• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی شہر کا مرکز جو کسی زمانے میں خوب صورت و دل کش اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز تھا، گزشتہ برسوں کے دوران اتنا زیادہ تبدیل ہوچکا ہے کہ پہچانا نہیں جاتا، جہاں کسی زمانے میں شان دار سنگی عمارتیں تھیں، وہاں اب کمرشل پلازے ہیں۔ اس ہفتے صدر بازار کے بارےمیں جانیے۔

1839ء میں صدر بازار کو برٹش ملٹری کیمپ کے لیے جو بازار اور فصیل بند شہر کے درمیان واقع تھا۔ شاپنگ سینٹر کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔1843ء میں برطانیہ نے کراچی کو اپنے قبضے میں لیا تو فوجی کیمپ کو ختم کر کے یہاں بازار شمال اور مشرق کے علاقوں میں منتقل ہوگئے۔ صدر، ایک ایسے کمرشل ایریا کی حیثیت سے ترقی کرتا رہا، جہاں یورپی افسران اور ان کی بیویاں نسبتاً مانوس ماحول میں خریداری کرسکیں، جہاں برطانیہ سے آنے والے جدید فیشن اور مصنوعات دستیاب ہوں، برطانوی راج کے خلاف 1857ء کی بغاوت کی ناکامی کے بعد صدر کی ترقی کی رفتار تیز ہوگئی۔ 

اس کی یہ ترقی شہر میں تجارت اور کاروبار کو فروغ دینے کی برٹش پالیسی کا ہی نتیجہ نہیں تھا، بلکہ ہندو، یا پارسی اور بہت بعد میں مسلمان کاروباری برادریوں کے آگے بڑھنے کے جذبے کا بھی نتیجہ تھی، جنہوں نے اس بازار میں اپنے کاروبار کیے۔ پارسیوں اور گوانیز کے رہائشی علاقے بازار کے اندر اور یورپی آبادی کے علاقے اس کے آس پاس واقع تھے۔ 

آزادی کے وقت اہم اداروں کی بڑی تعداد جن میں بیش تر چرچ سے یا گوانیز اور پارسی برادریوں سے وابستہ تھے، صدر میں واقع تھے۔ اسکول جن میں بعض 1848ء میں قائم ہوئے تھے۔کمیونٹی ہال، لائبریریاں، ڈراما کلب، جم خانے بارز، بلیئرڈ رومز، مقامی لوگوں کے لیے ایرانی کیفے اور گوروں کے لیے عالیشان ٹی رومز یہاں پھل پھول رہے تھے۔

صدر فصیل بند شہر کے ہنگاموں سے ممتاز علاقے کی حیثیت رکھتا تھا۔ گھوڑوں سے چلنے والی ٹرام وے 1885ء میں اسے مقامی آبادی سے ملاتی تھی۔ نامور سندھی ادیب پیر علی محمد راشدی نے اپنی نوجوانی کے زمانے میں صدر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’کوئی بھی بدلباس شخص 1930ء کے عشرے کے اواخر تک بازار میں داخل ہونے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔ وہ صدرکو تعلیم یافتہ لوگوں کے اجتماع اور شان دار انگلش طرز کی دکانوں کی ایک جگہ قرار دیتے ہیں۔

آزادی کے بعد مہاجرین کراچی آگئے اور اس شہر کو پاکستان کا دارالحکومت بنادیا گیا۔ بیش تر مہاجرین صدر سے متصل کنٹونمنٹ ایریا میں قیام پزیر ہوئے۔ نئی آبادی میں شاعر، فن کار، اداکار اور دانش ور شامل تھے۔ نئی حکومت کے دفاتر کے لیے بازار سے متصل بیرکس بھی تعمیر کی گئیں۔ اس نئی ترقی کے ساتھ صدر اور اس سے متصل علاقوں کی آبادی میں 400 فی صد سے زیادہ اضافہ ہوگیا، تاہم، فاصلے مختصر ہی رہے۔ لوگ کام کرنے کے لیے پیدل یا سائیکل پر جاتے تھے۔

مہاجرین کی آمد نے صدر کی سماجی اور تہذیبی زندگی کو متمول بنادیا تھا۔ مقامی آبادی میں بیورو کریٹس، ڈپلومیٹس، ادیب، فن کار، سیاست دان شامل ہونے لگے۔ علاقے میں کتابوں کی دکانوں، بلیئرڈ رومز، بارز، لائبریریوں، سنیما گھروں اور طعام خانوں کی بھرمار ہوگئی۔ کراچی کے پرانے کالج پہلے ہی صدر کے آس پاس کے علاقے میں واقع تھے اور آزادی کے بعد ایک نئی یونیورسٹی بازار سے محض پیدل کے راستے پر قائم کردی گئی۔ طلبہ برادری صدر کی سہولتوں اور اداروں کا مفت استعمال کرتی تھی۔

1965ء تک ایک مربع کلومیٹر سے کم کے علاقے میں بازار میں تیس طعام خانے، نوبارز، گیارہ بلیئرڈ رومز، اٹھارہ کتابوں کی دکانیں، سات آڈیٹوریم، چار نائٹ کلب اور تیرہ سنیما گھر موجود تھے۔ پیشہ ور اداروں کی جانب سے سیمینار منعقد ہوتے تھے۔ طلبہ مباحثے اور ورائٹی پروگرام منعقد کرتے تھے اور حکومت اپنی کانفرنسیں صدر کے آڈیٹوریم اور ہالوں میں منعقد کرتی تھی۔ اس سرگرمی کے وسط میں ایمپریس مارکیٹ کی عمارت اِستادہ تھی۔ 

اس کے دونوں طرف چھوٹے چھوٹے باغ تھے اور اس کے تین داخلی دروازوں کے سامنے کی کھلی جگہوں میں گاڑیاں کھینچنے والے جانوروں کو پانی پلانے کے لیے پتھر کے خوب صورت حوض بنے ہوئے تھے۔ صدر کے باشندے اور قریبی کنٹونمنٹ کے علاقے میں رہنے والے بیورو کریٹ اور ڈپلومیٹ یہاں باقاعدگی سے خریداری کرتے تھے، جب کہ نوجوان تفریح کی غرض سے مارکیٹ میں جمع ہوتے تھے۔ ان دنوں ایمپریس مارکیٹ ایک بڑا ٹرانسپورٹ جنکشن بن گیا تھا۔

1960ء کے عشرے کے اواخر میں علاقے کے زیادہ خوش حال لوگوں نے وہاں سے نقل مکانی شروع کردی، کیوں کہ وہ اس علاقے کے نئے ماحول میں نہیں رہ سکتے تھے۔ اس زمانے میں فور اور فائیو اسٹار ہوٹلوں کا کلچر کراچی میں آیا۔ صدر میں رہنے والی برادریوں کی بھی سماجی، علمی اور ثقافتی تقریبات ہوٹلوں یا شہر میں قائم ہونے والے غیر ملکی ثقافتی مراکز میں سے کسی ایک میں منعقد ہوتی تھیں۔ اس تبدیلی کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ صدر کا علاقائی اور سماجی ماحول ایسا نہیں رہا تھا کہ وہاں اس قسم کی تقریبات منعقد کی جائیں۔

صدر کی ابتری کا آخری مرحلہ 1970ء کے عشرے میں آیا، مضافاتی علاقوں میں خود ان کے اپنے تجارتی مراکز اور تفریحی ادارے قائم ہونے لگے اور وہاں رہنے والوں کو خریداری کے لیے صدر آنے کی ضرورت نہیں رہی۔ پرانی دکانیں جو ایک صدی سے زیادہ کے استعمال کے بعد اداروں کی حیثیت اختیار کر گئی تھیں، بند یا مضافات میں منتقل ہوگئیں، خلیج سے آنے والی دولت کی پیدا کردہ معاشی خوش حالی نے تجارت اور کاروبار میں اضافہ کیا اور صارف کا کلچر شہر پر چھا گیا۔ 

اس ترقی کو سہارا دینے کے لیے گوداموں، ہول سیل مارکیٹوں اور ڈسٹری بیوشن کے مراکز کی ضرورت تھی۔ لہٰذا صدر کو ان سہولتوں کے قیام کے لیے بہترین جگہ قرار دیا گیا۔ صدر کے مغربی اور شمالی حصے میں کتابوں کی دکانوں، طعام خانوں اور ادارہ جاتی عمارتوں کی جگہ گوداموں اور مارکیٹوں نے لے لی۔ جنوبی حصے میں پرانے فلیٹوں کی جگہ نئی تجارتی ضروریات کی تکمیل کے لیے ہوٹل قائم ہوگئے۔

1977ء میں شراب نوشی پر پابندی عائد کردی گئی اور بار بند ہوگئے۔ چند سال بعد بار کے بغیر زندہ نہ رہنے کے باعث بلیئرڈ رومز بھی بند ہونے لگے۔ 1980ء کے عشرے کے وسط تک بہت سے سنیما گھروں کی جگہ پلازہ بن گئے، شہر کا ثقافتی اور تفریحی مرکز مر چکا ۔ (عارف حسن کی کتاب ’’بے ضابطہ انقلاب‘‘ سے انتخاب)