بدقسمتی سے پاکستان میں حالیہ سیلاب نے ناقابل تلافی تباہی برپا کی ہے خاص کر بلوچستان اور سندھ کی حالت تو بہت ہی ابتر ہے۔ سیکڑوں کی تعداد میں لوگ لقمہ اجل بن گئے ہزاروں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہو کر بے یار و مددگار ہوگئے۔ مویشی گھر بار کھیت زمینیں سب کچھ تباہ و برباد ہو گیا برسوں کی محنت اور سالوں کی پلاننگ مکمل طور پر نیست و نابود ہو گئی، دو ماہ میں مسلسل برسنے والی باشیں نہ جانے کتنا کچھ تباہ و برباد کر چکی ہیں۔
پاکستان پہلے ہی معاشی بحران سے دوچار تھا اوپر سے اس قدرتی آفت کا حملہ کئی دوسرے متعدد خطرات کو جنم دیا، جس میں سرفہرست انسانی زندگیاں کا زیاں، عمارتوں اور بنیادی ڈھانچے کو نقصان فصلوں اور مویشیوں کا نقصان، لینڈ سلائیڈنگ، انسانی صحت کو درپیش خطرات، ٹرانسپورٹ اور مواصلات کی بندش وغیرہ۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق 1989 اور 2016 میں بارشوں سے ہونے والے نقصان تقریباً 108 ملین کے لگ بھگ تھا اور موجودہ بارشوں نے اس کی شرح دوگنی کردی ہے۔ نقصان کا تخمینہ کئی گنا زیادہ ہے شدید نقصان کے باعث سندھ کو آفت زدہ قرار دیا گیا۔ اس تباہ کن ہیٹ ویو کے نتیجے میں پاکستان بھر میں مون سون کی طوفانی بارشوں کے ساتھ سندھ میں گندم کی فصل،کپاس ، سبزیوں اور کئی دوسرے بنیادی زرعی اجناس مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں ، تاہم کھڑی فصلیں کٹائی تک مزید نقصان سے دوچار ہو سکتی ہیں۔ ان شدید بارشوںنےنہ صرف فصلوں کو جسمانی طور پر کمزور کردیا ہے بلکہ یہ نئی فصل لگانے میں اور کٹائی میں بھی تاخیر کا باعث بن سکتی ہیں۔
پانی کی زیادتی جڑوں کی نشوونما کو روکتی ہیں اور آکسیجن سپلائی کو کم کرتی ہیں اور ساتھ ساتھ غذائی اجزاء کی مقدار پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں۔ پاکستان میں زراعت کا انحصار بارش پر ہے یا برف پگھلنے سے حاصل شدہ پانی پر بدقسمتی سے گزشتہ چند سالوں سے حاصل ہونے والا پانی ملکی زرعی ضروریات کے لیے ناکافی تھا، جس سے خشک سالی کی حالت برپا رہی اور اب یک دم اس موسلا دھار بارشیں زرعی ڈھانچے کو مستحکم کرنے کے بجائے اس کی مکمل تباہی کا باعث بن گئی۔
اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق سندھ میں 2021-22 میں پیداوار کا ہدف 22.7 فی صدرہا جبکہ 2020-21 میں یہ 23فی صد تک تھا۔ یہ اس شعبے کی شرح نمو 2021-22 میں 4.4 فی صد تک بڑھنے کے باوجود تھا جوکہ 2020-21 میں 3.5فی صد تک تھا۔ پاکستان کی GDP میں زراعت کا حصہ گزشتہ برسوں کے دوران مسلسل کمتری کا شکار ہوتا جا رہا ہے جب کہ حالیہ سیلاب نے اس ہدف کو بڑی کمی سے دوچار کردیا ہے۔
ہزاروں ایکڑ پر پھیلی ہوئی اراضی اب پیداواری صلاحیت سے محروم ہے۔2020-2021 کے اعداد وشمار سے معلوم ہو تا ہے کہ سندھ میں زراعت کے لیے استعمال ہونے والے رقبے میں کافی کمی آتی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے صوبہ ایک ابتری والی صورت حال سے دوچار ہے ہمیں اپنی مقامی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی دوسرے علاقہ جات پر انحصار کرنا پڑتا ہے ،جس کے نتیجے میں غذائی اجناس مارکیٹ سے دوگنے داموں خریدنی پڑتی ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ معاشی ابتری دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہے۔
جون 2022 کے وسط سے پاکستان بھر میں شدید ترین مون سون بارشوں کا آغاز ہوا ،جس کی وجہ سے ملک کو ایک دہائی میں بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا پاکستان کی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق سیلاب سے 33 ملین سے زائد افراد متاثر ہوئے 10لاکھ سے زائد مکانات تباہ و برباد ہوئے جب کہ 1100 سے زائد افراد سیلابی ریلے میں بہہ کر ہلاک ہو گئے تقریباً وسیع علاقہ پانی کی زد میں تھا اور اب بھی کئی علاقوں میں صورت حال ابتر ہے ریلیف ویب کے مطابق ملک بھر میں تقریباً 150 پل۔ اور 3500 کلو میٹر 2200 میل سڑکیں تباہ ہو چکی ہیں جبکہ 7لاکھ سے زائد مویشی اور 20لاکھ ایکڑ فصلیں اور باغات بھی مکمل تباہ ہو چکے ہیں۔ بارش کے بے تحاشہ حجم اور پگھلنے والے پانی نے ملک کے بڑے اور اعلیٰ ترقی یافتہ نظام آبپاشی کے ڈیموں کے آبی ذخائر نہروں کو ڈوبا دیا ہے۔ پاکستان میں گلیشئرز کے مسلسل پگھلنے سے مون سون بارشوں کا اثر اور دورانیہ طویل تر ہوتا چلا گیا۔
یہ ہی وجہ ہے کہ بارش کے بعد کئی قسم کے کیڑے مکوڑے بشمول حشرات اپنے بلوں سے نکل کر زمینی سطح پر نمودار ہوتے گئے سائنسی بنیادوں پر حشرات کی اس یلغار کی دو اہم وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ کئی حشرات کے زیر زمین تعمیر مسکن تباہ ہو گئے۔ لہٰذا وہ پناہ کے لیے اوپری سطح کا سہا را لیتے ہیں ۔دوسری یہ کہ بہت سے کیڑے گرم مرطوب ماحول کو تر جیح دیتے ہیں ۔ لہٰذا اپنی نسل کو بڑھانے کا یہ بہترین وقت ہوتا ہے جب وہ اوپری سطح کا رُخ کرتے ہیں جہاں ان میں جنسی تولیدی اور افزائش نسل کو بڑھانے کے تمام مرحلے طے پاتے ہیں۔
بارش کے موسم میں یہ انڈے دیتے ہیں۔ حشرات کی آبادی میں یک دم اضافہ کئی مہلک بیماریوں کو پھیلانے کا بھی باعث بنتی ہیں۔ ان میں خاص کر وائرل بخار، ہیضہ، ملیریا، ڈینگی، آنکھوں کا انفیکشن، جلدی امراض، معدے کے مسائل، نزلہ زکام، فلو اور سوائن وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام بیماریوں کو پھیلانے میں براہ راست حشرات کا ہی کلیدی کردار ہے۔ یہاں کئی حشرات کے بجائے صرف چیدہ چیدہ حشرات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جو کہ بارشوں کے موسم میں بڑی فروانی میں ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ کئی مہلک قسم کے بیماریوں کو پھیلانے میں ایک خاص ایجنڈ کا کام سرانجام دیتے ہیں۔ عموماً ان کے حملے اور انفکیشن سے ہر دوسرا فرد متاثر نظر آتا ہے۔ ان حشرات میں سرفہرست (Fire Ants) ہے۔
اس موسم میں مادہ اور نر دونوں کے پر اڑان کے قابل ہو جاتے ہیں ،کیوں کہ دوران برسات درجۂ حرارت 75.2 تا Fo 89.9 تک رہتا ہے جب کہ نمی کا تناسب 80فی صد ہوتا ہے اور یہ دونوں موافق حالات عموماً مون سون بارشوں کے دوران ہی دستیاب ہوتے ہیں۔ جب کہ حشرات کے دوسرے گروپ میں Flying Termit جس کو اڑانے والی دیمک کہا جاتا ہے، دیمک جو کہ روز اول سے ہی لکڑی اور کاغذ کی بنی ہوئی اشیاء کیلئے بہت مہلک بلکہ تباہ کن ہے بدقسمتی سے کئی ممالک میں ان کی تباہ کاریاں اتنی عام اور خطرناک ہیں کہ کئی انشورنس کمپنیاں اپن پالیسیوں میں Termit دیمک کے نقصان کا دعویٰ قبول نہیں کرتی مسلسل بارش کے بعد دیمک کا نکلنا بھی قدرتی امر ہے یہ بڑی تعداد میں باہر نکلتی ہیں۔
یہ عموماً چینوٹیوں کے طرزعمل ہی اپناتی ہیں ماسوائے اس کہ چیونٹیاں عموماً تیز روشنی والے علاقوں کا رخ کرتی ہیں اور وہاں زیادہ متحرک ہوتی ہیں جب کہ دیمک نسبتاً سایہ دار ٹھنڈی اور گیلی جگہوں کو پسند کرتی ہیں۔ اس کے بعد ایک اور حشرہ جو کہ (floating ants) تیرنے والی چیونٹیاں ہیں ۔ یہ بھی عقل و شعور کی دولت سے آشنا کیا ہے جب بارش مسلسل ہو رہی ہوتی ہیں اور پانی کا بہائو تیز ہو جاتا ہے تب یہ ادنی مخلوق گروپ کی شکل میں مل کر بیڑا بناتی ہیں۔
ہزاروں کی تعداد میں چیونٹیاں آپس میں مل کر ایک دوسرے کے سہارے خطرناک پانی کی موجوں پر تیرتی ہیں۔ اور تیرتی ہوئی کسی محفوظ مقام تک پہنچ جاتی ہیں۔ اس طرح ملکہ چیونٹی آسانی کے ساتھ اپنی قابل قیادت میں اپنی کالونی، انڈے اور دوسرے چیونٹیوں کو پانی میں باہمی اتفاق سے تیر کر ایک محفوظ مقام تک پہنچانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ یہ ہی اتحاد کا نتیجہ ہے کہ ایک ادنی مخلوق کس طرح پانی کی بے رحم موجوں کا اتحاد کی بدولت مقابل کرتے ہوئے خود کو اور اپنی آنے والی نسل کو خطرات سے نکالنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔
ریاست ہائےمتحدہ کے ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی (EPA) کے مطابق کاکروچ ایسے بیکٹیریا غذائی اجناس پر منتقل کرتا ہے جو کہ سالمونیلا اسٹفیلوکوس اور اسٹربیسٹو کوکس کا سبب بن سکتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق کاکروچ آنتوں کی بیماریوں جیسے پیچیش، اسہال، ہیضہ اور ٹائیفائڈ بخار کے کیریئر کے طور پر بھی ایک کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف انوائرنمینٹل ہیلتھ سائنسز کے مطابق کاکروچ کی ہزاروں اقسام ہیں ۔جب کہ ان میں 30 انواع کو خطرناک / مہلک تصور کیا جاتا ہے۔
یہ مخلوق کرہ ارض پر تقریباً ہر جگہ پائی جاتی ہے۔ ماسوائے انٹارکٹیکا کہ جب کہ وہاں فوسلز ریکارڈ کا جائزہ لیا جائے تو اوچ فوسلز سے اس کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے جو کہ تقریباً 350 ملین قدیم ہیں۔ آپ پیشہ وارانہ ماہرین کی مدد کے بغیر کاکروچ کی آبادی کو پانی اور خوراک اور پناہ گاہوں تک ان کی رسائی کو محدود کر کے کم اور کنٹرول کر سکتے ہیں داخلی مقامات جیسے فرش اور دیواروں کی دراڑیں وغیرہ کو سیل کیا جائے۔ بارش مچھروں کی افزائش نسل کے لیے بھی اتنی ہی موثر ہے جیسا کہ موسم بہار پھولوں کی افزائش کے لیے بارش مچھروں کے انڈوں کو تقویت فراہم کرتی ہے اور عموماً یہ اسی موسم میں انڈے دیتے ہیں، کیوں کہ ان کے لاوا عموماً پانی میں ہی نشوونما پاتے ہیں۔
اینومیلس کا لاوا تو ٹھہرے ہوئے پانی میں ہی پروان چڑھتا ہے، بارشوں کا پانی چھتوں گڑھے پرانے ٹائر چھوٹے ندی نالے چھوٹی دراڑیں، زرعی اراضی میں موجود آب پاشی کے ذخائر پر عموماً وہ ذرائع ہیں جو مچھر اپنی افزائش نسل کے لیے استعمال کرتے ہیں اور برسات ان ذخائر کو ممکن حد تک بڑھا دیتی ہیں، مچھروں کی ایک خاص قسم جس میں ایڈسین ایلمینائی جو کہ صاف اور تازہ پانی پر رہتا ہے اور ان کے لاروا عموماً کیاریوں یا ایئرکنڈیشنر یونٹ میں پائے جاتے ہیں۔ مچھروں کی افزائش کو روکنے کے لیے کچھ نکات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ پانی کے جمع ہونے والے ذخائر کو تلف کیا جائے، ان میں پانی نہ بھرنے دیا جائے۔
حالیہ بارش کے تسلسل کے ساتھ جہاں مچھروں کی آبادی میں اضافہ ہوا وہاں ملک میں کئی علاقہ جات میں ان سے پیدا ہونے والی بیماریاں جن میں خاص کر ملیریا، ڈینگی، ذیکا وائرس، ویسٹ نائن وائرس، ڈینگی اور ملیریا شامل ہیں۔ یہ عموماً مچھر کے کاٹنے سے پھیلتی ہیں حالیہ سیلاب کے متاثرہ علاقوں میں ڈینگی کی شرح کا تناسب بہت اونچا رہا ہے۔ ڈینگی بنیادی طور پر ایڈیس الجیٹائی مچھروں سے پھیلتا ہے۔ 100 سے زیادہ ممالک میں پایا جاتا ہے۔
ڈینگی دنیا میں سب سے عام ویکٹر سے پیدا ہونے والی وائرل بیماری ہے، جس کی وجہ سے ہر سال عالمی سطح پر 50 سے 100 ملین انفیشیلز/ کیسز اور تقریباً 25000 اموات واقع ہوتی ہیں۔ ڈینگی کے بعد ملیریا بھی ایک خطرناک اور عام متعدی بیماری ہے جو پلز موڈیم پرجیوی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ پتھوجن Pathogen) مچھروں کی اینو فیلس پر جائتوں سے پھیلتا ہے۔ اس بیماری سے دنیا بھر میں سالانہ تقریباً 220 ملین کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اور 4لاکھ سے زائد اموات کی شرح 5لاکھ کے قریب ہے۔
سینٹی بیڈس یہ لمبی اور خطرناک مخلوق بھی بارش کے بعد باہر نکل آتی ہے۔ عموماً ان کی افزائش نسل کا دورانیہ سست ہے اور بارش براہ راست اس پر اثر انداز نہیں ہوتی ہے، تاہم زیر زمین مسکن کی تباہی کے بعد یہ اوپری سطح پر نمودار ہوتے ہیں اور دوسری اس کی اہم وجہ ان کی شکاری فطرت ہے چونکہ موسم برسات میں حشرات کی بھرمار ہوتی ہے اور ان چھوٹے موٹے حشرات کا بکثرت دستیاب ہونا بھی سینٹی پیرس کو اپنی جانب راعب کرواتا ہے تو یہ اپنی غذائی ضروریات کو پورا کرنے اور حشرات کو کھانے کے لیے یہ کھلی فضا کا رُخ کرتے ہیں۔
تمام سینٹی پیڈس اپنے شکار کو پکڑنے کے لیے ایک خاص قسم کا زہر خارج کرتے ہیں سینٹی پیڈس کے کاٹنے سے انسانوں میں شاز و نادر ہی صحت کی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں اور یہ عام طور پر خطرناک یا مہلک نہیں ہوتے ہیں، تاہم کچھ سینٹی پیڈس میں مہلک زہر ہوتا ہے جو مختلف قسم کے ٹاکسن پیدا کرتا ہے۔ بشمول ہسٹامین، سیروٹونن اور کارڈیو ڈیرسینٹ ٹاکس S کا باعث بنتے ہیں۔ WoodLous یا Soco بگ یہ ایک ایسا جاندار ہے جس کو کئی ناموں سے جانا جاتا ہے ،جس میں گولی بک، ڈوڈل بگ، ہینربگ PolyPoly اور چگی بگ وغیرہ شامل ہیں یہ گیلی اور ٹھنڈی جگہوں پر رہنا پسند کرتی ہیں۔
برسات میں ان کی افزائش میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے یہ گھریلو مٹی میں رہتے ہیں عموماً انسانوں کے لیے مہلک یا خطرناک نہیں ،تاہم ان کی موجودگی پودوں کو کافی نقصان دیتی ہے۔ ان کی موجودگی زیرزمین ان کی کثیر تعداد کی نشاندہی بھی ہوتی ہے۔ یہ آہستہ آہستہ پودوں کی جڑوں کو کمزور کرتے ہیں، جس کی وجہ سے پودے نمو کے قابل نہیں رہتے اور کچھ ہی دنوں میں مرجھا کر ختم ہو جاتا ہے۔ Ticks اور Fleas ٹک یا پیسو یہ پالتو جانوروں اور دوسرے جانوروں کے ایکٹو پراسائٹ کے طور پر جانا جاتا ہے۔
برسات کے موسم میں اس کا انفیکشن ریٹ بڑھ جاتا ہے اور ہر تیسرا جانور اس کا شکار نظر آتا ہے ۔یہ عموماً نمی والے ماحول میں پروان چڑھتے ہیں اور اپنا شکار تلاش کر کے اس کو کئی ہفتوں تک اذیت دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے کئی قیمتی اور نادو نایان اقسام کے مویشی اس میں آتے ہیں اور اس طرح یہ اپنی مارکیٹ ویلیو تقریباً کھو دیتے ہیں۔
گھریلو مکھی کی بھرمار بھی برسات میں کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے یہ بھی دوسرے حشرات کی طرح نمی والی جگہوں کو مرغوب رکھتی ہے ان کو اپنی افزائش کےلیے زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے اس طرح برسات ان کا من پسندیدہ موسم ہے اور ان کی آبادی میں نمی اور باہر گندگی کی وجہ سے ایک دم اضافہ دیکھنے میں آتا ہے، تاہم گھریلو مکھی انسانوں میں تقریباً 65 بیماریاں منتقل کرنے کی ذمہ دار بھی ہے جن میں ٹائیفائڈ، بخار، ہیضہ، پولیو ، انتھراکس، ٹلمیا، جزام اور تپ دق شامل ہیں عموماً یہ مکھیاں کئی مہلک بیماریوں کو پھیلانے میں ایک کیرئر کا کردار ادا کرتی ہیں۔
رہن بیٹل بھی ایک مضبوط بضیوی کالی رنگ کی مخلوق ہے جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ ربسات میں خصوصی طور پر باہر کا رُخ کرتے ہیں ۔عموماً ان کے لاروا زیر زمین ہوتے ہیں اور چونکہ بارش کے بعد مٹی نرم ہو جاتی ہے تو یہ اپنے بچائو کے لیےاوپری سطح پر آجاتے ہیں ۔یہ انسانوں کے لیے زیادہ مہلک تصور نہیں کئے جاتے ہیں۔ ایڈویلویٹ مائٹس یہ اگرچہ سرخ مخمل کے ذرّات ارکینڈز سے موسوم کیا جاتا ہے یہ بھی دوسرے حشرات کی طرح برسات کے موسم میں اپنی افزائش نسل خوراک کے حصول کے لیے باہر آتےہیں ۔یہ جسمامت میں بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور یہ دوسرے حشرات کے ساتھ چمٹ کر اپنی زدگی اور خوراک کا حصول آسان بناتے ہیں۔
ان کے منربان حشرات میں ٹڈی دل اور Grasshoppers وغیرہ شامل ہیں اور یہ دوسرے حشرات کے ساتھ منسلک ہو کر کئی مہلک بیماریوں کے پھیلانے کا باعث بھی بنتے ہیں۔ Rain Molth (پانی کا کیڑا) یہ بڑی ہی عجیب و غریب حشرہ ہے۔ یہ عموماً اپنے کھانے پینے کو ترجیح نہیں دیتا ہے۔ یہ بارش کے بعد زیادہ تعداد میں اپنے Pupa (پپسواخول) سے باہر آتے ہیں اور باہر آنے کے صرف 24 گھنٹوں تک زندہ رہتے ہیں۔ اس دوران یہ ہٹن اہم سرگرمیاں سرانجام دیتے ہیں۔ ان تمام کیڑوں کے ساتھ ساتھ دوسرے حشرات میں ڈریگس فلائیز اور ڈیم فلائیز بھی بارش کے بعد کثرت سے دیکھنے میں آتے ہیں۔