمیوں میں بہت وقت بیت گیا۔ نوجوانوں کو اب ساری تو جہ اپنی تعلیم اور شخصی تعمیر پر دینا ہوگی۔اپنے کل کو روشن کیجئے،اس کے بعد ہی وہ ملک و قوم اور کسی سیاسی جماعت کے لیے اثاثہ ثابت ہو سکیں گے۔سیاسی جماعتوں کو بھی اب نوجوانوں پہ رحم کرنا ہوگا۔
اپنی تعلیمی مصروفیات کے بعد اگر نو جوان کچھ وقت کسی سماجی یا سیاسی کام کو دے سکیں تو کوئی حرج نہیں لیکن تعلیم کی عمر میں اگر یہ سیاست کو اوڑھنا بچھونا بنا لیں تویہ ایک المیہ ہوگا۔ طلبا و طالبات خود کو آزاد کر کے سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر یوتھ فورس یا ادبی سوسائٹی بنانی چاہیے، جو معاشرے کی اصلاح کرے اور بے صلاحیت اور خود غرض قیادت کی پیروی کے بجائے اپنے اندر سے ایک ویژنری قیادت پیدا کریں۔
آپ اپنی تاریخ اور ثقافت سے رشتہ جوڑیں ،تاکہ دنیا کی تاریخ میں آپ اپنا مقام اور تشخص قائم کر سکیں۔ جب آپ کو اپنی تاریخ و ثقافت کا علم ہو گیا تو آپکو یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ قوموں کی صف میں آپ کہاں کھڑے ہیں اور ریاستی وحدت کی بحالی کے لیے آپکو کیا کرنا ہے۔
من حیث القوم ہماری بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ، الزام تراشیوں، لڑائی جھگڑوں سے لطف اندوز نہ ہوں بلکہ کچھ ایسا کریں کہ نفرتیں، لڑائیاں اور عدم برداشت ختم ہوں۔ تاکہ یہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکےاور نوجوان جو ہمارا کل ہیں ان کا مستقبل بچا سکیں۔