کسی بھی مُلک اور سماج کی ترقّی اور مستقبل کا دارمدار اس مُلک کے نوجوانوں کو قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے، جہاں نوجوانوں کی بڑی تعداد کو بے روزگاری سمیت تعلیم کے مساوی مواقع اور مناسب طبّی سہولتوں کی عدم فراہمی سمیت دیگر نامساعد حالات کا سامنا ہے۔ پاکستان، دُنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا مُلک ہے۔ اقوام متّحدہ کے ذیلی ادارے برائے تعمیر و ترقّی، یو این ڈی پی کے مطابق مُلک میں مجموعی آبادی کا کل 64فی صد حصہ 30برس سے کم عُمر نوجوانوں پر مشتمل ہے جب کہ ان میں 29فی صد آبادی 15سے 29برس کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔
نوجوانوں پر مشتمل اتنی بڑی آبادی رکھنے والے مُلک میں 29 فی صد نوجوان غیر تعلیم یافتہ ہیں جب کہ صرف 6 فی صد نوجوان انٹرمیڈیٹ سے آگے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ قیام پاکستان سے اب تک پاکستان میں نوجوانوں کے سب سے بڑے مسائل تعلیم اور بے روزگاری ہیں جب کہ کورونا کی وبا نے نوجوانوں کے ان مسائل میں مزید اضافہ کیا ہے اور اس بات کی تصدیق مُلک کے شماریاتی ادارے کی جاری کردہ رپورٹ سے بھی ہوتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مُلک میں بے روزگاری کی شرح میں 22 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ کورونا وبا سے قبل مُلک میں روزگار سے وابستہ افراد کی تعداد تقریباً پانچ کروڑ 57لاکھ تھی، تاہم وبا کے باعث لگنے والے لاک ڈاؤن کے نتیجے میں برسر روزگار افراد کی تعداد تقریباً تین کروڑ 50 لاکھ رہ گئی ہے۔ علاوہ ازیں لاک ڈاؤن کے دوران 37فی صد یعنی تقریباً دو کروڑ چھ لاکھ افراد بے روز گار بھی ہوئے ہیں جن میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔
سابق حکومت (تحریک انصاف) نے نوجوان نسل پر توجّہ دیتے ہوئے اپنے دَورِ اقتدار میں ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنے اور 4لاکھ افراد کو ہُنر مند بنانے کا اعلان کیا جس کے تحت اکتوبر 2019ء میں ’’کامیاب جوان پروگرام‘‘ کا افتتاح کیا۔ اس پروگرام کے تحت 10ہزار سے 2.5لاکھ روپے تک کے قرض آسان اقساط پر دیے گئے جب کہ ان قرضوں پر سود کی شرح بھی 3 سے 4 فی صد تک رکھی گئی۔ اُس وقت وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی عثمان ڈار کے مطابق مئی 2021ء تک 10ہزار افراد کو کامیاب جوان پروگرام کے تحت 8.5ارب روپے جاری کیے جا چکے ہیں جب کہ وفاقی حکومت نے سندھ کے نوجوانوں کے لیے کامیاب جوان پروگرام کے تحت 10 ارب روپے جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان کے مطابق مئی 2021 ء تک حکومت کامیاب جوان پروگرام کے تحت 1.3ارب روپے قرض اور 1.4ارب روپے کی رقم اسکل اسکالرشپ پروگرام کے تحت سندھ کے نوجوانوں میں تقسیم کر چکی ہے۔ دوسری جانب ماہرین معیشت کا ماننا ہے کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس وقت خصوصی تیکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت سے محروم ہے جس کے باعث ان میں مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔
ماہرین معیشت کے مطابق ہم اس وقت ایسے دَور سے گزر رہے ہیں جس میں شدید سماجی بے چینی کے علاوہ انتہائی تیزی سے معاشی اور سماجی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ مالی وسائل میں کمی کے باعث نوجوانوں میں شدید مایوسی اور احساس محرومی جنم لے رہا ہے۔ اکثر نوجوانوں کے پاس اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع نہیں اور جن کے پاس ہیں، وہ مناسب نوکریوں اور کاروباری مواقع کی کمی سے پریشان ہیں۔
پاکستان کی نوجوان نسل کے بارے میں، جس کا تناسب اس وقت مُلک کی آبادی میں سب سے زیادہ ہے۔
برٹش کونسل اور نیلسن تحقیقاتی ادارے نے ایک رپورٹ مرتب کی ہے۔ اس رپورٹ سے بڑی تاریک تصویر اُبھر کر سامنے آئی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے، پاکستان کی نوجوان نسل حکومت سے مایوس اور اپنے مستقبل کے بارے میں ناامید ہے۔ نوجوانوں کی اکثریت اس بات سے متفق ہے کہ ان کا مُلک غلط سمت میں جا رہا ہے، دس میں صرف ایک نوجوان کو حکومت پر اعتماد ہے۔ پاکستان کی آبادی میں گزشتہ 20برس میں ڈیڑھ گنا اضافہ ہوا ہے، جو کہ آبادی میں اضافے کی عالمی اوسط سے زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق ناامیدی کی وجہ ان نوجوانوں کے حالاتِ زندگی ہیں۔
اس رپورٹ کی تیاری کے لیے جن نوجوانوں کا انٹرویو کیا گیا، ان میں پانچ میں سے صرف ایک کے پاس مستقل ملازمت تھی اور ان میں سے نصف کا یہ کہنا تھا کہ اُن کے پاس مطلوبہ قابلیت نہیں ہے کہ وہ نوکری حاصل کر سکیں۔ مزید براں ان میں چار میں سے ایک پڑھنا لکھنا نہیں جانتا تھا جو کہ مُلک کے ابتر تعلیمی نظام کی غمّازی کرتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں صرف 40 فی صد بچّوں کا اسکولز میں اندراج ہے جب کہ جنوب مشرقی ایشیا میں یہ تناسب 58فی صد ہے۔
رپورٹ میں مزید درج ہے کہ پاکستان میں آبادی کی موجودہ صورتِ حال مُلک کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر نوجوانوں کی صلاحیت اور قوّت کو مثبت طریقے سے استعمال کیا جائے تو اس سے تیز رفتار اقتصادی ترقّی حاصل کی جا سکتی ہے جیسا کہ 1990ء کی دہائی میں مشرقی ایشیا میں کیا گیا۔ تاہم رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر یہ موقع ضایع کر دیا گیا تو پھر پاکستان کے لیے بہت ہول ناک نتائج نکل سکتے ہیں۔
اس صورتِ حال سے بچنے کے لیے رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت کو 3کروڑ 60لاکھ اضافی نوکریاں پیدا کرنا ہوں گی، جو کہ امریکا کی اقتصادیات کا ایک چوتھائی حصّہ بنتا ہے۔ مذکورہ تحقیقاتی رپورٹ کو مرتّب کرتے وقت 18 سے 29 سال کی عمر کے 1226 نوجوانوں کے انٹرویوز کیے گئے۔ ان میں سے70 فی صد نے کہا کہ ان کی اقتصادی حالت گزشتہ ایک سال میں بری ہوئی ہے۔ اس سال کے بجٹ میں تعلیم کے شعبے کے لیے کل قومی آمدن کا دو فی صد مختص کیا گیا ہے جو کہ بھارت اور تُرکی کے مقابلے میں نصف ہے۔
اس وقت ہمارے مُلک کے نوجوان انجینئرز، ڈاکٹرز، آئی ٹی کے ماہرین، سائنسی اور فنی علوم میں مہارت رکھنے والے بے روزگار ہیں۔ نوجوانوں کو اپنا کاروبار شروع کرنے کے لیے جو اسکیمز شروع کی گئیں، وہ نامساعد حالات کی وجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکیں۔ آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دَور ہے اور ہمارا پڑوسی مُلک بھارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں دُنیا کے چند بڑے ممالک میں شامل ہے اور اپنے نوجوانوں کی محنت کی بدولت اربوں ڈالرز کما رہا ہے۔ ایسے میں حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ نوجوانوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے جامع منصوبہ بندی کرے۔
حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کے فروغ، تعلیمی معیار کو بلند کرنے، تعلیم سَستی کرنے، تعلیمی اداروں میں طلبہ کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے، کھیلوں کے میدان آباد کرنے اور نوجوانوں کی کیرئیر پلاننگ کے لیے قابلِ عمل منصوبہ بندی کرے تاکہ ہمارا نوجوان ملک و قوم کو ترقی یافتہ، مضبوط اور خوش حال بنانے کے لیے اپنا فعال کردار ادا کر سکے۔ پاکستانی قوم میں شعور بیدار کرنے میں میڈیا نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
میڈیا ہی نے نئی نسل کے شعور کو اجاگر کرنے، انہیں دُرست سمت کی طرف جانے اور اپنے حق رائے دہی کی صحیح استعمال کی ترغیب دی ہے۔ ایک اچھا منتخب حکمران ہی ملک و ملت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے سائنس و ٹیکنا لوجی میں وسائل کو بروئے کار لاکر اپنا مصالحتی کردار ادا کرتا ہے، ڈاکٹر زاور انجینئرز پیدا کرتا ہے کہ جو ملک کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر اپنی خدمات انجام دیتے ہیں اور ملک کا نام روشن کرتے ہیں۔
ارفع کریم جس نے 9سال کی عمر میں مائیکرو سافٹ انجینئر کا عالمی ریکارڈ قائم کرکے نہ صرف پاکستان کی بیٹی ہونے کا ثبوت دیا بلکہ پورے عالم میں پاکستان کے تشخیص اور باوقار مقام دلوایا۔ اسی طرح ایک اور اہم کارنامہ پاکستان کے پسماندہ علاقہ میں ہونیوالے ایک عام آٹو مکینک کاریگر نے جس نے مکیینکل انجینئرنگ میں اپنی فنی مہارت سے پانی پر چلنے والا آٹو انجن بناکر دنیاکے نامور سائنس دانوں کو حیرت میں ڈال دیا۔
پاکستان کی دوسری بیٹی عائشہ نے اپنی تمام تر توانائیوں اور ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جنگی لڑاکا طیارہ اڑا کر نہ صرف پاکستان کی پہلی جنگی لیڈی پائلٹ ہونے کا اعزاز حاصل کیا ہے بلکہ اس میدان میں پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک پر سبقت لے گیا ہے جس سے ہمسایہ ممالک میں پاکستان کی اہمیت ایک حیثیت اختیار کرگئی ہے۔ اس ملک کا ایک اور ننھا انجینئر 9سالہ محمد احمد لاہور کا رہائشی جس نے آئی ٹی کی دنیا میں جدید انقلاب برپا کرکے نیا عالمی ریکارڈ اپنے نام کرلیا ہے اور دنیا کو بتا دیا ہے کہ پاکستان میں ذہانت کی کوئی کمی نہیں اور نہ ہی پاکستان ٹیکنالوجی کی دوڑ میں کسی ملک سے پیچھے رہ سکتا ہے۔
ایسے میں یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ یہ ملک ترقی کی طرف پروان چڑھ رہا ہے جوکہ ایک خوش آئند عمل ہے۔ ماہرین اقتصادیات کی پیش گوئی کے مطابق پاکستان 2050ء تک معیشت کے اعتبار سے دنیا کا اٹھارہواں طاقت ور ملک بن جائے گا اور پاکستان کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہوگا۔ اس لیے اب ہر فرد ملت کا فرض ہے کہ وہ اپنی تمام تر توانائیاں پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے خرچ کرے تاکہ یہ ملک اول دنیا کی صف میں ان کے برابر کھڑا ہوسکے۔
نوجوان نسل کو غربت کے خاتمے اور تعلیم کی افادیت کے حوالے سے خصوصی ٹاسک دے کر ملک کو ترقی اور خوش حالی کی شاہراہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔پاکستان نے ترقی کے فروغ اور آبادی کی بہبود کے حوالے سے عالمی سطح پر نوجوانوں کی ہی وجہ سے اپنا لوہا منوایا ہے۔ اگر کھیلوں کے میدان کی بات کی جائے تو ایک طویل عرصے تک اسکواش کے کورٹس میں جان شیر خان اور جہانگیر خان کا نام گوبجتا رہا۔ اسی طرح 1992ء سے 1994ء کے دوران پاکستان اپنے قابلِ فخر سپوتوں کی بدولت کرکٹ، ہاکی،ا سنوکر اور سکوائش کا عالمی چمپین تھا۔ اگر ترقی کی بات کی جائے تو پاکستانی نوجوان کمپیوٹر سافٹ وئیر کے میدان میں نت نئی تھیوریز پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
اگر سولر انرجی سے استفادے کی بات کی جائے تو یہی نوجوان جدید فارمولے وضع کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ اگر تعلیم کی بات کی جائے تو نوجوان علی معین نوازش اے لیول کے امتحان میں فزکس، کیمسٹری اور ریاضی میں امتیازی نمبر لے کر پوری دنیا کو ورطہِ حیرت میں مبتلا کرتا دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان چونکہ بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے، اس کے دیہی علاقے اور آبادی کا ملکی معیشت میں بڑا کلیدی کردار ہے۔ زراعت کا شعبہ معیشت کے حوالے سے سب سے بڑا جزو کہلاتا ہے۔ زرعی شعبہ ملک کے کل جی ڈی پی کا 25فیصد حصہ دے رہا ہے اور برآمد ات کی کل قیمت کا 70فیصد بھی مہیا کرتا ہے۔
زرعی شعبہ میں17ملین افرادی قوت کا م کررہی ہے جو کہ ملک کی افرادی قوت کا 44فیصد بناتا ہے۔ پاکستان کی تقریباً 67 فیصد آبادی دیہات میں آباد ہے، یہاں بسنے والے نوجوان کا تناسب 42 فیصد ہے۔ نوجوان افرادی قوت کو جدید تعلیم کے خطوط پر اُستوار کرکے انہیں بہبود اور ترقی کے دھارے میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان چونکہ اس وقت انتہائی نازک اور بھیانک دور سے گزرہا ہے۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا عفریت مسلسل زہر اُگلتا جارہا ہے۔ قدرت نے ہمیں چار مختلف موسم، زرعی زمین، کوئلے، گیس اور معدنی ذخائر کی دولت کی فروانی سے مزین کیا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان کے قومی ترقی اور بہود میں کردار کو مذید وسعت دی جائے تاکہ پاکستان ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک کی صف میں نمایاں مقام حاصل کر سکے۔
ذہانت اور فطانت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ وہ صلاحیتیں ہیں، جن کی بدولت انسان کے خوابیدہ افکار و خیالات اجاگر ہوتے ہیں اور معاشرتی و سماجی اعتبار سے انسان ترقی کی منازل طے کرتا چلا جاتا ہے۔ جہدِ مسلسل، عزمِ مصمم انسان کو عزم و ارادے کی پختگی عطا کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں اپنا نام اور مقام پیداکرنے والی شخصیات اپنی کم عمری میں کمالات کے جوہر بکھیرنا شروع کر دیتی ہیں۔
آج کے مادیت زدہ دور میں ملکِ پاکستان کو علم و تحقیق اور فکر و آگہی کے میدانوں کے شہسواروں کی ضرورت ہے جو اس ملک کی مستقبل کی قیادت سنبھال کر دنیائے تحقیق میں سطوتوں کے علم بلند کریں تاکہ یہ ملک خوبصورت عنوانات کا ایسا گلدستہ بن سکے جس کی خوشبو سے ہر فرد معطر ہو اور یہ خوشبو پاکستان کے کونے کونے میں پھیل جائے۔
ملک و قوم کے اصل دشمن جہالت، بے راہ روی، عدمِ برداشت اور انا ہیں جن کو جڑوں سے اکھاڑ کر شائستگی، تہذیب اور یگانگت کے بیج بونے ہوں گے، تب جا کر فصل میں عدل اور امن کا ذائقہ محسوس ہوگا۔ اس وقت نصابِ تعلیم میں ترامیم کر کے صوفیائے کرام، اولیائے کرام اور مفکرین کے افکار و نظریات کو شامل کیا جائے تاکہ نوجوان نسل صوفیاء کی امن و محبت کی تعلیمات سے مستفید ہونے کے ساتھ ساتھ گلی گلی محلے صدائے امن و محبت کو عام کرے۔ میرٹ کو یقینی بنا کر گراس روٹ لیول پر منجمد ٹیلنٹ کو قومی ترقی کے دھارے میں شامل کیا جائے تاکہ احساسِ محرومی بھی ختم ہو اور مساوات کی اقدار کی عملی عکاسی ہو سکے۔ قومیں اتحاد، انصاف اور بردباری سے اپنا مقام پیدا کرتی ہیں نہ کہ عسکریت پسندی اور جہالت سے۔
تعلیمی نصاب موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں، اس وقت ہم ٹیکنیشن پیدا کررہے ہیں جو تقریباً بین الاقوامی معیار کے ہیں، لیکن پاکستان کو مفکرین کی ضرورت ہے جو تخلیق اور ایجادات کرسکیں، ہمارے ہاں طبقاتی نظام تعلیم نے معاشرتی تفریق پیدا کردی ہے۔ اگر نظام تعلیم یکساں نہ ہو توسماجی اقدار پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ابھی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی شاہراہ پر چل رہے ہیں لیکن منزل ابھی بہت دور ہے، ہمیں ابھی لمبا سفر طے کر کے دنیا کے مقابلے میں کھڑا ہونا ہے، ہماری افرادی قوت اس شعبے میں بہت کم ہے اور عالمی لیول پر بھی ہم بہت نیچے ہیں۔
ہندوستان کی سافٹ وئیرا نڈسٹری بہت اوپر جارہی ہے، اس وقت ہندوستان کے پاس ہم سے زیادہ نمبرز آف گریجویٹس ہیں جو (آئی ٹی) کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہماری لیبارٹریز ورلڈ کلاس کی ہوں اور ہم اپنے نوجوان کے ٹیلنٹ کو پالش کریں تو زیادہ بہتر ہے۔ ہمیں اپنی قومی تعلیمی پالیسی کو واضح کرنا ہو گا اور ہمارا تعلیمی منصوبہ (ویل ڈیزائن) ہونا چاہئے، ہمیں صرف ہنر مند افراد کی ضرورت ہے جو ہمارے نوجوانوں کو سکھا سکیں۔ ان میں (سیکل) بھی ہے اور ٹیلنٹ بھی، صرف ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
دنیا کی ترقی یافتہ قومیں اور ملک اپنے معاشرے کی ترقی، استحکام اور امن کے قیام کےلئے اپنے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کےلئے خاص اقدامات کرتے ہیں، کیوں کہ اگر نوجوان درست ڈگر سے ہٹ جائیں تو معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے اور ترقی کی رفتار بھی رک جاتی ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے کئی دیگر حساس معاملات کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے مسائل کے حل کے لئے واضح منصوبہ بندی کی ہمیشہ سے کمی رہی ہے، جس کے باعث وہ نہ صرف اپنی صلاحیتوں کو صحیح معنوں میں استعمال کر سکے بلکہ ان میں سے اکثر ایسی راہ پر چل نکلے جو ان کی اور ملک کی بہتری کےلئے کسی طور مناسب نہ تھی۔
یہ بات بے حد خوش آئند ہے کہ قومی انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں نے خصوصی طور پر نوجوانوں کو متحرک کرنے کا فریضہ سرانجام دیا جا سکتا ہے، جس کا فائدہ یہ ہو گا کہ نوجوانوں کو اپنے ملک کے مسائل سے آگاہی ہوئی۔ 18سال کے نوجوانوں کو ووٹ کا حق دینا بھی گزشتہ پارلیمنٹ کا مجموعی فیصلہ بہت خوش آئند تھا کیوں کہ اس عمر میں نوجوانوں کو وطن کی محبت اور ترقی سے جوڑنا مستقبل کےلئے اچھے نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔
ہم سب نے دیکھا کہ گذشتہ انتخابات میں نوجوانوں کی بھرپور شرکت سے انتخابات کا ٹرن آؤٹ مثالی رہا۔ اسلامی معاشرہ کی تشکیل میں تعمیر شخصیت کو از حد اہمیت حاصل ہے۔ اخلاق اور کردار مل کر شخصیت سازی کرتے ہیں۔ گھرکی چاردیواری سے سماجی زندگی تک انسان کو اپنے اخلاق اور کردار کی مدد سے جینا ہوتا ہے۔ جس کا اخلاق اور کردار بہتر ہوگا وہ انسان دوسروں کے لئے رحمت بن جاتا ہے۔
لہذا نسلِ نو کی کردار سازی اور ان کی شخصیتوں کی اعتدال پسندانہ تعمیر ایک اہم معاشرتی فریضہ ہے۔ اس کام کے لئے ماں کی گود اور استاد کا برتاؤ بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اساتذہ تو اپنے طالب علموں کے لیے تعمیر شخصیت کے معاملہ میں نمونہ و مثال کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آنے والے دور میں بھی یہی اصول کارفرما ہوگا تو انسان کی شخصیت سنورے گی۔ آج کے نوجوان کو کئی اطراف سے ایسے مسائل درپیش ہیں جو ان کی شخصیت اور کردار پر یلغار کرتے ہیں، لہٰذا ان حالات میں ایک استاد کا فرض مزید بڑھ جاتا ہے۔ اسے اپنے شاگرد سے علم اور عمل میں کئی قدم آگے چلنا ہوگا تاکہ وہ طالب علموں کو عہد رواں کے عملی اور علمی ابہام سے بچا سکے۔
درسگاہوں کا ماحول بھی اسی بات کا متقاضی ہے۔ پاکستان کوروشن و خوشحال بنانا ہے تویہ جان لیجئے کہ مستقبل اس وقت محفوظ ہوگا جب نوجوان نسل کی کردار سازی کو تعمیر و ترقی کے ساتھ وابستہ کیا جائے گا۔ درس گاہوں میں بھلے سے آپ جتنے بھی نصاب پڑھا لیں اسلامی تعلیمات اور اخلاقیات کی تعلیم دئیے بغیر ان اداروں کا نصب العین پورا نہیں ہوگا۔ اسلام انسانیت اور معاشرہ میں نظم وضبط کا پیامبر ہے اور اسی اصول کا درس گاہوں میں اطلاق ہونا چاہئے۔
انسانیت کا حاصل باہم اُنس اور انسانوں کے مابین مودئت و اشتراک کا فروغ ہے۔ مکالمہ اور گفتگو انفرادی اور اجتماعی سطح پر انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا کارنامہ سرانجام دیتا ہے۔ اس سے درس گاہوں میں رواداری بڑھے گی اور ماحول تشد سے پاک ہوجائے گا۔