لاہور /اسلام آباد (عمر چیمہ/نمائندہ جنگ) لاہور ہائی کورٹ نے پیر کو ایف آئی اے کی جانب سے مونس الٰہی کیخلاف درج کرائے گئے منی لانڈرنگ کے مقدمے کو خارج کر دیا۔
جسٹس اسجد جاوید نے درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کیس خارج کیا۔
قبل ازیں بینکنگ کورٹ نے مونس الٰہی اور دیگر کیخلاف منی لانڈرنگ کیس میں ایف آئی اے کی جانب سے دائر کیے گئے چالان پر 11؍ اکتوبر کے نوٹس جاری کیے تھے۔
پٹیشن میں کہا گیا تھا کہ مونس الٰہی کیخلاف ایف آئی اے کا دائر کردہ منی لانڈرنگ کا کیس سیاسی جوڑ توڑ کا نتیجہ ہے کیونکہ حکومت ان کا میڈیا ٹرائل کرنا چاہتی تھی۔
عدالت نے حتمی دلائل کیلئے دونوں فریقوں کے وکلاء کو طلب کر لیا۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ احتساب عدالت پہلے ہی انہیں کلین چٹ دے چکا ہے۔ دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے کیس خارج کر دیا۔
عدالت میں ایف آئی اے کی جانب سے جمع کرائے گئے چالان میں لکھا ہے کہ اکتوبر 2007 میں محمد نواز بھٹی نے چوہدری پرویز الٰہی کی آشیرباد سے چپراسی کی حیثیت سے سرکاری ملازمت حاصل کی۔ پرویز الٰہی اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔
ملازمت کے پہلے مہینے میں اپنے کزن مظہر عباس کے ساتھ مل کر نواز بھٹی نے رحیم یار خان شوگر مل قائم کی۔
اس وقت مظہر عباس اسٹوڈنٹ تھا۔ اگرچہ اس کاروبار کا خیال خسرو بختیار اور ہاشم جواں بخت کے بھائی مخدوم عمر شہریار نے پہلے ہی سوچ رکھا تھا لیکن انہیں این او سی کی ضرورت تھی۔ جب نواز اور مظہر پارٹنرز بن گئے تو پرویز الٰہی حکومت نے یکے بعد دیگر ے کیسز کی منظوری دیتے ہوئے انہیں مل چلانے کی اجازت دیدی۔
اس کاروبار میں نواز کا حصہ (شیئرز) 31؍ جبکہ مظہر کا 35؍ فیصد تھا۔ 2008ء میں سرمایے میں 720 ملین روپے کا اضافہ ہوا لیکن فنڈز کے ذرائع نامعلوم رہے۔
ایف آئی اے کی جانب سے عدالت میں منی لانڈرنگ کے حوالے سے پیش کردہ چالان سے معلوم ہوتا ہے کہ 2011 سے 2014 کے درمیان دونوں نے شیئرز کو بیچ باچ کے ختم کیا لیکن خرید و فروخت کے معاملات غیر واضح رہے۔
کارپوریٹ سطح پر چالاکی اختیار کردہ حکمت عملی اور ساتھ میں سطح در سطح کارپوریٹ معاملات کی وجہ سے ایک ہاتھ سے نکل کر دوسرے ہاتھ تک شیئرز جاتے رہے، پراکسیز استعمال کی گئیں اور بالآخر یہ شیئرز چوہدری مونس الٰہی اور اہل خانہ کو منتقل ہوگئے۔ مل کے اہم شیئر ہولڈر سمجھے جانے والے مظہر کو محکمہ ریونیو میں ملازمت مل گئی جبکہ نواز اب بھی چپراسی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ دونوں کون لوگ ہیں؟ دونوں افراد محمد خان بھٹی کے رشتہ دار ہیں جس کا 7؍ گریڈ سے لیکر 22 گریڈ تک کا کیریئر پرویز الٰہی کی مرہون منت ہے۔ اس وقت محمد خان بھٹی پرویز الٰہی کے پرنسپل سیکرٹری ہیں۔
منی لانڈرنگ کیس میں ایف آئی اے کی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ مونس الٰہی نے دو خاندانوں کو منی لانڈرنگ کیلئے استعمال کیا۔ اس میں اہم کردار بھٹی فیملی نے ادا کیا جبکہ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ تک سطح در سطح خریداری میں ایک اور خاندان ۔ اعوان فیملی نے بیچ کا کردار ادا کیا۔ جہاں تک بھٹی خاندان کا تعلق ہے، ساجد بھٹی کے بھائی اور ان کے دیگر رشتہ داروں نے کمال کردار ادا کیا۔ محمد خان بھٹی کا بھتیجا ساجد بھٹی پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ق کے پارلیمانی لیڈر ہیں۔
ایف آئی اے کے چالان میں ساجد کے چھوٹے بھائی واجد کو مونس کے ساتھ شریک ملزم بتایا گیا ہے۔
انہوں نے ایف آئی اے کو دھوکہ دینے اور مونس کو یہ کہہ کر بچانے کی کوشش کی کہ شوگر مل میں سرمایہ کاری ان کے والد مرحوم احمد خان بھٹی کی تھی۔ جہاں تک احمد خان بھٹی کی بات ہے تو وہ بھی پرویز الٰہی کے ملازم تھے اور انہوں نے ہی محمد خان کا تعارف گجرات کے چوہدریوں سے کرایا تھا۔ ساجد نے ایف آئی اے کو بتایا ہے کہ احمد خان نے مل میں سرمایہ کاری کیلئے نواز اور مظہر کو بطور پراکسی استعمال کیا لیکن وہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ خاندان کے پاس اس سرمایہ کاری کیلئے مطلوبہ سرمایہ موجود تھا۔
بھٹی خاندان کے ایک اور رکن قیصر اقبال ہیں، جنہیں 2019 میں اس وقت پنجاب اسمبلی میں چپراسی بھرتی کیا گیا جب پرویز الٰہی اسپیکر تھے۔ قیصر نے مونس الٰہی کی فیملی کو 239؍ ملین روپے اور ان کی زیر ملکیت کمپنیاں جنوری 2014سے جون 2021ء کے درمیان منتقل کیں۔
اسی طرح مونس کے چھوٹے بھائی رسیق الٰہی نے قیصر کے اکائونٹ میں 10.1؍ ملین روپے جمع کرائے۔
اس نے ایف آئی اے کو بتایا کہ اس نے واجد کی ہدایت پر اکائونٹس کھولے تھے اور دستخط شدہ چیک بُکس واجد کے پاس تھیں۔ واجد اور ساجد کے بھائی عابد احمد خان بھٹی نے کارپورٹ لیول پر سطح در سطح معاملات چھپانے کیلئے جعلی اکائونٹس کھولے اور اس میں 177.8؍ ملین روپے جمع کرائے۔ محمد خان بھٹی کے ایک اور رشتہ دار ساجد بھٹی نے نقد کی صورت میں 2.1؍ ملین روپے جمع کرائے۔ اب اعوان فیملی کا ذکر کرتے ہیں۔
سہیل اصغر اعوان نے 2007ء میں الائیڈ بینک چھوڑ دیا اور اس کے بعد سے مونس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
اس نے اپنے خاندان کے ارکان اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ بیچ کے لوگوں کا کام کیا تاکہ سطح در سطح معاملات چھپائے جا سکیں۔ ان میں رضا اعوان، ناصرہ رحمان، ساجد سہیل، ارم امین، سنبل رحمان اور ارشد اقبال شامل ہیں۔
آر وائی کے شوگر مل کے موجودہ سی ایف او منیر حسین اور اس کی بیوی بلقیس فاطمہ بھی اس معاملے میں ملوث ہیں۔ یہاں سے شیئرز اور فنڈز تین آف شور کمپنیوں میں منتقل کیے گئے جن کے نام سالویاتی انوسٹمنٹ لمیٹڈ، کیسکیڈ ٹیک پرائیوٹ لمیٹڈ اور ایکس کیپیٹل پرائیوٹ لمیٹڈ ہیں۔ اول الذکر نے شیئرز مونس کی ساس ماہ رخ جہانگیر کو منتقل کیے جس نے اپنی بیٹی تحریم الٰہی کو منتقل کیے۔ کیسکیڈ مونس کی ملکیت ہے اور ایکس زہرہ علی الٰہی کی۔ ایک اور شیئر ہولڈنگ کمپنی ہے جس کا نام 31 اے ایسٹیٹس لمیٹڈ ہے جو الٰہی فیملی کی ملکیت ہے۔
فیملی کی دو پاکستانی کمپنیاں آرگو ٹریکٹرز اور الطہور کو بھی سطح در سطح معاملات چھپانے کیلئے استعمال کیا گیا۔
تحقیقات سے مزید معلوم ہوتا ہے کہ درمیانے لیول پر سطح در سطح معاملات چھپانے کیلئے کیے گئے لین دین (مذکورہ بالا افراد کے درمیان شیئرز کی خرید و فروخت) جان بوجھ کر نقد صورت میں کی گئی جو غیر معمولی ہونے کے ساتھ اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ چالاکی سے کیا جانے والا کاروبار ہے جس میں سطح در سطح معاملات چھپا کر بالآخر اصل مالک کو اثاثے منتقل کیے گئے۔
بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر مونس اور فیملی کے مجموعی شیئرز کا حجم 50.82؍ فیصد ہے جبکہ 6؍ فیصد منیر حسین اور اس کی بیوی کے ہیں جنہوں نے اس معاملے میں بیچ کا کردار ادا کیا ہے۔