• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صحتِ زباں: بارے ’’ناموں‘‘ کا کچھ بیاں ہوجائے ...

غالب کو آم بہت پسند تھے ۔ انھوں نے آم کی تعریف میں ایک مثنوی بھی کہی جس کا عنوان ’’در صفت ِ انبہ‘‘ ہے۔ اس کا ایک مصرع ہے:

بارے آموں کا کچھ بیاں ہوجائے

لیکن آج ہم آموں نہیں ناموں کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہیں گے۔ بعض افراد اور مقامات کے نام اردو میں درست نہیں لکھے جاتے اور ان کا غلط املا اتنا مشہور اور رائج ہوجاتا ہے کہ لوگ درست املا کو غلط سمجھتے ہیں۔ ان میں سے چند ناموں کا ذکر پیش ہے:

٭…ثمر قند نہیں سمرقند

حال ہی میں ہمارے وزیر اعظم ازبکستان کے ایک شہر تشریف لے گئے۔ ازبکستان کے اس شہر کا نام بعض اردو اخبارات نے ’’ثمر قند ‘‘( یعنی ث سے) لکھا۔ حالانکہ اس کا درست املا سمر قند (س سے )ہے ۔

سمر قند دنیا کے ان تاریخی شہروں میں شامل ہے جو کئی ہزار برسوں سے مسلسل آباد ہیں اور کبھی اجڑے نہیں۔ اس شہر کا نام صدیوں سے فارسی اور عربی بلکہ اردو میں بھی سمر قند لکھا جاتا ہے۔

صدیوں پرانے اس املا کواب اچانک بدل کر غلط طور پر ثمر قند لکھنے کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایک شربت کا نام ثمر قند ہے جو بوتلوں میں دست یاب ہوتا ہے۔ ثمر کا مطلب ہے پھل اور قند چینی یعنی کھانڈ یا شکر کو کہتے ہیں۔ شربت والوں نے تو نام مزے کا رکھا ہے لیکن شہر کا نام اتنا مزے دار نہیں ہے کیونکہ سمر قند دراصل سُغدی زبان کا لفظ ہے۔ سُغدی زبان قدیم ایرانی زبان تھی اور سُغد کے خطے میں بولی جاتی تھی جو وسط ایشیا میں واقع ہے ۔ فرغانہ اور بخارا سغدکے مشہور شہر ہیں۔ 

سغدی زبان میں سمر (س سے)کے معنی ہیں پتھراور قند کا مطلب ہے قلعہ یا شہر، گویا سمر قند (س سے) کا مطلب ہے پتھر کا شہر یا پتھر کا قلعہ۔ ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند کے نام کا بھی کم و بیش یہی مطلب ہے کیونکہ اس خطے کی بعض زبانوں ، مثلاً ترکی، میں ’’تاش‘‘ کا مطلب پتھر ہے اور قند وہی قلعہ یا شہر کے مفہوم ہے۔

اور سین سے سمر قند کا لفظ کس حد تک اردو میں رائج رہا ہے اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ اقبال کے ہاں بھی سمرقند (س سے ) ملتا ہے۔ بانگ ِ درا میں کہتے ہیں:

درویشِ خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی

گھر میرا نہ دلّی، نہ صفاہاں ، نہ سمرقند

سمر قند کے مشہور اور تاریخی شہرکا املا بدل کر اسے ثمر قند لکھنے کی کوئی تُک نہیں ہے۔

٭… تنجیئر نہیں طنجہ

اسلامی دنیا کا ایک قدیم شہر طنجہ بھی ہے۔

ہم نے اپنی ساتویں جماعت کی درسی کتاب میں ابن ِ بطو طہ کے بارے میں پڑھا تھا کہ یہ جہاں گرد ِ اعظم طنجہ کا رہنے والا تھا۔ طنجہ مراکش کا شہر ہے اور اس کا یہ نام اردو ، فارسی اور عربی میں صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ لیکن اب ماشاء اللہ بعض نوجوان صحافیوں کی معلومات کا یہ عالم ہے کہ وہ اسے ’’تنجیئر ‘‘ لکھتے ہیں۔

جب ہم نے ایک اردو اخبار میں ایک خبر کے آغاز میں ’’تنجیئر ‘‘ لکھا دیکھا تو بہت چکرائے، بلکہ گھبرائے۔ یا وحشت! یہ کیا لفظ ہے اور اس کے کیا معنی ہیں؟کس زبان کا ہے؟ ابھی عربی فارسی کی لغات اٹھانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ تنجئیر کے آگے ’’مراکش کے شہر میں ۔۔۔‘‘ کے الفاظ نظر آئے۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اپنی جہالت پر سر پیٹیں یا اس نو جوان نامہ نگار کی معلومات پر سر ُدھنیں جس کی قابلیت ساتویں جماعت سے بہت آگے نکل گئی تھی اور جس نے انگریزی سے خبر کا ترجمہ کرتے ہوئے جب Tangier لکھا دیکھا تو بے دھڑک اسے اردو حروف کا پاجامہ پہنا دیا، یعنی تنجئیر لکھ دیا، یہ سوچنے کی زحمت کیے بغیر کہ یہ اسلامی دنیا کا ایک قدیم شہر ہے اور مسلمانوں کی زبانوں یعنی عربی ، فارسی ، ترکی اور اردو میں اس کا کچھ نہ کچھ نام ہوگا۔لیکن اس افلاطون نے زندگی میں شاید کبھی لفظ ’’ طنجہ ‘‘لکھا ہوا نہیں دیکھا تھا (کیونکہ چھٹی جماعت ہی سے اسکول سے بھا گ گیا تھا،مگر بضد تھا کہ اردو اخبار میں نوکری کرے گا)۔

پھر ہم نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے بعض لکھنے والوں کی طرح مراکش کے انگریزی نام یعنی Morocco کو اردو میں ’’ مراکو‘‘ نہیں لکھ دیا حالانکہ بعض جگہ یہ بھی لکھا دیکھا ہے۔

مغربی اقوام نے ہمارے بعض مشرقی ناموں کو اپنے تلفظ اور املا میں لکھنے کی کوشش کی ہے اور اپنی بعض صوتیاتی اور لسانیاتی مجبوریوں کے سبب انھیں اپنے رسم الخط میں درست طور پر ظاہر نہ کرسکے،لیکن سوال یہ ہے کہ ہم ان کی نقالی کرکے اپنے رسم الخط میں اپنے ناموں کو کیوں بگاڑیں؟

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔ 

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ 

تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی