• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ وقت ڈیجیٹلئزشن کا ہے۔ ایک ورچوئل گروپ جو حقیقت میں کامیابی کے نئے دروازے کھولتا ہے۔ اس کی سوچ یہ ہے کہ نوجوان ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے اپنا روشن مستقبل خود بنائیں۔ ٹیکنالوجی کو صرف ایک ٹول نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے تبدیلی کے سب سے طاقتور ذریعہ کے طور پر ابھرنا چاہیے۔ 

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے لے کر ڈیٹا اینالیٹکس اور مصنوعی ذہانت تک جدید ڈیجیٹل تکنیکی ٹولز کے ذریعے نوجوانوں کو پائیدار ترقی کے سفر پر لے جانا ضروری ہے تاکہ وہ کھلے بازوؤں کے ساتھ بدلتی ہوئی دنیا کا خیر مقدم کریں جو چیلنجنگ ہے لیکن ایڈونچر سے بھی بھرپور ہے۔

ڈیجیٹل تقسیم جیسے چیلنجز بدستور موجود ہیں، نوجوانوں کو اکثر ڈیجیٹل نیٹوز(Digital Natives) سمجھا جاتا ہے جو نئی ٹیکنالوجیز کو اپنانے اور اختراع کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ یہ وہ صارفین ہیں جو عالمی سطح پر ڈیجیٹل رجحانات کو تشکیل دیتے ہیں۔ آن لائن تعلیم ہو یا ڈیجیٹل انٹرپرینیورشپ، ڈیجیٹل پلیٹ فارم آج کی دنیا میں نوجوانوں کے لیے بہترین پلیٹ فارم بن چکے ہیں۔ 

اسمارٹ فونز، لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ سے لیس آج کے نوجوان خود پروڈیوسر اور لیڈر بن کر ابھر رہے ہیں۔ نسل نو خود کو سیاسی و سماجی ثقافت کے ساتھ انٹر نیٹ، ای میل، گوگل سیل فون اور یاہو وغیرہ سے تعلق رکھنا ضروری سمجھتی ہے۔ ترقی یافتہ ا سکولوں کے چھوٹے بچے کمپیوٹر اور گوگل کے ذریعے اپنی اسائنمنٹ مکمل کرتے ہیں۔ 

چھوٹے بچے بھی اپنے والدین کے موبائل فون میں کارٹون دیکھنے میں یا گیم کھیلنے میں اب مصروف نظر آتے ہیں، مگر دوسری طرف نصاب کو عالمی مارکیٹ کی ضروریات اور ملازمتوں کےلئے بہتر بنانے کی کوشش بھی کی جانی چاہیے۔ نوجوانوں کی حقیقی اقتصادی اور سماجی صلاحیت کو کھولنے کے لیے، تعلیمی ترجیحات میں بنیادی تبدیلی ضروری ہے۔ 

اگرچہ روایتی تعلیم کی اپنی جگہ ہے، لیکن انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے مربوط کوشش اب ایک اختیار نہیں بلکہ ایک ضرورت ہے۔ پاکستان، بڑھتی ہوئی نوجوان آبادی کے ساتھ، اس تکنیکی انقلاب سے فائدہ اٹھانے کا ایک منفرد موقع رکھتا ہے۔ 

حکومت آئی ٹی اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کو ترجیح دے کر، ایک مہارت یافتہ افرادی قوت کی پرورش کی جا سکتی ہے، جدت طرازی کو فروغ دے سکتی ہے اور اقتصادی ترقی کو آگے بڑھا سکتی ہے۔ نوجوانوں کو سافٹ ویئر کی ترقی، ڈیٹا تجزیہ اور سائبر سیکیورٹی جیسے شعبوں میں مطلوبہ مہارتوں سے لیس کرکے، حکومت انہیں عالمی ملازمت کی مارکیٹ کے لیے تیار کر سکتی ہے۔ایک مہارت یافتہ آئی ٹی افرادی قوت چیلنجوں کے حل اور علم پر مبنی معیشت کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہوگی۔

موسمیاتی تبدیلی سے لے کر غربت تک، دنیا کو متعدد پیچیدہ چیلنجوں کا سامنا ہے۔ نوجوانوں کو ان تکنیکی حل کو تیار کرنے اور لاگو کرنے کے لیے مہارتوں اور علم سے لیس کرکے، پاکستان ان عالمی مسائل سے نمٹنے اور زیادہ پائیدار اور مساوات پسندانہ مستقبل میں حصہ ڈال سکتا ہے۔ان کے مناسب استعمال سے واقفیت حاصل کرنی ضروری ہے۔  

ساتھ ہی جدید ٹیکنالوجی کے ذرائع سے استفادہ کرتے ہوئے اساتذہ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر پیشہ تدریس کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جانا بھی ضروری ہے، انہیں کتابوں کے علاوہ الیکٹرانک ذرائع جیسے ای کلاس روم، اسمارٹ کلاس، اوور ہیڈ پروجیکٹر، کمپیوٹر سی ڈیز، ٹیبلیٹ کمپیوٹر، لیپ ٹاپ وغیرہ میں بھی مہارت حاصل کرنی چاہیے، تاکہ ان کی مدد سے عصر حاضر کی تعلیم کو بہتر بنایا جاسکے۔ روایتی تدریسی طریقہ کار اب مستعمل نہیں رہا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال لازمی ہو گیا ہے۔

مختلف تعلیمی آیپس موجود ہیں جیسے Byjus ، Zoom.Teach mint, Google meet, Cisco WebEx, Edmodo,kahoot, Google classroom,Voki, وغیرہ وغیرہ۔ان آیپس کے استعمال سے تدریس کو موثر بنایا جا سکتا اور آن لائن کلاسیس کا انعقاد کیا جا سکتا ہے، لہذا اکیسویں صدی کے فعال و متحرک طلبا کےلیے ٹیکنالوجی میں ماہر اساتذہ کی اشد ضرورت ہے۔

تعلیمی ایپلیکیشنز کا استعمال اب عام ہو گیا ہے۔ ان کی مدد سے بچے بہت سیکھ رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی نے تعلیم کے میدان میں نیا در کھول دیا ہے۔ انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل وسائل کی مدد سے، طلباء اب دنیا کے کسی بھی حصے سے تعلیمی مواد تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ تعلیمی آلات اور ملٹی میڈیا اوزار کردار پلٹی ہیں جو پیچیدہ موضوعات کو سمجھنے اور یاد رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

درپیش چیلنجوں سے نمٹنے اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کا مکمل فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیں مصنوعی ذہانت ، بلاک چین ٹیکنالوجی، اوپن سورس انٹیلی جنس ، کوانٹم کمپیوٹنگ، سائبر سیکیورٹی، ڈیجیٹل میڈیا لٹریسی، انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اور تعلیم و تربیت پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے ، ہمارے نوجوانوں میں پاکستان کو ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے آگے لے جانے کی صلاحیت موجود ہے۔

حکومت کو اپنی پالیسیوں پر اصلاحات، انسانی سرمائے میں سرمایہ کاری، اور مضبوط تکنیکی بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو یکجا کرتے ہوئے ایک جامع نقطہ نظر اپنانا چاہیے۔ آگے کا راستہ آسان نہیں ہوگا، لیکن بہترین پالیسیوں سے ہم ٹیکنالوجی میں آگے جا سکتے ہیں۔ 

ٹیکنالوجی کا موثر استعمال اور اس کے اثرات کا مثبت رخ پر رہنا ضروری ہے۔ اگر ان ٹیکنالوجیز کا صحیح استعمال کرتے ہیں تو یہ ایک بہتر، زیادہ محفوظ اور ترقی یافتہ مستقبل کی طرف راہنمائی کر سکتا ہے۔