• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹرانس جینڈرر بل کی بعض شقیں اسلامی تعلیمات سے متصادم ہیں، پروفیسر مسعود ہزاروی

لوٹن( شہزاد علی) برطانیہ کے ممتاز عالم دین، ڈائریکٹر الحرا ایجوکیشنل اینڈ کلچرل سنٹر اور مسجد لوٹن کے خطیب پروفیسر مسعود اختر ہزاروی نے پروٹیکشن آف رائٹس ایکٹ 2018 کو جسے عام طور پر ’’ٹرانس جینڈر ایکٹ‘‘کہا جاتا ہے پر اپنے سخت خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا ہے انہوں نے بتایا کہ مذکورہ قانون 2018 میں پاس ہوا تھا اور اس کے حق میں اس وقت کی حکومت اور حزب اختلاف دونوں نے اتفاق رائے سے ووٹ دیا تھا البتہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے اس کی بھر پور مخالفت کی تھی اور قابل ذکر اکثریت نے اس وقت کسی نے اس بل خامیوں کی طرف توجہ نہیں دی تھی مگر جب یہ قانون عدالت میں چیلنج ہوا تو پھر حقائق سامنے آئے انہوں نے کہا کہ یہ بل بظاہر خواجہ سرائوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے بنایا گیا ہے مگر بل میں خواجہ سراؤں کو جتنے بھی حقوق دئے گئے ہیں ان پر تو کسی کو اعتراض نہیں لیکن بل کے بعض پہلو کافی تشویش ناک ہیں کیونکہ اس بل کے چیپٹر نمبر دو کی شق نمبر تین کی ذیلی شق نمبر دو اسلامی تعلیمات سے متصادم ہیں جس وجہ سے مذہبی حلقوں کا پرزور مطالبہ ہے کہ اس بل میں ضروری ترامیم کی جائیں ورنہ یہ بل شریعت سے متصادم سمجھا جائے گا پروفیسر مسعود اختر ہزاروی نے کہا کہ افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان کا ایک نام نہاد لبرل طبقہ کو اس بل میں کوئی شق خلاف شریعت دکھائی نہیں دیتی اور جس حالت میں یہ بل پاس ہوا ہے وہ اس کو اصل شکل میں نافذ العمل دیکھنے کے لیے متحرک ہیں جبکہ اس بل میں ایک اہم نکتہ یہ بھی قابل غور ہے کہ کوئی بھی 18 سال سے زائد عمر کا مرد یا عورت نادرا آفس جا کر اپنے آپ کو ٹرانسجنڈر ظاہر کرکے مرد سے عورت یا عورت سے مرد میں جنس تبدیلی کی درخواست دے تونادرا دستاویزات میں اس کی جنس تبدیلی کا پابند ہوگا۔ نادرا اس کی پیدائشی ریکارڈ میں پہلے سے لکھی گئی جنس تبدیل کرنے کا پابند ہوگا۔ اگر ایک پیدائشی مرد ہے، وہ کسی مرد سے ہی شادی کرنا چاہتا ہے۔ وہ آسانی سے اپنے آپ کو عورت لکھوا کر شادی رجسٹریشن کروا سکتا ہے۔ اسی طرح صنف مخالف بھی یہی کچھ کر سکتی ہے۔ اس سے جائداد کے معاملات، عورتوں مردوں کے میل جول کے معاملات میں بہت سی قباحتیں جنم لیں گی تاہم اس حوالے میڈیکل رپورٹ کو لازم قرار دے دیا جائے تو مسئلہ کافی حد تک حل ہو سکتا ہے۔ موجودہ قانون میں صرف کپڑے اور شکل و صورت بظاہر تبدیل کر کے جو چاہے بنے، مرد عورت اور عورت مرد، نادرا ان کی خواہش ماننے کا پابند ہے جب کہ طبی لحاظ سے خواہ اس کی جنس تبدیل نہ بھی ہوئی ہو۔ بظاہر خواجہ سراؤں کے حقوق کی آڑ میں یہ Gays اور Lesbians کا قانونی رستہ ہموار کرنے کی بھونڈی کوشش ہے۔ اس سے وہ بآسانی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یوکے میں 2004 میں جنسی تعین کے ایکٹ میں طبی معائنے اور طبی سرٹیفکیٹ کو لازمی کیا گیا ہے جب کہ پاکستان جینڈر ایکٹ 2018 کے لحاظ سے کسی میڈیکل بورڈ کی رائے کے بغیر مرد سے عورت یا عورت سے مرد بننے اور تبدیلی جنس کا آپریشن کرانے کی کھلی چھٹی ہے۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ ہم مغرب سے بھی دو قدم آگے لبرل بننے کی دوڑ میں ہیں۔ ہم جنسوں کی عالمی تنظیم کی جانب سے اس قانون کی حمایت میں لابنگ اس بات کا ثبوت ہے کہ طاقت ور حلقے ان این جی اوز سے نہ صرف متاثر ہیں بلکہ ڈالرز کی چکاچوند سے ان کی آنکھیں چندھیا گئی ہیں۔ اصل اعتراض مسودہ چیپٹر 2 کے سیکشن 3 کی سب سیکشن 3 اور 4 پر ہے جہاں 18 سال کی عمر کے بعد خواجہ سراؤں کو نام کی تبدیلی اور اپنی مرضی سے جنس کی تبدیلی لکھوانے کی اجازت دی کی گئی ہے، انہوں نے کہا کہ اس سارے قانون میں ایک نکتہ قابل غور ہے کہ کوئی بھی 18 سال سے زائد عمر کا مرد یا عورت نادرا آفس جا کر اپنے آپ کو ٹرانسجینڈر ظاہر کرکے مرد سے عورت یا عورت سے مرد میں جنس تبدیلی کی درخواست دے تونادرا دستاویزات میں اس کی جنس تبدیلی کا پابند ہوگا۔ نادرا اس کی پیدائشی ریکارڈ میں پہلے سے لکھی گئی جنس تبدیل کرنے کا پابند ہوگا۔ اگر ایک پیدائشی مرد ہے، وہ کسی مرد سے ہی شادی کرنا چاہتا ہے۔ وہ آسانی سے اپنے آپ کو عورت لکھوا کر شادی رجسٹریشن کروا سکتا ہے۔ اسی طرح صنف مخالف بھی یہی کچھ کر سکتی ہے۔ اس سے جائداد کے معاملات، عورتوں مردوں کے میل جول کے معاملات میں بہت سی قباحتیں جنم لیں گی۔اس میں میڈیکل ریورٹ کو لازم قرار دے دیا جائے تو مسئلہ کافی حد تک حل ہو سکتا ہے۔ موجودہ قانون میں صرف کپڑے اور شکل و صورت بظاہر تبدیل کر کے جو چاہے بنے، مرد عورت اور عورت مرد۔ نادرا ان کی خواہش ماننے کا پابند ہے۔ جبکہ طبی لحاظ سے خواہ اس کی جنس تبدیل نہ بھی ہوئی ہو۔ بظاہر خواجہ سراؤں کے حقوق کی آڑ میں یہ Gays اور Lesbians کا قانونی رستہ ہموار کرنے کی بھونڈی کوشش ہے۔ اس سے وہ بآسانی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس بل کے حوالے سے بڑی چالاکی کے ساتھ یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ یہ قوانین تو خواجہ سراوؤں کے حقوق کے تحفظ کیلئے بنائے جا رہے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس سے تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالا گیا اور ایسے لوگوں کو ان کی کمیونٹی میں شامل کرنے کی کوشش ہورہی ہے جو دراصل ان کا حصہ نہیں ہیں۔ اس بل کی شق نمبر 3 اور اس کی ذیلی شق نمبر 2 کے ذریعے انتہائی خطرناک قانون سازی کی گئی ہے جس میں یہ کہا گیا کہ کسی بھی ٹرانس جنڈر شخص کی جنس کا تعین اس کی اپنی مرضی کے مطابق ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ کوئی مرد اٹھے اوراعلان کر دے کہ مجھ میں تو عورت والی حسیات پیدا ہو چکی ہیں لہٰذا آج سے مجھے عورت سمجھا جائے تو نہ صرف اس کے دعوے کو قبول کیا جائے گا بلکہ اس کے مطابق اس کو دستاویزات یعنی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ بھی جاری کیے جائیں گے۔ اسی طرح اگر کوئی خاتون یہ دعویٰ کرے کہ مجھے مرد کی کیفیات بدن میں محسوس ہو رہی ہیں تو اس کو اس کے دعوے کے مطابق مرد سمجھا جائے گا اور اسے مردوں کی صنف کے مطابق شناختی دستاویزات جاری کر دی جائیں گی۔اس عمل میں نہ تو میڈیکل بورڈ کی پابندی عائد کی گئی اور نہ اس کے نفسیاتی معائنے کی شرط رکھی گئی۔ پروفیسر مسعود اختر ہزاروی نے کہا کہ انسانی جسم کے حوالے سے قرآن کریم کا بڑا واضح حکم ہے کہ کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے جسم میں ایسی تبدیلیاں پیدا کرے کہ جس سے اس کی ساخت تبدیل ہو جائے کیوں کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق انسان اپنے جسم کا خود مالک نہیں بلکہ یہ اس کے پاس اللہ تعالی کی عطا کی ہوئی امانت ہے اور وہ اس امانت میں اللہ کی طرف سے طے کردہ اصولوں کے مطابق ہی تصرف کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”میرا جسم میری مرضی“والے طبقے کی خوشنودی کیلئے مذکورہ قانون کے تحت ایک سنگین فتنے کا راستہ کھول دیا گیا ہے جس کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں رکھی گئی۔ انہوں نے کہا قانون کا اصل متن پڑھ لیں۔ اس میں 18سال کے بعد کسی بھی مرد و عورت کو از خود جنس تبدیلی کا اختیار دے دیا گیا جبکہ پہلے وہ نارمل مرد یا عورت کے طور پر نادرا میں رجسٹرڈ تھا۔ ٹرانسجنڈر بنے گا ہی تب جب جنس تبدیل کا خود ہی اپنی حسیات کے مطابق فیصلہ کرے گا لیکن پہلے ہی ٹرانسجنڈر کا لفظ قانون میں لکھ کر مسئلہ پیدا کیا گیا ہے اس قانون کے نتیجے میں ہزارہا لوگوں نے ابھی تک جنس تبدیل کی جبکہ وہ خواجہ سرا نہیں ہیں، رہی بات خواجہ سراؤں کی تو وہ بھی اس قانون کے خلاف بر سرپیکار ہیں کہ ہزارہا مردوں عورتوں نے اپنے آپ کو خواجہ سرا ظاہر کر کے ہمارے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے، اگر فوری طور پر اس قانون میں ترامیم نہ کی گئیں تو ایک بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے، پروفیسر مسعود اختر ہزاروی نے آخر میں کہا کہ پاکستان کے دیندار حلقوں کو اس بل پر بروقت آواز بلند کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔

یورپ سے سے مزید