نوجوان کسی بھی تہذیب، قوم اور ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ یہ بات سب زندہ معاشروں میں بجا طور پر کہی اور سمجھی جاتی ہے۔ تاہم ہمارے یہاں ایسا کہا تو ضرور جاتا ہے لیکن سمجھا بالکل نہیں جاتا۔ سیاست اور اقتدار کی سطح پر یہ حقیقت آئے دن ہمارے سامنے آتی رہتی ہے۔
قائدِ اعظم نے آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنی ایک تقریر میں کہا تھا:
’’پاکستان کو اپنے نوجوانوں پر فخر ہے، بالخصوص نوجوان طلبہ پر جو آزمائش کی گھڑی میں صفِ اوّل میں نظر آتے ہیں۔ آنے والے کل آپ اس قوم کے رہنما ہوں گے اس لیے ضروری ہے کہ آپ نظم و ضبط، تعلیم اور تربیت کے اُن سب عناصر سے آراستہ ہوں جو آپ کی آئندہ راہوں کی مشکلات سے نمٹنے کے لیے درکار ہوں گے۔‘‘
قائدِ اعظم کے اس بیان سے اُن کے قومی شعور اور وسعتِ نظر کا اظہار تو ہوتا ہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ اندازہ بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی قوم کے جواں سال لوگوں کے بارے میں کس قدر پُراعتماد تھے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آج ہمارے سیاسی رہنما اس حقیقت سے نابلد ہیں یا اُن کے نزدیک ملک و قوم کی ترقی اور خوش حالی میں نوجوانوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
ایسا تو نہیں ہوگا، نعروں، سیاسی بیانات اور پروفیشنل اسکیم وغیرہ کے حوالے سے تو لگتا ہے سیاست دان بھی نوجوانوں کے بارے میں سوچتے ہیں، لیکن اس سچائی سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے یہاں گزشتہ برسوں سے نوجوان طبقے کے مسائل، ضرورتوں، تعلیم، تربیت اور استحکام کے لیے وہ اقدامات نہیں ہو پارہے جو حکومت اور اداروں کی سطح پر ہونے چاہییں اور جن کی اشد ضرورت ہے۔
ہم گزشتہ دہائیوں کی بات کر رہے ہیں، اس وقت ہمارے پیشِ نظر صرف سالِ گذشتہ کی وہ صورتِ حال ہے جس کا سامنا ہمارے نوجوان کرتے رہے ہیں۔
ورلڈ میٹرز کے مطابق پاکستان کی آبادی اس وقت پچیس کروڑ سے متجاوز ہے جو اس وقت دنیا کی آبادی کا تین اعشاریہ صفر آٹھ فی صد ہے۔ پاکستان آبادی کی شرح کے تناسب سے دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہے جہاں آبادی میں اضافہ وسائل کے تناسب سے کہیں زیادہ ہے۔ پچیس کروڑ کی اس آبادی میں چونسٹھ اعشاریہ آٹھ فی صد جواں سال لوگ ہیں جن کی عمر اٹھارہ سے چھبیس سال کے درمیان ہے۔
اس لحاظ سے کم و بیش ہماری دو تہائی آبادی جواں سال لوگوں پر مشتمل ہے۔ تعداد یا اکثریت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو بھی یہ طبقہ سب سے زیادہ توجہ کا حق رکھتا ہے، اور اگر ہم اس طبقے کے مسائل پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ہمارے یہاں نوجوان کے ساتھ حقیقت پسندانہ، ذمہ دارنہ اور منصفانہ سلوک نہیں کیا جارہا اور قومی پس ماندگی اور ملکی مسائل میں اس غفلت اور عدم توجہی کا بھی بے حد اہم کردار ہے۔
نوجوانوں کے مسائل میں سب سے پہلے تعلیم کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ اکیس ویں صدی کی اس دنیا میں جہاں آرٹی فیشل انٹیلی جنس اور ٹیکنالوجی کی روز افزوں ترقی آنے والے کچھ ہی برسوں میں ہماری دنیا اور انسانی زندگی کا پورا نقشہ بدلنے کے راستے پر تیز رفتار سے دوڑتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
حقائق کے اس منظرنامے کو دیکھتے ہوئے ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ دو سے تین دہائی بعد دنیا کے موجودہ نقشے میں بڑی بڑی تبدیلیاں آچکی ہوں گی۔ ان میں سے بیشتر تبدیلیوں کی بنیاد قوموں اور ملکوں میں نوجوانوں کے کردار اور تعلیم کے میدان میں اُن کی کارکردگی پر ہوگی۔
نوجوانوں اور تعلیم کی طرف سے لاپروائی برتنے والی قومیں آئی ٹی اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں بقا کی کوئی راہ نہی پاسکیں گی۔ غلامی اور گم نامی کا طوق ان کا مقدر ہوگا اور وہ صرف کنزیومر سوسائٹی بن کر رہ جائیں گے۔
کیا ہم قومی سطح پر اس حقیقت کا مکمل شعور رکھتے ہیں؟ حالات و واقعات اس سوال کا جواب اثبات میں نہیں بلکہ نفی میں دیتے ہیں اس لیے کہ گزشتہ برس میں ورلڈ میٹرز، ورلڈ اکونومک فورم، انسانی حقوق کے عالمی اداروں، ٹائمز اور وائس بی بی سی کے تجزیات اور اعداد و شمار بتاتے ہیں، ہمارے لگ بھگ تیس فی صد نوجوان تو سرے سے تعلیم سے محروم رہتے ہیں اور ان میں ہر دس میں سے سات نوجوان ایسے ہیں جنھیں اسکول جانے کا موقع ہی نہیں ملتا۔
ظاہر ہے، اس کی گوناگوں وجوہ ہیں جن میں سے دو سب سے زیادہ نمایاں تعلیم کی اہمیت و افادیت سے بے خبری اور دوسری غربت ہے۔ اب جو ستر فی صد بچے اور نوجوان تعلیم کی طرف آتے ہیں، ان میں سے ۷۷ فی صد ہیں جو خاندان کی تنگ دستی اور مفلوک الحالی کی وجہ سے جلد یا بدیر تعلیم کو خیرباد کہہ کر عملی اور معاشی زندگی میں داخل ہو جاتے ہیں۔
کامن ویلتھ نے اپنے ذرائع سے تحقیق و تصدیق کے بعد لکھا ہے کہ پاکستان میں بچوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جنھیں بچپن دیکھنا نصیب ہی نہیں ہوتا۔ پس ماندہ گھرانوں کے یہ بچے کم عمری ہی میں کام کاج اور روزگار کے بکھیڑوں میں الجھ جاتے ہیں، اس کا سب سے بڑا سبب گھر اور پیٹ کی ضرورتیں ہیں۔ اسکول کی تعلیم سے آگے جانے والے تئیس فی صد بچوں میں بھی سی ای آئی سی ڈیٹا کے مطابق لگ بھگ نو فی صد نوجوان ہی گریجویشن کی سطح تک پہنچتے ہیں۔
یہاں ایک اور بات بھی غور طلب بلکہ باعثِ تشویش ہے۔ وہ یہ کہ ہمارے یہاں لڑکوں کے لیے چوّن فی صد جب کہ لڑکیوں کے لیے بیالیس فی صد تعلیم کا رجحان پایا جاتا ہے۔ اکیسویں صدی کے اس تیزی سے بدلتے ہوئے گلوبل ولیج میں بچوں اور بچیوں دونوں میں حصولِ تعلیم کا یہ تناسب سخت پریشان کن ہے۔ اس لیے کہ آنے والے زمانے میں انسانی اور حیوانی زندگی میں فرق کا سب سے بڑا پیمانہ صرف تعلیم ہی قرار پائے گی۔
فرائیڈے ٹائمزنے اپنی 19؍ اکتوبر2024 کی اشاعت میں لکھا تھا کہ، اس وقت ملک میں پیتالیس لاکھ سے زائد نوجوان بے روزگاری کے مسئلہ سے دوچار ہیں۔ پاکستان اکنامک سروے 2023ء — 2024 کے مطابق پاکستان میں ان میں پندرہ سے چونتیس سال کی عمر کے وہ افراد شامل ہیں جن میں سے اکثریت اہلِ خانہ کی کفالت کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر رکھتی ہے۔
دوسری طرف عالمی ادارے یونی سیف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف اٹھارہ فی صد نوجوان ایسے ہیں جو اکیس ویں صدی کے تقاضوں کے مطابق تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزر کر کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہمارے بیاسی فی صد نوجوان ایسے ہیں جنھیں تعلیم حاصل کرنےکے مواقع میسر نہیں یا ہیں بھی تو وہ ایسی تعلیم اور ایسے ہنر کی طرف جاتے ہیں جس کی اس دور میں کوئی ضرورت و اہمیت نہیں ہے۔
نتیجہ یہ کہ وہ معاشی خوش حالی اور زندگی کی دوڑ کے میدان میں آگے بڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہاں سوچنے اور یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ بیاسی فی صد یہ نوجوان دراصل آگے چل کر اس ملک کی بیاسی فی صد آبادی میں تبدیل ہوں گے، اور یہ وہ آبادی ہوگی جس کی اکثریت شناختی مسائل اور سماجی و اخلاقی زبوں حالی سے دوچار ہوگی۔
اس صورتِ حال سے منسلک دوسرا منظر یہ سامنے آتا ہے، انھیں تعلیم اور تربیت کے مراحل سے محروم رہنے والے نوجوانوں کی ایک تعداد غربت اور بے روزگاری کی پیدا کردہ فرسٹریشن کے نتیجے میں جرائم کی دلدل کی طرف قدم بڑھاتے ہیں اور پھر واپسی کا راستہ کھو بیٹھتے ہیں۔
دی فرائیڈے ٹائمز میں درج اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یہی وجہ ہے جو ہمارے ملک کے شہری علاقوں میں لوٹ مار، ڈکیتی اور دہشت گردی کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ مثال کے طور پر اس سال کراچی میں ایک سو اکیس فی صد، لاہور میں سینتیس فی صد اور اسلام آباد میں ساٹھ فی صد اضافہ مختلف قسم کی وارداتوں میں دیکھا گیا ہے۔
معاشیات اور سماجیات کے ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ کسی بھی ملک میں تخریب کاری، دہشت گردی اور اسٹریٹ کرائمز میں اضافے کا سبب بننے والے تین بنیادی عوامل میں سے ایک مالی بدحالی یا معاشی عدم استحکام ہوا کرتا ہے۔ ملک کی معاشی صورتِ حال اس وقت یہ ہے کہ ایک طرف وہ بیرونی قرضوں کے دبائوں میں ہے تو دوسری طرف ہماری معیشت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نئے مواقع پیدا کرنے اور پرانے ذرائع کو وسعت دینے کی سکت ہی نہیں رکھتی۔
نتیجہ یہ کہ ہر سال روزگار حاصل کرنے اور معیشت کا حصہ بننے والے نوجوانوں کی نئی کھیپ مسائل کا شکار ہو رہی ہے۔ یہ مسائل بظاہر اور ابتدا میں ایک نوجوان سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن رفتہ رفتہ ان کی لپیٹ میں پورا خاندان آتا چلا جاتا ہے۔ اس کے بعد وہی ہوتا ہے جسے تنگ آمد بجنگ آمدکہا جاتا ہے۔
ان کے نتائج کا سامنا عوام کو کرنا پڑتا ہے، بالخصوص اس نوجوان نسل کو جو ہر سال عملی زندگی میں قدم رکھتی ہے۔ اس کے پاس توانائی ہوتی ہے، اُمنگ اور خواب ہوتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ، ہر سال زندگی کے عملی میدان میں اترنے والے نوجوان اپنی توانائی کو درست سمت اور نتیجہ خیز طریقے سے استعمال کرتے ہوئے اپنے خوابوں کے حصول کے لیے جدوجہد کر سکیں۔ زندگی کو آسودہ اور خوش گوار طریقے سے گزار سکیں۔
ہمارے ملک میں سیاسی عدم استحکام اور حکومتی سطح پر ملک و قوم خصوصاً نوجوانوں کے لیے بننے والی پالیسیاں عدم تسلسل بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہماری نوجوان نسل اور ملک کے مستقبل کو چاٹتا ہوا نظر آرہا ہے۔ حالات واقعی پریشان کن ہیں، تاہم بہتری کے امکانات اب بھی ختم نہیں ہوئے۔ سرنگ کی دوسری طرف روشنی کو صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ ہمارے سامنے جاپان اور چین کے بعد بنگلہ دیش کی مثال بھی ہے۔
ملک کی معاشی صورتِ حال کے لیے اقدامات کرتے اور معیشت کے لیے قدم اٹھاتے ہوئے نوجوان نسل کی ضروریات، صلاحیت اور افادیت کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے۔ ملک کے مسائل کو ان کے لیے بروے کار لایا جاتا ہے۔ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جاتا ہے۔ مستقبل میں ہونے والی تبدیلیوں اور ان کے نتیجے میں رونما ہونے والے امکانات پر نظر رکھی جاتی ہے۔
لیکن ہمارے یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ایسے ادارے تو ضرور ہیں جو ان سب کاموں کے لیے بنائے گئے ہیں، مگر وہ اس طرح کام نہیں کررہے۔ کیوں نہیں کر رہے؟ یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے۔ بہر حال یہ بات پورے یقین اور ذمہ داری سے کہی جاسکتی ہے کہ نئی نسل کو ذہانت، صلاحیت اور محنت جس اعتبار سے بھی دیکھا جائے، ترقی اور کامیابی کے بڑے اہداف حاصل کرنے کی پوری اہلیت رکھتے ہیں۔ انھیں جس مسئلے کا سامنا ہے، وہ صرف اور وسائل اور امکانات کی فراہمی ہے۔
سائنس، ٹیکنالوجی اور طب سے لے کر کھیل کے میدان تک ہمارے یہاں اعلیٰ صلاحیتوں کے نوجوان ہیں جو ہر میدان میں اپنا لوہا منوا سکتے ہیں۔ اس کی ایک مثال تو ارشد ندیم ہے جس نے سالِ گذشتہ جیولن پھینکنے کے مقابلے میں اولمپک میں گولڈ میڈل حاصل کیا ۔ اس کھلاڑی نے یہ شان دار کامیابی ﷲ کی مدد اور ذاتی جذبے کے بل بوتے پر حاصل کی ہے۔ ٹریننگ اور پریکٹس کے لیے اسے برائے نام سہولت بھی حاصل نہیں تھی۔
ایسی ایک دو نہیں، بلکہ ہزاروں مثالیں ہمارے یہاں موجود ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ مثالیں ہمارے معاشرے کے ان افراد سے فراہم ہوتی ہیں جو وسائل کی شدید قلت کا سامنا کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قدرت نے انھیں بے حد اعلیٰ درجے کی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ اگر ان صلاحیتوں کو بہتر انداز سے دیکھا اور استعمال کیا جائے تو ایسے نوجوان نہ صرف اپنے اور اپنے خاندان کے لیے خوش حال زندگی کی ضمانت ثابت ہو سکتے ہیں بلکہ ملک و قوم کی خوش حالی اور معیشت کی بحالی اور استحکام میں مفید اور بھرپور کردار ادا کر سکتے ہیں۔
دوسری طرف مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کے یہ ذہین، محنتی اور باصلاحیت نوجوان ملکی حالات اور معاشی مسائل کی وجہ سے اپنے جوہر کو استعمال ہی نہیں کر پا رہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ہمارے یہاں لگ بھگ پیتالیس لاکھ افراد بے روزگار ہیں۔ ان میں چونسٹھ فی صد افراد پندرہ سے انتیس سال کی عمر کے ہیں، یعنی لگ بھگ دو تہائی تعداد جواں سال افراد کی ہے۔
اس بے روزگاری کا نتیجہ یہ ہے کہ ان میں سے اکثر نوجوان ملک سے باہر جانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور جوں ہی موقع ملتا ہے، وہ پردیس سدھار جاتے ہیں اس کے بعد ان کی واپسی کے امکانات نہ ہونے کے برابر رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہمارا ملک اپنے جواں سال لوگوں کی صلاحیتوں اور توانائی سے محروم رہتا ہے۔ پاکستان ٹوڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق تیرہ اعشاریہ تریپن ملین افراد نے سال کے پہلے نصف میں ملک کو خیرباد کہا۔ ان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اپنے شعبے کی اعلیٰ صلاحیت رکھنے والے جواں عمر لوگ شامل ہیں۔
اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان میں نوجوان ملک کی آبادی کا لگ بھگ دو تہائی حصہ ہیں۔ ان میں اکثر و بیشتر لوگ قدرت کی دی ہوئی اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک ہیں اور نئی دنیا کے قدم سے قدم ملا کر چلنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ انھیں اپنےدور کے تقاضوں کے مطابق تعلیم کے مواقع فراہم ہوں اور ان کی صلاحیتوں کو ابھارنے کے اقدام کیے جائیں تاکہ وہ نہ صرف اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کے لیے کارآمد اور خوش حال زندگی کا ذریعہ بن سکیں بلکہ ملک و قوم کے لیے بھی اثاثہ ثابت ہوں اور اس کی ترقی میں ذمہ دارانہ اور فعال کردار ادا کر سکیں۔ اس کے لیے سب سے اہم ذمہ داری تو حکومت اور اس کی پالیسیز کی ہوگی۔ ایسی پالیسیز کی ضرورت ہے جو اس عہد کے مسائل اور تقاضوں کا سامنا کرنے کے لیے نوجوانوں کو تیار کر سکیں۔
انھیں اپنے ملک میں وہ مواقع فراہم کر سکیں جو ترقی یافتہ ملکوں میں نوجوانوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ یہ کام صرف پالیسیز بنانے سے نہیں ہو سکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کے لیے جو منصوبے بنائے جائیں اور ان کے لیے جو ادارے قائم ہوں، وہ سیاسی حکومت کی تبدیلی سے متأثر نہ ہوں۔ اس کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی ضرورت ہو گی۔ اس کے بغیر یہ منظر نامہ تبدیل نہیں ہوسکتا۔
دوسری طرف ہمارے وہ فلاحی ادارے ہیں جو لاکھوں لوگوں کو روز کھانا کھلانے اور زندگی کی ضرورتیں پوری کرنے کا کام بڑی مستعدی سے کر رہے ہیں۔ ان کو بھی اپنے یہاں ایسا ایک شعبہ قائم کرنا چاہیے جس کے ذریعے نوجوانوں کو ملک کے لیے کارآمد کردار ادا کرنے کے امکانات کی راہ پر لانے کے اقدامات ممکن ہوں۔
ہمارا پرائیویٹ سیکٹر بھی اس سلسلے میں بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ سارے مسائل کے باوجود من حیث القوم ہم نے ثابت کیا ہے کہ ہم ایک باہمت قوم ہیں۔ ہمارے نوجوان فی الحقیقت ہمارے مضبوط دست و بازو ہیں۔ ان کو درست سمت میں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراہم ہو تو یہ اپنی قوم کی تقدیر بدلنے میں مرکزی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس لیے کہ:
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی