• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مائیک کینن بروکس
مائیک کینن بروکس

محمد کامران

دنیا میں بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے اپنا نصیب خود اپنے ہاتھوں سے بدل ڈالا۔ ہمت، حوصلے سےترقی، خوشحالی کے راستے پر پہلا قدم رکھا، گرچہ اس راستے پر انہیں بے پناہ مسائل، پریشانیوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن انہوں نے ہمت ہاری اور نہ اپنے حوصلے پست ہونے دیئے، آخر کار پریشانیوں، مسائل، مصیبتوں نے ان کے روبرو شکست تسلیم کر لی اور ان کے راستے سے ہٹ گئیں، کسی بھی منزل پر پہنچنے کے لئے پہلا قدم اٹھانا لازمی ہوتا ہے۔

ان ہی میں مائیک کینن بروکس جن کا تعلق آسٹیریلیا سے ہے۔جینز اور سادہ سی ٹی شرٹ اور لمبے سنہری بالوں والے مائیک کینن بروکس کو دیکھیں تو فوربز میگزین کا یہ کہنا درست لگتا ہے کہ وہ اپنے حلیے سے کِسی سافٹ وئیر فرم کے ارب پتی مالک سے زیادہ کوئی عام سے آسٹریلوی کسان لگتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ آسٹریلیا کی آئی ٹی انڈسٹری کا چہرہ اور اُس کی پہچان ہیں۔ اپنی فیلڈ میں مائیک نے جو کارنامہ سر انجام دیا وہ اُس سے پہلے اُس کا کوئی ہم وطن نہیں کر سکا، یہی وجہ ہے کہ آسٹریلیا میں لوگ مائیک کی کامیابی کے معترف ہیں اور اُس کا ذکر فخر سے کیا جاتا ہے۔

مائیک کینن جب وہ یونیورسٹی زیرِ تعلیم تھا، گریجویشن کا وقت آیا تواُس کے پاس دو راستے تھے۔ ایک تو سادہ، لگا بندھا راستہ کہ کسی اچھی سی آئی ٹی کمپنی میں اپنی CV بھیجے، انٹرویو دے اور جیسا کہ اُس وقت مارکیٹ میں چلن تھا، تقریباً پچاس ہزار ڈالر سالانہ کی تنخواہ والی جاب حاصل کر کے مزے کرے۔ دوسرا راستہ ان دیکھا اور انجانا تھا جو دشوار بھی تھا وہ یہ کہ وہ خود اپنے بزنس کا آغاز کرے اور کوشش کرے کہ50 ہزار ڈالر سالانہ اپنا کام کرتے ہوئے کمائے۔ 

گریجویشن کے قریب اُس نے اپنے کلاس فیلوز کو ای میل بھیجی کہ کوئی ہے جو ایک ایسے نئےا سٹارٹ اپ میں اُسکا ساتھ دینا چاہے ،جس کے لیے اُس کے پاس ابھی کوئی رقم اور وسائل بھی نہیں اور کوئی آئیڈیا بھی نہیں۔ سوائے ایک لڑکے کے، کسی نے اُسکی ای میل کا جواب دینے کی زحمت نہیں کی۔ جس واحد لڑکے نے اُسکے ساتھ مل کر کام کرنے کی حامی بھری اُس کا نام ا سکاٹ تھا۔ 

دونوں نے اپنے کریڈٹ کارڈز سے دس ہزار ڈالر کا قرضہ لے کر ایک آئی ٹی فرم Atlassian کی بنیاد رکھی۔ یہ نام اٹلس دیوتا کے نام پر رکھا ، جس نے، یونانی دیو مالا کے مطابق، زمین کو اپنے کندھوں پر اُٹھا رکھا ہے۔ یہ دراصل علامت تھی اُس حوصلے کی جس کے تحت مائیک نے زندگی میں ناقابلِ یقین حد تک بڑے اور انوکھے کاموں میں ہاتھ ڈالا۔

مائیک اور اسکاٹ کی خواہش تو یہی تھی کہ وہ کم از کم 50 ہزار ڈالر سالانہ کمانے لگیں لیکن اُن کی کمپنی نئی تھی اور اُسے اتنا بزنس نہیں مل رہا تھا۔ دو سال بعد بھی اُن کی ایوریج مشکل سے پندرہ ہزار ڈالر سالانہ کے قریب پہنچی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب اُن کے پرانے دوست اور یونیورسٹی کے ساتھی اُن سے کم از کم تین گنا زیادہ تنخواہوں والی ملازمتیں کر رہے تھے اور اپنے فیصلے پر مطئمن تھے۔

مائیک اورا سکاٹ مالی لحاظ سے اپنے دوستوں سے کافی پیچھے ضرور تھے لیکن وہ محنت بھی کر رہے تھے اور نئے بزنس ماڈل پر بھی غور کر رہے تھے۔ اُن کے پاس مالی وسائل کی ویسے ہی کمی تھی اِس لیے اُنہوں نے خود سے عہد کیا کہ وہ سیلز ٹیم رکھنے پر کوئی رقم خرچ نہیں کریں گے بلکہ اپنے تمام وسائل اپنی پراڈکٹس کو بہترین بنانے میں لگائیں گے۔ 

مقصد یہ تھا کہ پراڈکٹ اچھی بن گئی تو کلائنٹس خود ہی آ جائیں گے۔ دو تین سال گزرنے کے بعد مائیک اور سکاٹ کی وہ کمپنی ٹیک آف کرنے لگی، سیلز ٹیم کے بغیر ہی اُن کی سافٹ ویئر اپنی کوالٹی کی وجہ سے مقبول ہونے لگی، اُنہیں بڑی کمپنیز سے آرڈرز ملنے لگے۔

ناسا، ٹیسلا، آڈی اور سپیس ایکس جیسے بڑے ادارے اُن کے گاہک بننے لگے اور کمپنی کا ریونیو بڑھتا گیا۔ تیرہ سال مسلسل محنت کے بعد جب اُنہوں نے میں Atlassian کے شیئرز مارکیٹ میں فروخت کے لیےپیش کیے تواُس وقت کمپنی کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن ساڑھے چار ارب ڈالر ہو چکی تھی اور مائیک کینن اورا سکاٹ آسٹریلیا کی تاریخ کے پہلے ٹیک بلینیئرز بن چکے تھے۔ 

آج Atlassian کی مارکیٹ کیپیٹلائزیشن 47 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ مائیک کینن بروکس اور اُسکا دوست اسکاٹ دونوں گیارہ گیارہ ارب ڈالر سے زائد دولت کے مالک ہیں اور وہ نوجوانی میں ہی اِس وقت آسٹریلیا کے امیر ترین لوگوں میں شامل ہو چکے ہیں۔

مائیک کا سفر یہی ختم نہیں ہو، وہ اب جس پراجیکٹ پر کام کر رہا ہے وہ تو ناقابلِ یقین حد تک بڑا ہے۔ اتنا بڑا کہ وہ کام جو ریاستوں کے کرنے کے ہیں، وہی کام وہ انفرادی حیثیت میں کرنے لگا ہے۔ آسٹریلیا کے شمالی ویرانوں میں، جہاں سارا سال سورج خوب چمکتا ہے، مائیک وہاں دنیا کا سب سے بڑا سولر انرجی فارم بنانے والا ہے۔

یہ 20 گیگاواٹ تک بجلی پیدا کرے گا۔ یہ اتنی بجلی ہے جو ڈیڑھ کروڑ گھروں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔ اِس کے ساتھ ہی وہ دنیا کا سب سے بڑا بیٹری سیٹ اپ بھی بنانے کا منصوبہ رکھتا ہے تاکہ سورج ڈوبنے کے بعد بھی اگلی صبح تک بجلی کی سپلائی جاری رہے۔ 

لیکن پراجیکٹ کا سب سے حیران کن حصہ یہ ہے کہ وہ اِس بجلی کو سمندر کے اندر ساڑھے چار ہزار کلومیٹر لمبی کیبل کے ذریعے سنگاپور اور انڈونیشیا تک پہنچانا چاہتا ہے۔ یہ بھی دنیا میں اپنی نوعیت کی سب سے لمبی ہائی وولٹیج کیبل ہو گی۔ اس پورے پراجیکٹ کی لاگت تقریباً بیس ارب ڈالر ہونے والی ہے۔

ستاروں پہ کمند ڈالنے کا کام اُن عقلمند لوگوں کے بس کی بات ہی نہیں جو اپنی وائٹ کالر جابز، اپنی تنخواہ اور اپنے کمفرٹ زون میں مطمئن ہو بیٹھتے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو بھی چاہیے کہ اس طرح کے لوگوں سے سیکھیں اپنے آپ کو کبھی کمزور نہ ہونے دیں ایک قدم بڑھائیں اگلے قدم خود ہی اُٹھتے چلے جائیں گے۔