شہر میں جنگل کا قانون ہے۔ بے لگام ڈاکو راج شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔پولیس کی کالی بھیڑوں کی سرپرستی سے منشیات فروش بےقابو ہیں۔کراچی میں منشیات فروشی کے کاروبار نے سابقہ بھی ریکارڈ توڑدیا۔ شہرمیں کُھلے عام منشیات کی خریدو فروخت جارہی ہے، ظالم منشیات فروشوں نے مستقبل کے معماروں کی زندگیاں برباد کردی ہیں۔ نئی نسلیں تباہ کی جارہی ہیں۔
اسکول، کالج حتی کہ یونی ورسٹیوں کے طلباء میں منشیات کا زہر گھولا جارہا ہے، لیکن کوئی روکنے والا نہیں ہے، منشیات فروش دندناتے پھر رہے ہیں، کیا پولیس کے اعلی افسران کو معلوم نہیں ہے کہ کن تھانے داروکی سرپرستی میں منشیات فروخت کی جاتی ہے ۔ اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہے کہ پولیس کا نچلا عملہ ہی یومیہ بنیاد پر شہر میں جرائم پیشہ افراد سے جنگ لڑتا ہے، جس کے نتیجے میں پولیس کے کئی جوان شہید بھی ہوئے۔ شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید اختر اھوڈوکے کندھوں پر بوجھ لادا گیا ہے، جسے اٹھانے میں وہ مکمل ناکام ہو چکےہیں،ان کی فوری تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے۔
دوسری جانب شہر میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے، قانون کی رِٹ کہیں نظر نہ آنے کے باعث خوفزدہ اور ذہنی اذیت کا شکار عوام نے بھی تنگ آکرسیلف ڈیفنس میں ہتھیاراٹھا لیے ۔ ڈاکو مار بھی رہے ہیں اور خود بھی جان سے جا رہے ہیں ۔کراچی پولیس جرائم کی وارداتوں پرقابو پانے میں یکسر ناکام ہو چکی ہے۔ آئی جی سندھ اور کراچی پولیس چیف اسٹریٹ کرائمزپر قابو پانے کے لیے اعلی سطح کے اجلاسوں پر اجلاس کررہے ہیں ، نتیجہ صفر ہے، اجلاسوں کا یہ سلسلہ دراز ہو کرزونل ڈی آئی جیز،ضلعی ایس ایس پیز، ایس ڈی پی اوز کے بعد علاقوں کے تھانے داروں پر اختتام پذیرہوتا ہے، جس کے نتیجے میں قربانی تھانے دارکو ہی دینا پڑتی ہے۔
شہری حلقوں کا کہنا ہے جرائم کو کنٹرول کرنے میں ناکامی پرکبھی کسی ڈی آئی جی، ایس ایس پی یا ایس ڈی پی اوکو معطل ہوتے نہیں دیکھا گیا، یہ المیے سے کم نہیں ہے۔رواں ماہ کے دوران ڈاکو اور لٹیروں نے ذرا سی مزاحمت پر درجنوں بے گناہ مائی کے لال ،خاندان کے واحد کفیلوں کو والدین کے سامنے گولیوں کا نشانہ بنا کرہنستے بستے گھروں میں کہرام بر پا کردیا۔ کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں ریکارڈ اضافے کے حوالے سے جاری کردہ سی پی ایل سی نے اعداد و شمار رپورٹ کے مطابق رواں سال 8 ماہ کے دوران 58ہزار وارداتیں رپورٹ ہوئیں اور 8100 سے زائد شہریوں کو اسلحہ کے زور پر لُوٹ لیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق صرف ماہ ستمبر میں 12 شہری دوران ڈکیتی مزاحمت پر قتل اور 20 سے زائد زخمی ہوئے، جب کہ رواں سال دوران ڈکیتی کی وارداتوں میں مزاحمت کرنے پر 71 شہری قتل اور 300 سے زائد زخمی ہوئے۔رواں ماہ شہریوں نے10سے زائد ڈکووں رنگےہاتھوں کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا۔ایڈیشنل آئی جی کےمطابق اسٹریٹ کرائمزپر قابو پانے کے لیے شاہین فورس بھی شہر میں تعینات کردی گئی۔ حالیہ دِنوں میں میڈیا میں کراچی پولیس چیف جاوید اختر اوھوڈو کے ایک مضحکہ خیزدعویٰ کی بھی گونج سنی گئی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ لاہور حتی کہ بیرون ممالک کی نسبت کراچی میں جرائم کی شرح کم ہے، نے سوالیہ نشان لگا دیا۔
گزشتہ دنوں ایڈیشنل آئی جی کراچی نےاسٹریٹ کرائمز پر قابو پانے کے لیے شاہین فورس بنانےکی نوید سنائی ہے ،واضح رہے کہ قبل ازیں بھی سابق کراچی پولیس نےانٹی اسٹریٹ فورس بنائی تھی، ان کا یہ تجربہ ناکام ہوا تھا۔ سوال یہ پیدا ہو تا ہے۔ ایس ایس یو فورس کیا صرف اعلی سیاسی شخصیات کی حفاظت کے لیے بنائی گئی ہے ،کیا یہ لوگ لاکھوں روپے ٹیکس ادا کرنے والے کراچی کے شہریوں سے بڑھ کر ہیں ؟ ہر شہری آئی جی سندھ سے یہ سوال کرنے میں حق بہ جانب ہیں کہ پروٹوکول کے حصار میں ٹھنڈی گاڑیوں سے ٹھنڈے کمروں کا مزا لینے والے وہ ڈی آئی جی ، ایس ایس پیزجوجرائم کو قابو کر نے میں ناکام ہیں اور جن کی پشت پر بااثر سیاستدان، وزیر اور مشیرہیں، انہیں تبدیل کیوں نہیں کیا جاتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ بڑھتی ہوئی ڈکیتیاں ،اسٹریٹ کرائمز کو کنٹرول کر نے کے لیے سیف سٹی پروجیکٹ کا آغاز اب ناگزیر ہو چکا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے شہر میں بہت جلد سیف سٹی پروجیکٹ کے آغاز کا اعلان صرف دعویٰ ہی ثابت ہوا۔ طویل عرصے سے التوا کا شکار سیف سٹی پروجیکٹ کے لیے کراچی پولیس کے بااثرڈی آئی جی سیکیورٹی اینڈ ایمرجنسی سروسز ڈویژن مقصود میمن کو پروجیکٹ کا ڈی جی مقرر کیا تھا ،انھوں نے اس حوالے سے سرکاری خرچ پر استنبول کا ورہ بھی کیا تھا ، لیکن سیف سٹی پروجیکٹ تاحال کاغذات اور بیرون ملک دوروں تک ہی محدود ہے ۔ وزیراعلیٰ اور وزیرداخلہ سندھ مراد علی شاہ کو اس جانب توجہ دے کر اسے فوری طور پر آپریشنل کرنا ہوگا جو وقت کی اہم ضرورت بھی ہے۔
اب بات ہو جائے، ڈاکوؤں کو مارنے اور مرنے کی توسہراب گوٹھ تھانے کی حدود نیوکراچی، ایوب گوٹھ ندی مین چوک کے قریب لوٹ مار کےدوران مزاحمت پر ڈاکوؤں کی فائرنگ سے شہری 35سالہ شاہد نواز ولد نور غنی کو زخمی کر دیا ، جب کہ زخمی شہری شاہد نواز کی فائرنگ سے ایک نامعلوم ڈاکوہلاک ہو گیا، اطلاع ملنے پولیس نےموقع پر پہنچ کر2ڈاکووں کلیم اللہ اور رضی اللہ کو گرفتار کرکے2پستول اور موٹر سائیکل بر آمد کر لی ۔ایڈیشنل آئی جی کراچی نےشہری شاہد نواز کے لیے 50ہزار روپے انعام کا اعلان کیا ہے، جو کراچی پولیس کی ناکامی کا ثبوت اور اس بات کی غمازی کر تا ہے کہ شہری ڈاکوؤں کے سد باب کے لیےخود ہی ہتھیاراٹھالیں، یہ کسی المیے سے کم نہیں ہو گا۔
دوسری جانب پولیس کے اعلی افسران کے میرٹ پرایس ایچ اوز کی تعیناتیوں کے بلند و بانگ دعوؤں کی ضلع جنوبی کے حساس ترین تھانےسول لائن میں شہریوں کو اغوا کر کے حبس بیجا میں رکھ کر تشدد کا نشانے بنانے کےمقدمےمیں نامزد ملزم کی بہ طور ایس ایچ او تعیناتی نے پول کھول دی ۔ باخبرذرائع کےمطابق پولیس حکام کی جانب سے سول لائن تھانے میں ایک ایسے ایچ او کو تعینات کیا گیا ہے، جس پر شاہ لطیف ٹائون تھانے میں فدا اور عدیل نامی شہریوں کو مبینہ طور پر اغوا کر کے حبس بیجا میں رکھ کر تشدد کرنے کے الزام کے تحت مقدمہ درج ہے۔
اسرار برڑو نامی پولیس افسر نے شہریوں کو مبینہ اغواء کیا تھا، جس پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملیر کے حکم پر جوڈیشل مجسٹریٹ نے شاہ لطیف ٹائون تھانے پر چھاپہ مارا تھا۔ تاہم شہریوں کی عدم بازیابی پر مدعی دانش ارشد ولد محمد ارشد نے عدالت میں پولیس کی غیر قانونی حراست میں رکھے گئے، شہریوں کی وہ ویڈیو پیش کی جو مدعی نے اپنے موبائل فون سے بنائی تھی، بعد ازاں عدالت نے فوری طور پر مغویوں کی بازیابی کا حکم دیا، تاہم مجسٹریٹ نے چھاپہ مار کر دونوں مغوی شہریوں کو بازیاب کرا لیا۔
عدالت کے حکم پر دونوں مغوی شہریوں کا جناح اسپتال سے میڈیکل معائنہ کرایا گیا اور میڈیکل رپورٹ میں پولیس تشدد ثابت ہوا، جس پر ڈسٹرکٹ سیشن جج ملیر کے حکم سے مذکورہ افسر سمیت دیگر پرائیویٹ پارٹی کے خلاف سنگین نوعیت کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا،تاہم مذکورہ افسر کے خلاف مقدمے کے اندراج کے عدالتی حکم کے بعد ملزمان اپنا سامان سمیٹ کر تھانے سے فرار ہوگئے۔ملزم ایس ایچ او اسرار برڑو نے عدالت میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دی، جوعدالت کی جانب سے برخواست کر دی گئی، تاہم ملزم نے دوبارہ چالان جمع ہونے کے بعد ضمانت کی درخواست داخل کی جو تاحال زیر سماعت ہے۔
اس کےباوجود ملزم کو کراچی کے ضلع جنوبی کے سول لائن تھانے کا ایس ایچ او تعینات کر دیا گیا، جس سے کراچی پولیس کے اعلی افسران کی کارکردگی اور محکمہ پولیس میں خود احتسابی کے عمل اور میرٹ پر تعیناتیوں کے بلند و بانگ دعوؤں پر بھی سوالات اٹھنا شروع ہو گئے۔نیوکراچی 5ای کے رہائشی متاثرہ شہری زبیر صدیقی کے مطابق رات گئے 4سادہ لباس افراد دیواریں کُود کر میرے گھر میں آگئے اور پُورے گھر کاسامان الٹ پلٹ دیا، بعدازاں بغیر وری والے چاروں افراد مجھے خواجہ اجمیر نگری تھانے کی بلائی منزل پر بنے سیل میں لے گئے اور مجھ پر بدترین تشدد کیا، پولیس والے بار باریہ بھی کہہ رہے تھے، تم اپنی بیوی کو بلائو، تو تمھیں چھوڑ دیں گے، ان اہل کاروں نے میری جیب سے 8ہزار روپے بھی نکال لیے اورمیرے گھر سے مزید 10ہزار روپے منگوانے کے بعد مجھے چھوڑدیا۔
پولیس میں بھرتی کے خواہش مند وں کو مبینہ طور پر خاتون پولیس افسران کے ساتھ مل کر لُوٹنے والےمنظم گروہ کا انکشاف ہوا ہے، شہر میں جعل سازی کے مکروہ دھندے کا شکار ہونے والےمتاثرین نے خاتون پولیس افسران پر مبینہ الزام عائد کرتے ہوئے آئی جی سندھ اور کراچی پولیس سے اپیل کی ہے کہ واقعے کی فوری تحقیقات کر کےلوٹی گئی رقم واپس دلانے کی درخواست کی ہے۔