رئیس صدیقی
عورت ہو، مرد نہیں، اپنی اوقات میں رہا کرو۔ یہ مردوں کا سماج ہے۔ عورتوں کا نہیں۔ زمانہ چاہے جتنی ترقی کرلے۔ چاہے جتنے سرکاری۔ غیر سرکاری کمیشن اور این ۔جی ۔او ز شور مچائیں، سماج ہمیشہ مردوں کا ہی رہتا ہے ! آئے دن اپنے شوہر شمیم کے اس طرح کے طعنے سنتے سنتے عارفہ کا صبر جواب دینے لگا تھا۔ شادی سے پہلے ہی وہ دہلی کے جمنا پار علاقہ میں ایک سرکاری اسکول میں اردو ٹیچر ہو گئی تھی۔
لیکن شمیم کے پاس کوئی مستقل نوکری نہیں تھی۔ وہ کسی چھوٹے سے اردو اخبار میں سب ایڈیٹر تھا۔تنخواہ بہت کم تھی لیکن عارفہ کی بھی عمر ہو رہی تھی۔ اس نے سوچا کہ چلو ہم دونوں مل کر گھر چلا لیں گے۔ لیکن شمیم نے کبھی اس کے اِس جذ بہ کا احترام نہ کیا۔
وہ ہمیشہ اس احساس کے ساتھ جیتا کہ وہ مرد ہے۔ وہ شوہر ہے۔ اس نےاپنے بڑوں کو ہمیشہ اپنی بیوی کو کم تر سمجھتے دیکھاتھا۔ وہ دلی آکر بھی اپنی ذہنیت نہ بدل سکا۔ وہ بیوی کو صرف ایک عورت سمجھتا۔ جب بھی وہ کہتا کہ تم عورت ہو۔۔۔۔۔۔
اس کے جواب میں عارفہ یہ کہنا چاہتی کہ تم کیا جانو ، عورت ہونے کے معنی ! لیکن کبھی بھی وہ یہ کہہ نہ سکی۔ ہمیشہ وہ اپنے رشتہ کی آبرو کی خاطر آنسو پی کر رہ جاتی۔
عارفہ، چائے کا کیا ہوا ؟۔۔۔
شمیم کی آواز میں کسی حاکم شوہرکا لب و لہجہ تھا۔
میری طبیعت ٹھیک نہیٍ ہے۔ خود بنا لو یا باہر جاکر پی لو۔
عارفہ نے سپاٹ سا جواب دیا۔
شمیم کو اپنی عورت سے اس طرح کے جواب کی قطعی توقع نہیں تھی۔
وہ جھنجلاتے ہوئے بولا۔
تو پھر شاید کھانا بھی باہر ہی کھانا پڑیگا !
جواب میں عارفہ کی طرف سے خاموشی تھی! کئی دن تک ، دونوں ایک دوسرے سے منھ پھلائے رہے۔ دونوں کے درمیان خاموشی حائل رہی۔ گھر میں ہر چیز بے ترتیب ادھر ادھر پڑی رہتی، میلے کپڑے، ہر طرف دھول، بدبو، منحوس سا ماحول اور گھر میں اندھیری سی خاموشی نے شمیم کو کسی حد تک توڑ دیا تھا۔ وہ ایک دن خود ہی بولا۔
تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ہے ۔ آؤ چلو ، ڈاکٹر کو دکھادیں۔
عارفہ نے اس ہمدردی پر ایک چبھتا سا سوال کیا۔
میری فکر ہے یا اپنے آپ کی یا اپنے گھر کی ؟
حاضر دماغ ،حاضر جواب، تیز طرار، لفاظ اور چرب زبان شوہر اپنی بیوی کے اس سوال کا ایماندارانہ جواب آج تک نہ دے سکا !!!