پاکستان میں فن پہلوانی کو فروغ دینے اور مقبول بنانے میں جو کردار بھولو برادران کا ہے وہ ہمیشہ یاد رہے گا ، انہوں نے دنیا کے کئی نامور پہلوانوں سے مقابلہ کیا جس میں انہیں کامیابی بھی ملی اور ناکامیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا، مگر معروف جاپانی ریسلر انوکی کے دورے پاکستان سے ملک میں اس کھیل کو جو پذیرائی ملی وہ کسی اور مقابلے کو نہیں مل سکی، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ انوکی سے پاکستانی قوم دل سے محبت کرتی تھی اسی لئے ان کے انتقال پر پاکستان کے میڈیا اور سوشل میڈیا پر ان کے حوالے سے جس محبت کا اظہار کیا گیا۔
وہ مثالی ہے، انوکی جاپانی عوام میں انتہائی مقبول تھے اور ان کی وفات پر حکومت اور عوام افسردہ ہیں۔ انوکی پاکستان اور پاکستانی عوام سے بہت محبت اور انسیت رکھتے تھے،79سالہ انوکی جو اسلام قبول کرنے کے بعد محمد حسین انوکی ہوگئے تھے پچھلے دنوں جاپان کے مقامی اسپتال میں انتقال کر گئے، وہ کئی روز سے جاپان کے مقامی اسپتال میں داخل تھے،وہ پیشہ ور پہلوان، مارشل آرٹسٹ، سیاست دان اور مکسڈ مارشل آرٹس کے فروغ دینے والی شخصیت تھے، انوکی 20 فروری 1943 کو پیدا ہوئے، اسلام قبول کرنے سے قبل ان کا نام انتونیو انوکی تھا،انوکی نے اپنے پیشہ ورانہ ریسلنگ کیریئر کا آغاز 1960 کی دہائی میں جاپان پرو ریسلنگ الائنس سے کیا۔ انوکی جلد ہی جاپانی پیشہ ورانہ ریسلنگ کی تاریخ کے مقبول ترین ستاروں میں سے ایک بن گئے۔
انہوں نے اپنے ریسلنگ کیرئیر کو جاپان کے سب سے زیادہ پہچانے جانے والے ایتھلیٹس میں تبدیل کردیا تھا، 1976 میں عالمی چیمپئن باکسر محمد علی کے خلاف ان کی فائٹ سے مضبوط ہوئی۔ ایک ایسی فائٹ جس نے جدید دور کے مکسڈ مارشل آرٹس کے پیشرو کے طور پر کام کیا۔ انوکی 60 کی دہائی میں جاپان کی پروفیشنل ریسلنگ کے سب سے بڑے ناموں میں سے ایک بن کر ابھرے تھے۔
جب 1976 میں اُنھوں نے باکسنگ لیجنڈ محمد علی کے ساتھ مکسڈ مارشل آرٹس مقابلے میں حصہ لیا تو اسےصدی کا سب سے بڑا مقابلہ قرار دیا گیا۔15 راؤنڈز تک جاری رہنے والا یہ مقابلہ برابر رہا تھا تاہم اسے جدید مکسڈ مارشل آرٹس کی بنیاد ڈالنے والا مقابلہ قرار دیا جاتا ہے، دسمبر 1976 میں پاکستان کے مشہور اکرم پہلوان سے مقابلے کے لیے پاکستان آئے۔ یہ مقابلہ کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ہوا جس میں انوکی نے اکرم پہلوان کو شکست دی تھی۔
اس کے بعد جون 1979 میں اکرم پہلوان کے بھتیجے جھارا پہلوان اور انوکی کے درمیان لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں مقابلہ ہوا جس میں جھارا پہلوان نے انوکی کو شکست دی۔ بعد میں انوکی جھارا پہلوان کے بھتیجے اور اسلم پہلوان کے پوتے ہارون عابد کو اپنے ساتھ جاپان لے گئے تاکہ وہ وہاں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ پہلوانی کی تربیت بھی حاصل کر سکیں۔ دسمبر 2012 میں پاکستان کا دورہ کیا جس میں وہ اپنے ساتھ کئی جاپانی پہلوانوں کو لے کر آئے جنھوں نے لاہور اور پشاور میں ریسلنگ مقابلوں میں حصہ لیا۔
اسی دورے میں لاہور میں اکرم پہلوان اور جھارا پہلوان کی قبروں پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی بھی کی تھی۔ان کے کئی مداح اکثر ان سے طمانچے کھانے کی فرمائش کیا کرتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ انوکی کا طمانچہ کھانے سے مقابلے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ان کی وفات پر ورلڈ ریسلنگ انٹرٹینمنٹ (ڈبلیو ڈبلیو ای) کے چیف کنٹینٹ افسر اور دنیا کے مشہور ترین ریسلرز نے بھی افسوس کا اظہار کیا۔ انوکی نے شمالی کوریا سے تعلق رکھنے والے اپنے اتالیق اور پروفیشنل ریسلنگ سپراسٹار ریکیڈوزان کی وجہ سے شمالی کوریا سے قریبی تعلق پیدا کر لیا تھا۔
کئی مرتبہ شمالی کوریا کے دارالحکومت پیانگ یانگ کا دورہ کیا اور اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کی تھیں۔ 1995 میں پیانگ یانگ کے مے ڈےا سٹیڈیم میں دو روزہ ریسلنگ مقابلہ منعقد کرایا جس میں ڈبلیو ڈبلیو ای کے ریسلر رِک فلیئر کو شکست دی،، ریک فلیئر کے ساتھ مقابلے کو کئی ہزار افراد نے دیکھا، جو پیشہ ورانہ ریسلنگ کی تاریخ میں سب سے زیادہ شائقین کی شرکت تھی۔
انوکی نے اپنا آخری مقابلہ 4 اپریل 1998 کو ڈان فرائی کے خلاف لڑا اور 2010 میں ہال آف فیم میں شامل ہوئے، انو کی پاک بھارت امن کے فروغ کے لیے واہگہ بارڈر پر امن واک کرنا چاہتے تھے۔ انوکی نے عراق امریکا جنگ کے دوران صدام حسین سے ذاتی تعلقات کی بنا پر درجنوں جاپانی شہریوں کو رہائی دلوائی تھی اور انہوں نے صدام حسین کی دعوت پر ہی اسلام قبول کیا، ان نام اسلامی نام محمد حسین ا نوکی رکھا گیا تھا۔ وہ اپنی وفات تک جاپانی رکن پارلیمنٹ تھے اور چار دفعہ رکن پارلیمنٹ رہے، وہ پاکستان آنے کی خواہش رکھتے تھے۔