• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احتساب عدالت کے فیصلے سے واضح تھا اسلام آباد ہائیکورٹ یہ فیصلہ سنائے گی

اسلام آباد (انصار عباسی) اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ایوین فیلڈ کیس میں مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو بری کرنے کا فیصلہ احتساب عدالت کی جانب سے انہیں سنائی گئی سزا کے پہلے دن سے واضح تھا۔

احتساب عدالت کے فیصلے کے فوراً بعد دی نیوز نے ہی 8؍ جولائی 2018 کو سنائے گئے عدالتی فیصلے میں خامیوں اور غلطیوں کی نشاندہی پر صفحہ اول خبر شائع کی تھی۔

اِس خبر میں بتایا گیا تھا کہ بظاہر احتساب عدالت اسلام آباد کے جج محمد بشیر نے نواز شریف اور دیگر کو ہچکچاتے ہوئے سزا سنائی ہے۔ خبر میں مزید بتایا گیا تھا کہ عدالت نے سابق وزیر اعظم اور دیگر کو ایوین فیلڈ کی جائیداد کرپشن، بے ایمانی یا غیر قانونی طریقوں سے حاصل کرنے کے الزام سے بری کر دیا۔

 اس کا مطلب یہ ہے کہ جج نے نواز شریف کو لندن فلیٹس کرپشن، کک بیکس یا کمیشن کے پیسوں سے خریدنے سے بری کر دیا ہے۔ احتساب عدالت کے فیصلے میں خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ نواز شریف یہ نہیں بتا سکے کہ انہوں نے لندن فلیٹس کیسے خریدے۔

 یہ جواب دینے میں ناکامی پر انہیں مجرم قرار دیا گیا ہے۔ تاہم، یہ فیصلہ سناتے ہوئے احتساب جج محمد بشیر نے ٹھوس شواہد پر انحصار کرنے کی بجائے قیاس آرائیوں یا پھر قرائنی شہادت پر بھروسہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ نواز شریف ہی لندن فلیٹس کے اصل مالک ہیں۔

خبر میں مزید بتایا گیا تھا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ احتساب عدالت نے اپنے فیصلے میں نہ صرف یہ تسلیم کیا کہ متعلقہ دستاویزات کی عدم موجودگی میں ایوین فیلڈ فلیٹس کی ملکیت کا تعین مشکل ہے بلکہ یہ بھی واضح کیا کہ وہ استغاثہ کے اس قیاس پر انحصار کر رہی ہے کہ نواز شریف ہی فلیٹس کے مالک ہیں۔

احتساب عدالت کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ نواز شریف لندن فلیٹس کے اصل مالک ہیں کیونکہ استغاثہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا کہ شریف خاندان ان اپارٹمنٹس میں 90 کی دہائی سے رہائش پذیر ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ʼفیصلے کے آپریٹو حصے کے مطابق، نواز شریف کے بچے 90 کی دہائی کے اوائل میں مالی لحاظ سے مستحکم نہیں تھے اور ان کے پاس یہ فلیٹس خریدنے کیلئے کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ تاہم اسی دور میں ملزم نمبر 1 نواز شریف اور ان کے والد مذکورہ اپارٹمنٹس میں رہائش پذیر تھے۔ اس طرح استغاثہ اس مفروضے کی بنیاد پر یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوا کہ فلیٹس کے اصل مالک نواز شریف ہیں۔

 احتساب عدالت کے فیصلے میں تسلیم کیا گیا تھا کہ ٹیکسوں سے بچنے کیلئے محفوظ سمجھے جانے والے ملکوں میں رازداری کے قوانین کی وجہ سے آف شور کمپنیوں کے ذریعے خریدی گئی جائیدادوں کے مالک کا پتہ لگانا مشکل ہے۔ مفروضے پر مبنی شواہد کی بنیاد عدالت نے پہلے تو یہ ثابت کیا کہ نواز شریف لندن فلیٹس کے مالک ہیں اور پھر ان وسائل کی وضاحت نہ کرنے پر انہیں سزا سنائی جس سے انہوں نے ایوین فیلڈ اپارٹمنٹس خریدے تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ نواز شریف نے سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی دونوں کے سامنے لندن فلیٹس کی ملکیت سے انکار کیا تھا۔ ان کے بڑے بیٹے حسین نواز خاندان کے واحد فرد تھے جو ان فلیٹس کے مالک تھے اور انہوں نے جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کے سامنے قطری خط سمیت دیگر دستاویزات پیش کیں تاکہ ان جائیدادوں کو حاصل کرنے کے اپنے ذرائع کو جواز بنایا جا سکے۔

 تاہم، حسین نواز ٹرائل کورٹ یعنی احتساب عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور اس وجہ سے انہیں مفرور قرار دیا گیا۔ احتساب عدالت نے قیاس آرائیوں کی بنیاد پر نواز شریف کو ایون فیلڈ فلیٹس کا مالک قرار دیا تھا اور انہیں یہ بتانے میں ناکامی پر سزا بھی سنائی تھی کہ یہ جائیدادیں کن ذرائع سے خریدی گئیں۔

اس وقت دی نیوز نے رپورٹ کیا تھا کہ حالانکہ احتساب عدالت نے قیاس یا حالاتی شواہد کی بنیاد پر یہ ثابت کیا تھا کہ نواز شریف لندن فلیٹس کے اصل مالک ہیں اور وہ یہ بتانے میں ناکام رہے ہیں کہ انہوں نے یہ جائیدادیں اپنے معلوم ذرائع سے خریدی تھیں تاہم اس کے باوجود بھی دیکھیں تو یہ کمزور فیصلہ ہے۔ نیب کے جس قانون کے تحت نواز شریف اور دیگر کو سزا دی گئی ہے، اسی معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں یہ قانون بے معنی ہو چکا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ احتساب عدالت کے جج نے کہا تھا کہ قومی احتساب آرڈیننس کی شق 9 اے 5 کے مطابق جرائم ثابت ہو چکے ہیں لہٰذا بار ثبوت ملزمان پر منتقل کر دیا گیا۔ تاہم، دی نیوز کی رپورٹ نے اس موضوع پر سپریم کورٹ کے ایک فیصلے (غنی الرحمان بنام نیب) کا حوالہ دیا تھا (پی ایل ڈی 2011 اور سپریم کورٹ 1144)۔

 یہ فیصلہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تحریر کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ استغاثہ کو جائیداد کا تعلق کرپشن کے ساتھ جوڑ کر دکھانا پڑے گا بصورت دیگر سزا نہیں سنائی جا سکتی۔اسی کیس میں نواز شریف کے علاوہ مریم اور صفدر کو بھی سزا سنائی گئی۔ دی نیوز کی خبر میں کہا گیا تھا کہ مجرمان کی جانب سے چیلنج کرنے کیلئے یہ اچھا فیصلہ ہے۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ ہائی کورٹ اس فیصلے کی قسمت کا کیا فیصلہ کرے گی۔

اہم خبریں سے مزید