فرحی نعیم
’وہ بڑی محویت سے روسٹرم کے پیچھے کھڑی خاتون کی پر اثر گفتگو سن رہی تھی۔ وہی کیا سارے کالج کی لڑکیاں اس علمی گفتگو سے متاثر نظر آرہی تھیں جب خاتون نے شکریہ کہہ کر اپنی گفتگو ختم کی تو جیسے ایک سحر تھا جو ٹوٹا تھا۔ اس نے ان کی جادوئی شخصیت دیکھتے ہوئے ایک لمبا سانس بھرا اور جیسے اندر ہی اندر اداسی کی ایک لہر نے اس کے وجود کو اپنے حصار میں لے لیا۔ واہ کیا چہرہ ہے!کیا خدوخال ہیں! لگتا ہے فرصت سے بنایا گیا ہے ، بڑی بڑی آنکھیں ، ستواں ناک ، لمبے حسین بال!ایک ہم ہیں ، اس نے اپنے چہرے، بال اور عام سے نین نقش کو آئینہ میں غور سے دیکھا ، اور پھر دوسری نظر ڈالنا بھی پسند نہ کیا اور آئینے پر ہمیشہ کی طرح چادر ڈال دی۔
جیسے اپنے آپ کو دیکھنا بھی نہ چاہتی ہو‘‘۔’’کیا ہو جاتا اگر میرے بال بھی لمبے، ریشمی ہوتے۔میری ناک بھی کھڑی اور آنکھیں جھیل جیسی ہوتیں۔ مجھے بھی ہر موضوع کی گفتگو پر عبور ہوتا‘‘۔ اس کے ہاتھ میں اگرچہ نصابی کتاب تھی لیکن خیالوں میں وہ کہیں دور پہنچی ہوئی تھی۔ کچھ نہیں تو رنگ ہی گورا ہوجاتا۔’’ہاں کیوں نہیں، رنگت دودھ جیسی ،ہونٹ گلاب کی پنکھڑی، لیکن تم گونگی ہوتیں؟آنکھیں جھیل کیا سمندر کی مانند۔ لیکن بھینگی ہوتیں اور بال ضرور گز بھر لمبے ،لیکن سماعت کمزور ہوتی‘‘ ۔’’ارے ارے آپا…. کچھ تو رحم کھاؤ، کیوں اول فول بول رہی ہوکوئی وقت قبولیت کا بھی ہوتا ہے‘‘۔’’ اسی لیے کہہ رہی ہوں کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے ،اس پر اللہ کا شکر ادا کرو،جو کچھ اللہ نے تمیں دیا ہے ،اس پر فخر کرو، جو تمہارے پاس ہے وہ کسی کے پاس نہیں۔
جیسی صلاحیت تمہارے پاس ہے، وہ بھی ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی‘‘۔ ’’بس آپا رہنے دیں میرے پاس ہے ہی کیا، نہ میں اچھا بول سکتی ہوں، نہ لکھ سکتی ہوں، نہ ہی اپنی ہم جماعت شاعری کرسکتی ہوں ‘‘۔ مایوسی اس کے لہجے سے ہویدا تھی۔’’اس کے باوجود جو تمہارے اندر صلاحیت ہیں وہ تو میرے پاس بھی نہیں‘‘۔’’ اوہ !تو کیا میں پوچھ سکتی ہوں ، میرے پاس وہ کیا ، خوبیاں ہیں ، جن سے میں خود اب تک ناواقف ہوں‘‘ ۔ اباس کے لہجہ میں طنز نمایاں تھا ۔’’ یہی تو افسوس کا مقام ہے کہ اپنی شخصیت کے مثبت پہلوؤں سے انجان ہو۔
اسی لیے دوسروں کی قابلیت سے بڑی جلد متاثر ہو جاتی ہو ۔خیر دوسرے سے متاثر ہونا، غلط نہیں لیکن اپنے اندر یہ حسرت اور مایوسی پالنا ضرور غلط ہے۔ رشک ضرور کرو، لیکن ساتھ مثبت انداز فکر کو پروان چڑھاو‘‘۔ مجھے تو اپنے آپ میں کوئی خوبی نظر نہیں آتی۔ آپ کو نہ جانے مجھ میں کیا نظر آتا ہے‘‘۔ اب اس کی جھنجلاہٹ واضح تھی ۔’’ تم میں لوگوں کو اپنا گرویدہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ تم نرم مزاج ہو،بہت جلد دوست بنالیتی ہو، لوگوں کے راز رکھتی ہو، ان کی مدد کے لیے فوری بڑھتی ہو۔ یہ کیا کم صلاحیت ہے‘‘ آپا اسےاس کی خوبیاں گنوارہی تھیں۔ ’’یہ کون سا کمال ہے‘‘ ۔
’’میرے نزدیک تو ہے ‘‘۔ آپا نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا، اب تم نہ سمجھو تو یہ تمہاری کم فہمی ۔لوگ تو، حسن ،صورت کے دیوانے ہوتے ہیں یا پھر ایسی خوبیوں سے جو ہر ایک پر عیاں ہو ۔ کاش ہم دوسروں کی صلاحیتوں پر رشک کرنے کے ساتھ ساتھ ، اپنے آپ کو کمتر بھی نہ سمجھیں ، اللّہ نے ہر ایک کو مکمل پیدا کیا ہے ، بہت ساری خوبیوں، خامیوں کے ساتھ ، لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اس دنیا میں کوئی بھی پرفیکٹ نہیں ہوتا اور نہ ہو سکتا ہے۔
لیکن ہر شخص کو اللہ تعالیٰ نے جن نعمتوں سے نوازا ہے وہ اس سے لطف اندوز ہو،اور دوسروں کے لیے نافع بن جائے‘‘۔ بس یا کچھ او ر ،وہ اکتاسی گئی تھی۔’’کہنے کو تو بہت کچھ ہے، بس سمجھنے کی ضرورت ہے ۔اچھا ایک بات بتاؤ، ایک پانچ ہزار کے نوٹ کی تمہارے نزدیک کتنی اہمیت ہے‘‘؟بہت زیادہ اور اسی نوٹ کو میں مسل دوں ، اس پر لکیریں کھینچ دوں، کہیں سے پھٹے تو ٹیپ چپکادوں تو کیا اس نوٹ کو تم پھینک دو گی ، کیوں کہ وہ اپنی حیثیت کھو چکا یا کم تو یقیناً کر چکا ۔’’ارے واہ ، کیوں پھینک دوں گی ، نوٹ کی تو اتنی پامالی کے باوجود وقعت کم نہیں ہوتی ناں‘‘، لیکن ہمارے اس پانچ فٹ کے وجود کی اہمیت تم نہیں سمجھتیں ، بھئ ہم ، ہم ہیں، اگر کچھ کمی بھی ہے تو بھی پروا نہیں ، ہم کو خدا نے بڑی چاہت سے تخلیق کیا ہے۔
وہ اپنی ہر تخلیق سے محبت کرتا ہے ، پھر ہم اور تم کون ہوتے ہیں اس کا انکار کرنے والے ، ہمیشہ اپنے سے نیچے دیکھو، ہمیں جو بھی ملا، یہ اس سے کہیں زیادہ ہے جو ہماری اوقات تھی۔ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ پہلے اپنے آپ سے محبت کرو، اپنی عزت خود بھی کرو،اور دوسروں سے بھی کرواؤ ، ہم اہم ہیں، منفرد ہیں، ہم جہاں ہیں بالکل ٹھیک ہیں۔ نہ کمتر نہ برتر، اس مثبت سوچ کو پروان چڑھالو تو تم زندگی کی دوڑ میں بخوشی شامل رہو گی ،اتنا کہہ کر آپا مسکرائیں ۔’’ زندگی میں مشکلات بھی تو کتنی ہیں ، ہر قدم پر ایک نیا مسئلہ ‘‘۔ اس نے منہ بسورا۔’’ اگر ہم غور کریں تو یہ مشکلات بھی ہمیں مسائل سے لڑنے کے لیے تیار کرتی ہیں۔
حالات سے ڈٹ کر مقابلہ کرنا سکھاتی ہیں ‘‘۔ لیکن کمی ، کوتاہی بھی تو ہمارے اندر ہیں ۔ بالکل ہے ، لیکن کیا ضروری ہے کہ، انہی کوتاہیوں کو لے کر افسردہ رہیں، اپنی بیس فی صدکمزوری کا رونا روئیں اور اسی فی صد کامیابی کو پس پشت ڈال دیں ۔ شکوے، شکایات کی عرضی لیے اپنے بنانے والے کو ہر دم پیش کرتے رہیں۔
اگر سب خوبیوں کا مرقع ہوتے یا سب میں خامیاں ہوتیں تو دنیا میں توازن نہ ہوتا ، اس کی مصلحت کس میں پوشیدہ ہے ہم اس سے ناواقف ہیں ۔ لہٰذا اپنے آپ کو پہچانو، اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرو؟ کمال تو یہ ہے ،جو ہم اپنے کردار و گفتار میں، اپنی شخصیت میں اپنی محنت سے پیدا کرتے ہیں ۔ حسن سلوک ، حسن اخلاق ، مضبوط کردار ، عزم و حوصلے اپنےگھرانے کی کہیں نہ کہیں آئینہ دار ہوتی ہیں۔
اس آئینہ میں معمولی سی خراش ، ہلکی سی ٹھیس بھی ناقابل برداشت ہے ۔ہمیں اپنی سوچ بدلنے کی اشد ضرورت ہے،اپنے خیالات میں تبدیلی لانے کی کوشش کرو۔ سوچ بدلنے سے زندگی میں بھی بہتر بدلاؤ آتا ہے ۔اپنے آپ کو مضبوط بنائوں، انکساری کے ساتھ ،رب کا شکرادا کرو اور کبھی اپنے آپ کو کسی سے کم تر نہیں سمجھو۔