(گزشتہ سے پیوستہ)
حضرت ذکریاؑکے حوالہ سے اٹلی کا شہر وینس ہمارے لئے اب مقدس بن چکا تھا۔ مگر قیام کسی اور جگہ کرنا ہے۔ شام کو وینس سے پیرس جانا ہے اور پیرس (فرانس) میں ایک رات ٹھہر کر واپس ملٹن جانا ہوگا۔ وینس میں زیادہ ٹورسٹ یورپ اور امریکہ کے نظر آئے۔ کوویڈ وبا کے بعد پہلی دفعہ یورپ کے شہروںمیں سفر کرنا آسان ہوا ہے۔ چند ماہ پہلے جنوری میں جب میں روم کے ہوائی مستقر پر اترا تھا تو موسم کا فی سرد تھا اور کوویڈکی وبا کے باعث احتیاط ابھی لازمی تھی جس میں اہم چیز ویکسین تھی اور اس کا ثبوت دینا بھی لازم تھا۔ آج کے اسمارٹ فون اس معاملے میں بہت ہی آسانی فراہم کرتے ہیں۔ آپ اپنا تمام سفری ڈیٹا فون پر محفوظ کرکے اپنا سفر آسان بنا لیتے ہیں جب ہمارا پروگرام بن رہا تھا تو میں نے اپنے پروگرام کے تناظر میں اٹلی کے سفارت خانے سے ضروری معلومات لینے کے لئے فون ملایا اور میڈیا کے حوالہ سے کسی سے بات کرنے کی درخواست کی۔ شکر ہے ٹیلی فون آپریٹر نے ہماری مدد کی اور ایک صاحب سے بات کروائی۔ ان کے خیال میں ہم اٹلی کےساتھ تجارت پر معلومات لینا چاہتے ہیں، مجھے حقیقت بتانا پڑی کہ ہم لوگ ایک بین الاقوامی غیر سرکاری ادارے کی طرف سے اٹلی یاترا پر جا رہے ہیں۔ اس نے پہلے تو اپنی غلط فہمی پر اظہار افسوس کیا۔ اس کے انگریزی لہجے کی وجہ سے کچھ مشکل پیش آئی۔ میرا سوال تھا اٹلی کے دارالحکومت میں کوویڈ کی وجہ سے کتنی پابندیاں ہیں؟ اس نے ہمارے سوال کو غور سے سنا اور پوچھا کہ ہم کون سے فون سے بات کر رہے ہیں؟ مجھے کچھ عجیب سا لگا وہ بولا میں چاہتا ہوں آپ سے فیس ٹائم پر بات ہو جائے،کچھ ہی دیر کے بعد فیس ٹائم کال آگئی۔ وہ اٹلی کے سفارت خانے میں میڈیا کے شعبہ میں تھرڈ سیکرٹری تھا۔ نوجوان ،مسکراتا چہرہ ۔اس نے اردو میں اسلام علیکم کہا۔ تھوڑی تھوڑی پاکستانی آتی ہے معاف کرنا اردو بھی آتا ہے۔ میں مسکرایا۔ پھر اس نے بتایاکہ اٹلی کا دارالحکومت تو روم ہے۔ پہلے اٹلی کا دارالحکومت "TURIN" تورین تھا پھر کچھ عرصہ فلورینس FLORCEبھی رہا اب 1870 سے روم دارالحکومت ہے، کوویڈ وبا کی پابندیاں ضرور ہیں مگر آپ لوگ جا سکتے ہیں۔ یاد رہے روم کے اندر ایک اورسلطنت بھی ہے اس کا نام ویٹی کن ہے ،جو ایک روحانی ملک ہے۔ بڑا پوپ ویٹی کن شہر کا پردھان ہے۔
اٹلی کے بارے میں اس نے بہت کچھ بتایا۔ پھر مجھے کہنے لگا تمہاری حکومت بزنس کے معاملہ میں انہیں کیوں نہیں بتاتی۔ آپ کے ہاں ایک زمانے میں ویسپا سکوٹر کی بڑی دھوم تھی۔ ہماری یہ سواری ایک عرصے تک دنیا میں بہت مقبول رہی مگر اب کیا ہوا۔ میرا جوابی سوال تھا۔ ہمارے لوگوں نے کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں پلانٹ لگانے کا منصوبہ بنایا اور ایک پیپر بنا کر دیا آپ کی حکومت میں پہلے چھ سات مہینے تو یہ ہوتا رہا کہ اس تجویز پر کون سی وزارت بات چیت کر سکتی ہے۔ آپ کے دفتر خارجہ کو اس معاملے پر مدد کی درخواست کی اور طے پایا کہ خزانے کی وزارت بات چیت کرے گی۔ پہلے سال مذاکرات کے تین دور ہوئے اور فیصلہ ہوا کہ منصوبہ اچھا ہے۔ لوگوں کو روزگار بھی ملے گا اور پاکستان کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا مگر ہوا کیا۔ اٹلی کا جو گروپ سرمایہ لگا رہا تھا ان کی ملاقات کا انتظام سفارت خانے نے کیا تھا اور امید تھی کہ اس پر ایک معاہدہ ہو جائے گا۔ وزارت کے لوگوں سے ملاقات ہوتی رہی اور طے پایا کہ وزیر خزانہ سے ملاقات میں رسمی طور پر بات ہوئی اور آپ کے وزیر خزانہ نے کچھ ایسی شرائط کا ذکر کیا جو قابلِ عمل نہ تھیں۔ اس پر وزیر خزانہ نے پینترا بدلا اور کہنے لگے اس پر کابینہ کی اجازت ضروری ہے اور پھر وزیر اعظم اگر راضی ہوئے تو معاہدہ ہوگا۔ ہمارے لوگوں کو بہت مایوسی ہوئی۔ ہم نے سیکرٹری خارجہ کو ایک خط بھی لکھا مگر کوئی جواب نہ آیا۔ آپ لوگ جا رہے ہیں، اچھی بات ہے۔ اب تو بہت سے پاکستانی اٹلی میں آباد میں ہو چکے ہیں گزشتہ چند سال میں تارکین وطن لوگوں کی بڑی تعداد آ چکی ہے۔ اب تو خاصی سختی بھی ہے،پھروہ چپ ہوگیا۔ کچھ دن کے بعد جب ہم روم کے ہوائی مستقر پر اتر ے وہاں پر ہمارا سواگت اچھا ہوا زیادہ دیر قطار میں نہیں لگنا پڑا۔
ہماری پرواز شام کو 5بجے کی تھی ہم نے تین بجے ہوٹل سے سامان اٹھایا اور قریبی واٹر ٹیکسی اسٹینڈ پر آئے تو معلوم ہوا کہ ماسک لگانا لازمی ہے۔ ایک قریبی بوتھ سے ماسک لئے۔ آج کا دن بہت ہی مصروف رہا۔ ناشتے کے بعد فیصلہ ہوا کہ ہم آج وینس کےگردو نواح میں رنگوں سے آباد ایک بستی دیکھیں گے اور وہاں جانے کے لئے بھی واٹر بس یا واٹر ٹیکسی کا سہارالینا پڑے گااور ہمارا سفر تقریباً 40 منٹ کا تھا اور اس کے بعد ہماری رنگوں کی بستی تک رسائی ہوئی۔ وینس شہر کا یہ حصہ بہت قدیم سا لگا۔ تمام عمارتیں گہرے رنگوں سے رنگی ہوئی تھیں اور رنگ بھی ایسے جو جاذبِ نظر تھے۔ باقی ماحول تو عام سا تھا اور بہت سے ٹورسٹ مٹر گشت کررہے تھے رنگوں کی اس آبادی کا نام تھا (BURANO)برانو۔ یہ بھی ایک جزیرہ ہے یہ ایک تجارتی علاقہ بھی ہے اور یہاں دنیا کی بہترین "NEEDLE LACE" نیڈل لیس بنائی جاتی ہے۔ ایک اور کاروبار کے حوالہ سے یہ علاقہ شہرت رکھتا ہے۔ شیشے کی چیزیں بنانے میں ان کو کمال کا ہنر آتا ہے، ایک کارخانے میں بھی جانے کا اتفاق ہوا جو ہمارے سامنے بھٹی سے شیشہ نکالتے اور اس کو مختلف روپ دیتے ان کی فن کاری کا جواب نہیں۔ دوپہر ڈھلنے لگی تھی اور ہم واپسی کا سوچ رہے تھے۔ پھر واپسی پر ہوٹل سے سامان لیا اورواٹر ٹیکسی کے ذریعے ایئر پورٹ کے لئے روانہ ہوئے، جہاز چھوٹا سا تھا کوئی 100 مسافر ہوںگے۔ ایک گھنٹہ کے بعد پیرس چارلس ڈیگال میں تھے۔ سامان ہوٹل میں رکھا اور سوچا ایفل ٹاور جایا جائے اور شام گزاری جائے۔ پیرس کا احوال آئندہ۔ (جاری ہے)