• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر اسلم فاروقی

جدید ٹیکنالوجی زندگی کے ہر شعبہ میں داخل ہوگئی ہے۔ ہر دن کوئی نہ کوئی ایجاد اور نئے طور طریقے ہماری زندگی میں شامل ہورہے ہیں۔ جیب میں رکھے جانے والے ایک چھوٹے سےموبائل فون میں ہمیں انفارمیشن کے حصول سے متعلق ہر سہولت دستیاب ہے۔ جیسے فون سے بات کرنا ویڈیو کالنگ، انٹرنیٹ براؤزنگ، فیس بک چیٹنگ، ای میل کی سہوت اور بہت کچھ۔

آج کے اس دور میں جہاں ٹیکنالوجی کے بڑھتے اثرات نے زندگی کو تیز رفتار بنادیا ہے۔ وہیں تعلیم کے شعبے میں بھی ٹیکنالوجی کا اثر محسوس کیا جارہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذرائع سے استفادہ کرتے ہوئے اساتذہ اسکول ،کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر پیشہ تدریس کو اثر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکتے ہیں۔

تعلیمی ادارے بھی اپنے انتظامی امور میں ٹیکنالوجی کو اختیار کرتے ہوئے اپنے انتظامیہ کو بہتر اور فعال بنا سکتے ہیں۔ آج تعلیم کے حصول کے ذرائع میں کتابوں کے علاوہ الیکٹرانک ذرائع جیسے ای کلاس روم ،اسمارٹ کلاس، اوور ہیڈ پروجیکٹر، کمپیوٹر سی ڈیز ،لیپ ٹاپ وغیرہ شامل ہیں، جن کی مدد سے عصر حاضر کا استاد اپنے نئے زمانے کی تعلیم کو بہتر بنا سکتا ہے۔

بعض تعلیمی ادارے ماہرین کمپیوٹر اور گرافکس و اینیمیشن کی مدد کے ساتھ کتابوں کے روایتی سائنسی، سماجی علوم اور ریاضی کے اسباق کو معیاری بنارہے ہیں۔ طلبا کو خصوصی انٹرنیٹ پروگرام کے ذریعے تعلیم کے علاوہ کسی موضوع پر پہلے سے دستیاب سی ڈی کا پروگرام دکھاتے ہوئے بھی تعلیم دی جاسکتی ہے۔ آج کل کتابوں کی دکانوں میں چھوٹے بچوں کے لئے نظموں کے سی ڈی،انگریزی بول چال سیکھنے کی سی ڈی ،وائیلڈ لائف سی ڈی وغیرہ دستیاب ہیں۔

جن طلبا کو کمپیوٹر پر ٹائپنگ آتی ہو وہ کوئی سبق ٹائپ بھی کر سکتے ہیں۔ بعض طلباء کو ڈرائینگ میں دلچسپی ہوتی ہے۔ ان طلباء کو پینٹنگ اور ڈرائینگ میں ماہر بنانے کے لئے کمپیوٹر کے ورڈ آرٹ سافٹ ویر سے مدد لی جا سکتی ہے۔ کالج کی سطح پر لائبریری کو بھی عصر حاضر کی ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ 

اگر لائبریری میں مختلف موضوعات کے سی ڈی ہوں اور کوئی طالب علم لائبریری میں بیٹھ کر کمپیوٹر کی مدد سے وہ سی ڈی دیکھ سکتا ہو تو اس کے علم میں اضافہ ہوتا ہے اس طرح طلبا کی صلاحیتوں کو ٹیکنالوجی کومنفی رجحانات کے بجائے مثبت رجحانات کی جانب موڑا جا سکتا ہے۔ انٹرنیٹ کی بڑھتی مقبولیت اور اس کی عام آدمی تک رسائی سے بہت سی سہولتیں عام ہوگئی ہیں۔ آج آن لائن کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔

آج کل ایسے رائٹنگ پیڈ بھی دستیاب ہیں جن کی مدد سے اسکرین پر قلم کی طرح لکھا بھی جاتا ہے۔ اس طرح آؤٹ سورسنگ اور آن لائن کی بدولت ہر طرح کی تعلیم گھر بیٹھے ممکن ہوگئی ہے۔ طلبا ای کتب کی مدد سے یا انٹرنیشنل لائبریری سے بہ ذریعے انٹر نیٹ دنیا کے کسی بھی کتب خانے کی لائبریر ی سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ کالج کے طلبا کو مسابقتی امتحانوں کی تیاری میں بھی انٹرنیٹ سے مدد ملتی ہے اور سابقہ امتحانوں کے پرچے اور امتحان کی تیاری کا مواد نیٹ سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ 

تدریس کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے۔ کالج کے اساتذہ کو کمپیوٹر کی مہارت کا حامل ہونا ضروری ہے ۔کالج کے بعد ایک طالب علم کے لئے حصو ل علم کا ایک بڑا موقع یونیورسٹی کی تعلیم ہوتی ہے، جہاں پوسٹ گریجویشن کے بعد ریسرچ کے مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی کے پروفیسر کے لئے ضروری ہے کہ وہ پاور پوائینٹ کے ذریعے تدریس کے ماہر ہو، وہ پاور پوائنٹ سہولت کی سے مختلف معلوماتی سلائیڈز کی مدد سے اپنے سبق کو بہتر دلچسپ اور عصر حاضر کے تقاضوں سے متعلق ہم آہنگ کر سکتا ہے۔ 

سائنس کے مضامین ہوں کہ کوئی اور مضمون جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اسے بہتر طور پر سمجھایا جا سکتا ہے۔ ای کلاس کے لئے اسباق کی تیاری ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ اسے گھر بیٹھے تیار کرنا سب کے بس کی بات نہیں۔ اور اگر ایک معیاری سبق تیار ہو تو قومی سطح پر اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ کالج کی سطح پر لائبریری کو بھی عصر حاضر کی ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔

ایک طرف جہاں تعلیمی معیار کو زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جارہا ہے وہیں انتظامی امور کے لئے بھی تعلیمی ادارے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں۔ اسکول کی سطح پر ایسا سافٹ ویراستعمال کیا جارہا ہے۔ جس کی مدد سے طالب علم کے داخلے سے لے کر اس کے اسکول چھوڑنے تک تمام ریکارڈ ایک داخلہ نمبر کے ساتھ محفوظ ہوتا ہے۔ طلبا کے پروگریس کارڈ اور امتحانی پرچے اور ماڈل پیپر وغیرہ بھی کمپیوٹر کی مدد سے تیار کئے جارہے ہیں۔ 

ہائی اسکول اور کالج کی سطح پراس قسم کے سافٹ ویر استعمال ہورہے ہیں اور بڑے بڑے تعلیمی ادارے اور بورڈ بچوں کے نشانات کے میمو اور تعلیمی اسنادات کمپیوٹر کی مدد سے تیار کر رہے ہیں۔ طلباء کے لئے آن لائین داخلوں کی کونسلنگ ہورہی ہے۔ فیس کا ادخال کور بینکنگ کے ذریعے ہورہا ہے۔ اور طلبا کے ہال ٹکٹ اور او ایم آر بار کوڈ شیٹ بھی کمپیوٹر کی مدد سے تیار کئے جارہے ہیں۔ امتحانات کے بعد نتائج کا اعلان اور مزید کا روائی بھی کمپیوٹر اور آن لائن ٹیکنالوجی کی مدد سے ہورہی ہے۔ 

بعض تعلیمی ادارے اپنے اسٹاف میں وقت کی پابندی اور ڈسپلن لانے کے لئے پنچ کارڈ سسٹم شروع کئے ہیں۔ جس میں ملازمین کی دفتر میں آمد اور روانگی کا ٹائم محفوظ ہوجاتا ہے۔ پرنسپل اور ہیڈ ماسٹر سی سی کیمروں کی مدد سے اسکول اور کالج کے انتظامی امور پر نظر رکھتے ہیں۔ زیراکس مشین، فیاکس مشین ،اسکانر،اور دیگر آلات بھی تعلیمی اداروں میں کام کی رفتار اور معیار میں فرق پیدا کرتے ہیں۔

ہمیں جدید طرز تعلیم کو اپنانا ہوگا اور کمپیوٹر، پروجیکٹرز، کا استعمال لازم کرنا ہوگا۔ طالبہ و طالبات کو انٹرنیٹ اور سیل فونز کے ذریعے روزمرہ معاملات میں رہنمائی مہیا کرنی ہوگی۔ ایک ایسا ورچوئل ایجوکیشن سسٹم بنانا ہوگا جس کے ساتھ طالب علم ہمہ وقت رابطے میں رہیں اور مسلسل رہنمائی حاصل کریں۔

مجموعی طور پر تعلیم کے فروغ میں ٹیکنالوجی اہم رول ادا کر رہی ہے لیکن روایتی طریقہ تعلیم بھی اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے دونوں میں توازن کی برقرار رکھنا وقت کا اہم تقاضہ ہے۔