• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جن کی آبادی نوجوانوں سے بھرپور ہے، اور اس نوجوان قوت کو صحیح رہنمائی اور مواقع فراہم کرنا ملک کی ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ 

رواں برس کے اعدادوشمار کے مطابق، پاکستان میں صرف 10 فیصد طلباء یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کر پائے، جو ہمارے تعلیمی نظام میں موجود خامیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ تعلیم اور ہنر مندی سے محروم نوجوان ملکی معیشت کا سہارا بننے کے بجائے بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی وجہ سے بوجھ ثابت ہورہے ہیں۔ 

یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے طلبا بھی ڈگری ہونے کے باوجود عملی تربیت اور ہنر نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگاری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اگر ان کے نصاب میں کوئی ایک بھی فنی کورس شامل ہوتی تو انہیں مایوسی کا سامنا ہرگز نہ کرنا پڑتا۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کو روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ عملی مہارتوں سے بھی آراستہ کیا جائے تاکہ وہ اپنی ذاتی اور ملکی ترقی کی راہوں پر گامزن ہو سکیں۔

تعلیم اور عملی مہارت دونوں عناصر ایک دوسرے کے متوازی چل کر فرد کو کامیاب بنانے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ تعلیم جہاں علم، شعور اور معاشرتی اقدار سے آگاہ کرتی ہے، وہیں عملی مہارت انہیں اپنے علم کو حقیقی زندگی میں بروئے کار لانے کا ہنر سکھاتی ہے۔ 

اس کے علاوہ، ای کامرس، آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ جیسے جدید شعبوں میں مہارت حاصل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، تاکہ نوجوان مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو سکیں۔

ہمارا تعلیمی نظام میں کتابی تعلیم پر زیادہ زور دیتاہے اور عملی تربیت کو نظرانداز کردیا جاتاہے۔ نتیجتاً، طلباء ڈگریاں حاصل تو کر لیتے ہیں لیکن عملی میدان میں کامیابی حاصل نہیں کر پاتے۔ 

دوسری طرف، ہنر مند افراد کی کمی نہیں بلکہ ان کے لیے مناسب مواقع اور وسائل کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے، جس کے باعث لاکھوں ہنر مند افراد بیرون ملک جا کر اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ 

اگر تعلیمی نظام میں تبدیلی لاتے ہوئے طلباء کو عملی ہنر اور تربیت بھی دی جائے، تو نہ صرف ان کے لیے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ ملک کی معیشت بھی مستحکم ہو گی۔ طلباء کو جدید شعبوں میں آگےلانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ، تربیتی پروگرامز کا انعقاد بھی نہایت اہم ہے۔ اس کے لیے ورکشاپس اور سیمینارز منعقد کیے جا ئیں۔ انٹرن شپ پروگرامز کو لازمی بنایا جائے تاکہ نوجوان تجربات حاصل کر سکیں۔ 

مزید برآں، تعلیمی اداروں میں کاروباری تربیت فراہم کرنا بھی ضروری ہے، تاکہ طلباء چھوٹے پیمانے پر کاروبار کے اصول سیکھ سکیں اور کامیاب کاروباری افراد کے تجربات سے رہنمائی حاصل کر سکیں۔ ان تمام اقدامات کے ذریعے تعلیمی ادارے نوجوانوں کو نہ صرف تعلیم یافتہ بلکہ عملی میدان کے لیے بھی تیار کر سکتے ہیں، جس سے ان کی ترقی کے دروازے کھل سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ، چھوٹے پیمانے پر کاروبار کے فروغ اور اسٹارٹ اپ کلچر کو بڑھانے کے لیے حکومت کوسنجیدہ اقدامات کرنا ضروری ہے ۔ اگرچہ وزیراعطم یوتھ پروگرام میں نوجوانوں کو کاروبار کے لیے قرضے مختص کیے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد میں تیزی آنی چاہیےتاکہ نوجوان جلد از جلدنہ صرف خود مختار بن سکیں بلکہ معیشت میں بھی اپنا حصہ ڈال سکیں۔

حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ نسلِ نوکے لیے زیادہ سے زیادہ فنی تعلیم کے ادارے قائم کرے، جہاں نوجوانوں کو جدید تربیت فراہم کی جا سکے، تاکہ وہ عالمی معیار کے مطابق ہنر مند بن سکیں۔ 

اس کے ساتھ ساتھ، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی ترقی بھی ناگزیر ہے، تاکہ نوجوان ای کامرس، ایمازون بزنس، اور دیگر آن لائن کاروباری مواقع سے آگاہ ہوں اور انہیں نئی معیشت کے تقاضوں کے مطابق خود کو تیار کرنے کا موقع ملے۔ 

وزیر اعظم یوتھ اسکل ڈویلپمنٹ پروگرام کے آغاز نے کافی حدتک اس مسئلے کا حل نکلا۔اس پروگرام کے تحت مختلف شعبوں میں بے روزگار نوجوانوں کو ہنر مند بنایا جا رہا ہے۔

نوجوانوں کو بھی سب سے پہلے اپنی صلاحیتوں کو پہچاننا ہوگا اور اپنی دلچسپی کے مطابق شعبہ کا انتخاب کریں تاکہ وہ اپنی قابلیت کے مطابق بہترین کارکردگی دکھا سکیں۔جدید دور کے تقاضوں کے مطابق خود کو تیار کریں۔ کامیابی کے لیے نیٹ ورکنگ کا عمل بھی اہم ہے، اس لیے کامیاب افراد سے روابط بڑھائیں اور ان کے تجربات سے سیکھنے کی کوشش کریں۔

نوجوانوں کی کامیابی دراصل قوم کی کامیابی ہے۔ تعلیم اور عملی مہارت کا امتزاج نوجوانوں کو نہ صرف خود مختار بناتا ہے بلکہ ملک کو بھی ترقی کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ پاکستان کے نوجوانوں میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے، اور ضرورت صرف انہیں صحیح رہنمائی اور مواقع فراہم کرنے کی ہے۔

اگر ہم آج اپنے نوجوانوں پر سرمایہ کاری کریں گے، تو کل ہمارا مستقبل روشن ہوگا۔ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ نوجوان اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے قدم اٹھائیں، اور حکومت اور تعلیمی ادارے ان کے اس سفر میں معاون بنیں تاکہ ہم ایک مضبوط، خود کفیل، اور ترقی یافتہ پاکستان کا خواب پورا کر سکیں۔