• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم آج جس دنیا اور جس زمانے میں جی رہے ہیں، اُن دونوں کی صورتِ حال اور تقاضوں کو سمجھنا بے حد اہم ہے۔ ایک قوم اور مملکت کی حیثیت میں پہلے ہمیں صرف سیاسی چیلنجز کا سامنا تھا، لیکن یہ تو ابتدائی برسوں کی بات تھی، اب حالات بہت بدل چکے ہیں۔ ۱۱/۹ کے بعد کی یہ دنیا جس میں آج ہم سانس لے رہے ہیں، یکسر مختلف دنیا ہے۔ سیاست، معیشت اور ٹیکنولوجی کے بنیادی عناصر سے تشکیل پانے والی اس دنیا میں رنگ و بو کا فرق ہے۔

یہ دنیا متعدد عوامل و عناصر نے تشکیل دی ہے۔ تاہم اس کے مذکورہ بالا تین بنیادی اجزا آج کے سیاسی، جغرافیائی، معاشی، تہذیبی، ثقافتی، اخلاقی اور سماجی رجحانات کی صورت گری کر رہے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ جب دنیا کے ایک بڑے حصے میں قومیں اور ملک اپنی تہذیبی و ثقافتی شناخت اور اخلاقی و سماجی قدروں کے ساتھ جیتے تھے۔ 

آج یہ سب چیزیں غیر محفوظ ہیں۔ معاشی دبائو اور ٹیکنولوجی کا نفوذ (جس کا آج سب سے بڑا اور تباہ کن حد تک مؤثر مظہر سوشل میڈیا ہے) قوموں اور تہذیبوں کے اس طرح اور اس درجہ درپیِ آزار ہے کہ بقا اور استحکام کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ امید کی اگر آج کوئی کرن بچی ہوئی ہے تو صرف ان معاشروں میں جہاں سماجی و اخلاقی اقدار کا کوئی نظام کسی نہ کسی درجے میں مؤثر ہے اور جہاں ادب کی عمل داری کسی نہ کسی دائرے میں باقی ہے۔

ممکن ہے، یہ بات محض ایک ادیب کی خوش گمانی پر محمول کی جائے، اس لیے ضروری ہے کہ اس اجمال کو ذرا سا تفصیل میں دیکھ لیا جائے۔ ادب کسی نظریے اور فارمولے کے تحت تخلیق تو کجا، درست طریقے سے پڑھنا اور سمجھنا تک ممکن نہیں ہے، اس لیے کہ ادب تخلیق و مطالعہ دونوں سطحوں پر ایک داخلی احتیاج کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ ایسی شے ہے ہی نہیں کہ جسے کسی خارجی عامل کے ذریعے انسان کی زندگی میں شامل یا مؤثر کیا جاسکے، اس کی طلب کا احساس کسی باطنی ضابطے سے پیدا ہوتا ہے، لہٰذا ہر شخص کی زندگی میں اس کا معاملہ کچھ الگ طرح کا ہوتا ہے، اور اس کی نوعیت اور شدت کا تعین بھی آدمی کے اندر ہی کہیں ہوتا ہے۔ اسی لیے اعلیٰ، اوسط اور ادنیٰ درجے صرف تخلیق کاروں، ادیبوں، شاعروں ہی میں نہیں پائے جاتے، بلکہ پڑھنے والے بھی الگ الگ کیفیت و احساس کا درجہ رکھتے ہیں۔ ایک بات البتہ طے ہے کہ ادیب اپنے قارئین کے اندر فکر کی ایک کیفیت یا احساس کی ایک رَو کسی نہ کسی سطح پر پیدا ضرور کرتا ہے۔

چناں چہ ہم اپنی آزادی کے ان پچھتّر برسوں کے تناظر میں اپنی فکری پیش رفت اور اجتماعی رویوں پر نگاہ ڈالتے ہوئے اپنی قومی، تہذیبی اور سماجی تفتیش و تفہیم کے لیے ادب سے بھی کچھ نہ کچھ مدد لے سکتے ہیں، تاہم ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب یہ کام کسی بنیادی سوال اور اصول کے تحت کیا جائے۔ باشعور معاشروں میں مطالعے ، خصوصاً ادب کے مطالعے کے کچھ اصول ہوا کرتے ہیں۔ انھی کے تحت معاشرے میں ادب اور فکر و نظر کے دوسرے شعبوں کا دائرئہ اثر تشکیل پاتا ہے۔ 

لارڈ نارتھ بورن نے رینے ساں کے بعد مغرب کی تہذیبی و سماجی پیش رفت کو ڈھلان سے اترنے کا سفر کہا ہے۔ یہ نتیجہ کوئی شخص اسی وقت اخذ کر سکتا ہے جب اُس کے ذہن میں اپنی تہذیب کی سمت اور اس کے نظام اقدار کی بابت کوئی ابہام نہ ہو۔ سارا منظر صاف اور آنکھوں کے آگے ہو، اور وہ اُن سوالوں سے بھی آگاہ ہو ،جو زمانے کی بدلتی ہوئی صورتِ حال تہذیب و سماج کے آگے رکھتی ہے۔ ان سوالوں کا سامنا معاشرے کے اہلِ فکر و دانش براہِ راست اور ادیب وشاعر بالواسطہ طور پر کیا کرتے ہیں۔ ایسا ان کے کام کی نوعیت کے لحاظ سے ہوتا ہے۔

ابھی کچھ وقت پہلے تک ہم بلکہ پوری دنیا مابعد کرونائی صورتِ حال میں الجھی ہوئی تھی۔ ہم تو خیر جس حال میں تھے، سو تھے، اچھی خاصی ترقی یافتہ اور خوش حال اقوام و ممالک معاشی دبائو میں آئے ہوئے تھے، پھر یہ کہ اس عرصے میں ہمارا سیاسی منظرنامہ خاصا دھواں دھار چل رہا تھا، انفرادی و اجتماعی توجہ اسی پر مرکوز ہوکر رہ گئی تھی۔ علاوہ ازیں عالمی سیاسی منظرنامہ اور انسانی صورتِ حال جو کچھ دکھا رہی تھی، وہ بھی بہت توجہ طلب تھا وغیرہ۔ یہ سب باتیں درست اور حقیقت پر مبنی ہیں، اس کے باوجود سچائی یہ ہے کہ کوئی زندہ اور باشعور قوم ان میں سے کسی شے کو آڑ بنا کر اپنے جغرافیائی، تہذیبی، نظریاتی اور فکری وجود سے غفلت اختیار نہیں کرسکتی۔

اس لیے کہ ایسا کرنا اس کے استحکام کے لیے نہیں بقا تک کے لیے مہلک نتائج کا باعث ہوسکتا ہے۔ وقت کے ٹریک پر اس نوع کے نشیب و فراز جس قدر کسی قوم کی معیشت و سیاست کے لیے امتحان بنتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ اُس کی تہذیبی و نظریاتی بنیادوں کے لیے آزمائش طلب ہوتے ہیں۔ لڑائیوں اور جنگوں کا زمانہ قوموں کے لیے ابتلا و آزمائش تو لے کر آتا ہے، لیکن ایسے میں ان کے تہذیبی سانچے اور نظریاتی بنیاد کو گزند نہیں پہنچتی، بلکہ وہ الٹا اور مستحکم ہوتا ہے۔ البتہ سیاسی تماشے اور معاشی خرخشے کے پیدا کردہ حالات میں قومی شعور سے اختیار کی جانے والی غفلت اس کی چولیں ہلا دیتی ہے۔

اس عرصے میں ہمارے یہاں ادب میں قومی شعور اور اجتماعی طرزِ احساس کی مرکزی روایت تو بے شک قائم نہیں ہوئی، لیکن یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ ہمارے ادب اور ادیب نے اپنی قوم، ملک اور وقت کے مسائل سے کبھی چشم پوشی نہیں کی۔ ادب کی کم و بیش تمام اہم اصناف اس صداقت کا ثبوت پیش کرتی ہیں کہ عصری حسیت اور قومی شعور نے ان سب ارتعاشات کو ادب کے دائرے میں اظہار کی سطح پر ریکارڈ کیا ہے جو ہماری پون صدی کی سیاسی، سماجی، تہذیبی، اخلاقی اور فکری تاریخ کے مختلف مراحل پر پیدا ہوتے رہے ہیں، گویا ہمارا ادبی رویہ اور ردِعمل اس امر کا غماز ہے کہ فکر و تخلیق کی دنیا کے لوگوں نے ہمارے یہاں زندہ انسانی اور اجتماعی تجربے کی اہمیت سے ہرگز صرفِ نظر نہیں کیا۔

قومی ادب کا سوال آج بھی معنویت اور اہمیت کا حامل ہے، تاہم یہ بھی ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ قو می طرزِ احساس کی تشکیل یا ادب میں قومی شعور کی مرکزی روایت قائم کرنے کے لیے ادیب و شاعر کو افسانے، مضمون یا ناول میں ہر صفحے دو صفحے بعد قومی اتحاد زندہ باد کا نعرہ نہیں لکھنا ہوتا ہے اور نہ ہی شاعر کو اپنی غزل کے مطلعے یا مقطے میں یا پھر نظم کے ٹیپ کے مصرعے میں دو قومی نظریے کو فٹ کرکے دکھانا ہوتا ہے۔

قومی اور تہذیبی طرزِ احساس کی تشکیلِ نو اس وقت ہوتی ہے جب تخلیق کار عصری حسیت اور تقاضوں کو اپنی روح کی حرارت سے فن میں اس طرح منتقل کردے کہ وہ سننے، پڑھنے اور دیکھنے والے کی رگوں میں دوڑتے خون میں منتقل ہو جائے۔ خون کی اسی گردش سے قومی شعور دل و دماغ میں روشن ہوتا ہے۔آج قومی ادب یا ادب میں قومی طرزِ احساس کی تشکیل کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ادیبوں شاعروں کو اس عنصر پر توجہ مرکوز کرنا اور اپنے فن میں اُسے بروے کار لانا چاہیے جو قومی، سماجی اور اجتماعی سطح پر ہمارے سیاست دانوں کی ساری جمع، تفریق اور تقسیم کے باوجود نہ صرف یہ کہ موجود ہے، بلکہ ہمارے قومی شعور و احساس کے مرکز میں کارفرما ہے۔

ادب، بلکہ ہر سنجیدہ سرگرمی کے بارے میں آج عالمی سطح پر انسانی رویہ بدل چکا ہے۔ ہم بھی اپنی سطح پر اس عالمی منظرنامے کا حصہ ہیں۔ یہ سب کچھ ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔ اس ساری تگ و دو کی آخری منزل تو وہی ہے کہ سات آٹھ ارب نفوس پر مشتمل اس پورے کرئہ ارض کی ساری آبادی کو اپنے احوال کی نوعیت کے شعور و احساس سے عاری ایک مجہول زندگی گزارنے والے انبوہ یا مشینی قسم کے معاشرے میں تبدیل کر دیا جائے، تاکہ ایک بہتر اور حال مست کنزیومر سوسائٹی معرضِ وجود میں آئے۔ یہ جو آئے دن انسانیت سوز اور تہذیب کش واقعات مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک کسی قسم کے اختصاص کے بغیر رونما ہو رہے ہیں کہ جن پر باشعور لوگوں کی روح لرز اٹھتی ہے، یہ بڑی حد تک بوجوہ اور بامقصد ہیں۔

اس نوع کے واقعات ابھی انسانی احساس کو اتھل پتھل کرتے ہیں، لیکن ان کے خدانخواستہ بار بار ہونے اور ہر بار ایک اگلے مرحلے کی سفاکی، جارحیت، بے حیائی، بے مہری، لغویت اور لایعنیت کے نشان کو سامنے لانے کی وجہ سے رفتہ رفتہ انسانی آبادی کے شعور و احساس میں خلل پیدا ہونے کا تناسب بدل جائے گا اور پھر ان سب چیزوں کی طرف خاکم بدہن انسانی رویہ آخرِکار ردِعمل سے عاری ہو جائے گا۔ 

یہ ہے وہ آخری منزل جس کی طرف ہزاروں برس کی انسانی تہذیب و تمدن کے کارواں کو ہانکنے کے لیے تمام تر ممکنہ ذرائع بروے کار لائے جارہے ہیں۔لے دے کر صرف ادیب شاعر ہی رہ جاتے ہیں، جن سے اس محاذ پر ایک زندہ اور باشعور انسان کی جستجو، کاوش اور عمل کی امید، توقع اور آرزو کی جاسکتی ہے، بشرطے کہ انھیں وقت کے اس تناظر میں اپنی حیثیت اور ذمہ داری کا احساس ہو۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔

تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی