برمنگھم (اےایف پی/ آصف محمود براہٹلوی /شہزاد علی) وزیراعظم لزٹرس نے برمنگھم میں پارٹی کی سالانہ کانفرنس میں دبائو کے تحت تاخیر کی پالیسی مستردکردی۔ لز ٹرس کو ابھی بورس جانسن کی جگہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالے صرف ایک ماہ ہوا ہے لیکن اس دوران ترقی کی رفتار بڑھانے کیلئے قرض لے کر ٹیکسوں میں کٹوتی سے متعلق انھوں نے فیصلے کے ذریعہ اپنے ووٹرز کے علاوہ مالیاتی مارکیٹ اور خود کنزرویٹو پارٹی میں بہت سوں کو ناراض اور برگشتہ کردیا ہے۔ سابق وزیر گرانٹ شیپس نے، جو پارٹی قیادت کی دوڑ میں رشی سوناک کے مقابلے میں لز ٹرس کی حمایت کررہے تھے، کہا ہے کہ اگر پارٹی کی سالانہ کانفرنس میں لز ٹرس کی تقریر کے بعد رائے عامہ میں پارٹی کے بارے میں رائے تبدیل ہونا شروع نہیں ہوئی تو انھیں عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پارٹی کی جانب سے لز ٹرس کی تقریر کا جو تجزیہ پیش کیا گیا ہے، اس کے مطابق لز ٹرس نے اس بات پر زور دیا ہے کہ جمود کو ئی آپشن نہیں ہے، درپیش چیلنجز بہت بڑے ہیں۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ اقتصادی بحران کا سبب یوکرین پر روس کے حملے اور کورونا ہے، اس لئے اب برطانیہ کو معاملات کو مختلف طریقے اور پہلوئوں سے دیکھنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ جب بھی تبدیلی آتی ہے تو کچھ گڑبڑ ضرور ہوتی ہے، ہر ایک آپ کا حامی نہیں ہوسکتا لیکن اس کے نتیجے میں معیشت میں ہونے والی ترقی اور بہتر مستقبل سے ہر ایک کو فائدہ ہوگا۔ انھوں نے بھاری ٹیکس اور شرح نمو میں کمی کے حوالے سے ایک واضح پلان کا اعلان کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ برطانیہ کو طوفان سے نکالنے اور مضبوط بنیادوں پر کھڑا کریں گے، معیشت کو ترقی دینے کیلئے منصوبہ بنالیا۔ لز ٹرس نے تنقید کرنے والوں کو، جن میں بورس جانسن کے حامی بھی شامل ہیں اور جو کہہ رہے ہیں کہ لز ٹرس کو اپنی غیر مقبول اصلاحات کے بارے میں قومی مینڈیٹ حاصل نہیں ہے، کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں بہت ٹیلنٹ ہے، ہم اس سے پوری طرح استفادہ نہیں کررہے ہیں، ایسا کرنے کیلئے میں چاہتی ہوں کہ برطانیہ آگے بڑھتا رہے، اس اہم وقت پر ہم کسی دبائو کا شکار اور تاخیر نہیں کرسکتے۔ انھوں نے کہا کہ آپ اعتماد رکھیں۔ لزٹرس کے میڈیا کو انٹرویوز اور تقریروں سے ان کے اپنے اصلاحات کے پلان پر ان کے یوٹرن کا تاثر پیدا ہوا ہے کیونکہ لز ٹرس اور چانسلر کواسی کوارٹنگ دولت مندوں کے ٹیکسوں میں کٹوتی کے فیصلے کو واپس لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔ یہ تاثر سامنے آنے کے بعد کہ اب جبکہ ملک کے غریب عوام بحران کا شکار ہیں، وزیراعظم اور چانسلر ویلفیئر بینی فٹس میں کٹوتی کرنے پر غور کررہے ہیں۔ برمنگھم میں کابینہ میں اختلاف رائے دیکھا گیا، تاہم لز ٹرس نے اس بات کی تردید کی کہ وہ کابینہ پر کنٹرول کھوچکی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم اپنے ارکان پارلیمان کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں، یہ ایک ٹیم ہے، کنزرویٹو پارٹی کی یہ ٹیم ملک کیلئے ہماری پالیسیوں کو آگے بڑھا رہی ہے اور ان سے ملک کو فائدہ ہو رہا ہے، ٹیم کا ایک معمولی سا جذبہ ہوم سیکرٹری سوئلا بریومین کی جانب سے تنقید کرنے والوں پر لز ٹرس کے خلاف بغاوت کرنے کے الزامات سے سامنے آیا ہے۔ باغیوں کے سرغنہ مائیکل گوو ہوم سیکرٹری کا اصل نشانہ تھے لیکن وہ لز ٹرس پر تنقید جاری رکھے ہوئے ہیں اور وہ اس بات پر مصر ہیں کہ کنزرویٹو پارٹی کے تمام ارکان پارلیمان بورس جانسن کی جانب سے 2019 میں بنائے گئے منشور کے تحت کامیاب ہوئے ہیں، ہمیں اس پر اعتماد کرنا چاہئے، جو بورس جانسن چاہتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ لز ٹرس کو اب برطانیہ کے ووٹرز کا خود ہی سامنا کرنا ہوگا، اس کے ساتھ ہی انھوں نے صحافیوں سے سوال کیا کہ کیا لز ٹرس اس سال کے آخر تک اپنی حکمرانی قائم رکھ سکیں گی۔ وزیر خارجہ جیمز کلیورلی نے بھی وزیر داخلہ بریومین کے خیالات سے اختلاف کیا، تاہم انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ اپنے اختلافات کابینہ میں اٹھائیں۔ انھوں نے کہا کہ پالیسی یا دیگر وزراء کے ساتھ تعلقات کے ساتھ کوئی بھی بات براہ راست وزیراعظم سے کی جانی چاہئے۔ رائے عامہ سے متعلق سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ لز ٹرس کی قیادت میں ٹوری پارٹی کی مقبولیت میں کمی ہوئی ہے اور لیبر پارٹی کی مقبولیت کی شرح 50 فیصد ہوچکی ہے۔