مختلف تحقیقات سے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ عظیم شخصیات کی متاثر کن کہانیاں ہمارے دماغ پر مثبت اثر ڈالتی ہیں اور ہمیں زیادہ پر زور، فیاض بننے اور زندگی کے بارے میں اپنے مجموعی نقطہ نظر کو بہتر بنانے میں مدد کرتی ہیں۔ آج ہم جس شخص کے بارے میں بات کریں گے، اْس شخصیت نے چین کی پوری معیشت اور انٹرنیٹ انڈسٹری کو اکیلے ہی بدل دیا تھا۔ اس ایک ایسےشخص کے بارے میں بتائیں گے، جس نے چین کی پوری معیشت اور انٹر نیٹ انڈسٹری کو بدل دیا۔ اس کی زندگی تاریخ رقم کرنے والی کسی بھی عظیم شخصیت کی کہانی سے کم نہیں۔ یہ کہانی ہے ’’جیک ما ‘‘کی۔
’’جیک ما‘‘ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی’’ ای کامرس ‘‘کمپنیوں میں سے ایک کمپنی ’’علی بابا‘‘ کا بانی ہے۔اپنی کمپنی کے عالمی ریکارڈ 267بلین ڈالر مالیت کی وجہ سے اب وہ باضابطہ طور پر 25بلین ڈالر کی تخمینی مالیت کے ساتھ دنیا کے سب سے امیر لوگوں میں سے ایک ہے۔ جیک ما کے پاس علی بابا میں 7.8 فیصد اور علی پے میں 50 فیصد حصص ہیں۔ دنیا کے کسی بھی دوسرے ارب پتی کی طرح جیک ما کی کہانی بھی ایک ارب پتی کی داستان لگتی ہے، جس نے اندھیرا نہیں دیکھا۔ لیکن اوپر نظر آنے والے نمبروں سے غلط اندازہ نہ لگائیں، یہ اعداد و شمار کسی کو بھی گمراہ کر سکتے ہیں۔
دیگر ارب پتیوں کی طرح جیک ما کی کامیابی کا راستہ جتنا آسان دکھائی دیتا ہے، اتنا تھا نہیں، کیونکہ نہ یہ کسی امیر ماں باپ کے ہاں پیدا ہوا اور نہ ہی اس کے گھر کے نیچے کوئی تیل کا کنواں تھا، جسے بیچ کر اُس نے ڈھیر ساری دولت اکھٹی کر لی، بلکہ یہ ایک انتہائی متوسط گھرانے میں پیدا ہوا۔ جیک ما کو آج اس مقام تک پہنچنے میں بہت مشکلات پیش آئیں۔ جہاں وہ آج ہے اور جہاں وہ آج سے 25برس قبل تھا، اِس کی زندگی پر ایک مکمل فیچر فلم عکس بند کی جا سکتی ہے، جو یقینا بہت سو کو متاثر کرے گی۔
ما یون عرف جیک ما ، اْن ارب پتیوں میں سے ایک ہے جس کا ا?غاز نہایت عاجزانہ تھا۔ اس کے والدین روایتی موسیقار،کہانی سنانے والے تھے۔سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن کے 1972 میں ہانگزو کے دورے سے ان کے آبائی شہر میں سیاحت کی صورتحال بہتر ہوئی تو جیک اس موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔ بچپن سے انگریزی سیکھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا، اس ضمن میں روزانہ ایک کام یہ کرتاکہ صبح سویرے سائیکل پر سوار ہو کر قریبی پارک چلاجاتا، جہاں وہ غیر ملکیوں کو مفت میں انگریزی ٹور گائیڈ کی سہولیات مہیا کرتا،پھر اِس کی ملاقات ایک غیر ملکی لڑکی سے ہوئی جس نے اسے جیک کا عرفی نام دیا ،کیونکہ اِن کے اصل نام کے ہجے کرنا غیر ملکیوں کے لئے مشکل تھا۔
وقت کے ساتھ جیک کا انگریزی سیکھنے کا شوق بڑھتا چلا گیا اور آخر یہ شوق اسے چین کی’’ Hangzhou Dianziیونیورسٹی لے آیا،جہاں سے اس نے انگریزی میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی ، بعدازاں 12ڈالر ماہانہ تنخواہ کے ساتھ انگریزی کے استاد کے طور پر پڑھانا شروع کر دیا۔ یہاں سے اْس کی زندگی کے اْس حصے کا آغاز ہوتا ہے، جہاں سے کہانی ایک دلچسپ موڑ لیتی ہے۔
ویسے تو جیک ما ایک انتہائی خوش قسمت شخص ہے جو ایک لمحے میں ارب پتی بن گیا، لیکن اس ایک ’لمحے‘ سے قبل اْسے کتنے پاپڑ بیلنے پڑے یا کتنی مرتبہ مسترد کیا گیا، یہی جیک کی اصل داستان ہے۔ جیک ما تو یہ تک کہتا ہےکہ شاید مجھ سے زیادہ مرتبہ چین میں اور کسی شخص کو مسترد نہیں کیا گیا۔
بچپن میں جیک ما اپنے پرائمری اسکول کے امتحانات میں ایک بار نہیں بلکہ دو بار ، جبکہ مڈل اسکول کے امتحانات میں تین بار فیل ہوا۔ ہائی اسکول کے بعد یونیورسٹیوں میں اپلائی کرتے وقت، جیک نے ہانگزو نارمل یونیورسٹی میں داخلہ لینے سے پہلے تین بار داخلہ کے امتحانات میں ناکامی کا سامنا کیا۔ یہاں تک کہ داخلے کے لیے ہارورڈ یونیورسٹی کو دس بار درخواست لکھی لیکن ہر بار مسترد کر دیا گیا۔ یہ صرف اِن کی تعلیمی زندگی کا عرصہ تھا، اب آگے چلتے ہیں۔
بیچلر کی ڈگری کے دوران اور بعد میں جیک نے کئی جگہوں پر نوکری حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ یونیورسٹی میں داخلے کے لیے تین سال گزارنے کے بعد، جیک 30 بار درخواست دینے کے بعد نوکری حاصل کرنے میں ناکام ہوا،جیک نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ "جب کے ایف سی کی پہلی برانچ چین میں کھلی تو کل 24چینی باشندوں نے نوکری کے لیے اپلائے کیا، ان 24میں سے 23افراد کو نوکری پر رکھ لیا گیا، لیکن میں وہ واحد شخص تھا، جسے نوکری نہیں دی گئی۔
اسی طرح جب میں نے پولیس فورس جوائن کرنے کا فیصلہ کیا تو 5 درخواست دہندگان میں سےمیں واحد تھا، جس کی درخواست یہ کہہ کر مسترد کر دی گئی کہ آپ کی صحت اِس نوکری کے لیےصحیح نہیں۔ اس کے علاوہ، اپنی کاروباری سرگرمیوں میں، جیک ما دو ابتدائی منصوبوں میں بْری طرح ناکام رہا۔ لیکن اُس نے خود کو بڑے خواب دیکھنے اور بار بار کوشش کرنے سے نہیں رکنے دیا۔
جب ٹی وی میزبان نےجیک سےسوال کیا کہ، آپ زندگی میں اتنی بار ناکام ہو چکے ہیں، اِس کے باوجود کوشش کیوں کر رہے ہیں؟ اِس کا تھا کہ ’’میں نے ناکامی کی عادت ڈال لی ہے۔‘‘ جیک ما نے مسترد کیے جانے کے درد پر قابو پانا سیکھا اور کوشش جاری رکھنے کو اپنی کامیابی کا واحد راستہ جانتے ہوئے آگے بڑھتارہا، آخرکار اپنی تمام تر ناکامیوں کے بعدبھی جیک ما نے 1995 میں ہائی ویز کی تعمیر سے متعلق ایک حکومتی منصوبے کے لیے امریکہ کا دورہ کیا،جہاں اس نے زندگی میں پہلی مرتبہ انٹرنیٹ اور کمپیوٹر جیسی جدید ٹیکنالوجیز دیکھیں۔
اس زمانے میں چین میں کمپیوٹر بہت نایاب تھے، یہاں تک کہ انٹرنیٹ اور ای میل جیسی ٹیکنالوجیز کے حوالے سے چین کے لوگ جانتے تک نہ تھے۔ امریکا میں کمپیوٹر دیکھ کر جیک ما ،کافی حیران ہوا ، اس نے جب پہلی مرتبہ انٹرنیٹ استعمال کیا تو’موزیک براوزر‘ پر سب سے پہلے جو لفظ تلاش کیا وہ تھا’’Beer۔ جیک ما یہ دیکھ کر کافی خوش ہوا کہ اْس کے سرچ کیے گئے لفظ کے مختلف نتائج سامنے آئے اور دنیا بھر سے مختلف ممالک کی بیئرز سے متعلق ویب سائٹس سامنے ائیں، لیکن ایک بات نے جیک کو کافی مایوس کیا کہ چین جو اْس زمانے میں تیزی سے ترقی کی جانب بڑھ رہا تھا، کسی بھی چینی کمپنی کی بیئر انٹرنیٹ پر موجود نہیں تھی۔ اس کے بعد جیک ما نے انٹرنیٹ پر 'چین کا لفظ تلاش کیا، اور اس مرتبہ بھی چین کے حوالے سے کوئی ایک نتیجہ بھی سامنے نہیں ایا، یہ صورتحال دیکھنے کے بعد جیک ما نے فیصلہ کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ چین اور اس کے عوام کو انٹرنیٹ سے متعارف کروایا جائے۔
جب جیک ما نے انٹرنیٹ پر سرمایہ کاری کرنے اور کاروبار کرنے کا ارادہ کیا تو اْس وقت اْس کے والدین، اْن کے رشتہ داروں اور دوست احباب کسی کو بھییقین نا تھا کہ اْن کا یہ منصوبہ کبھی کامیاب ہو گا۔ لوگ جیک ما کے اس منصوبے کو اِس لیے رد کر رہے تھے کیونکہ’انٹرنیٹ‘ چین میں ایک نئی چیز، نیا خیال تھا۔ جیک ما نے انٹرنیٹ پر کام کرنے کا فیصلہ تو کر لیا تھا، لیکن اْس کے پاس اِس پر سرمایہ کاری کرنے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ اس ضمن میں اُس نےچین کے مقامی بینک کا دروازہ کھٹکھٹایا اور 3ہزار ڈالر کا قرض مہیا کرنے کی درخواست کی۔
بینک کے چکر لگاتے اور اْن کی شرائط پر عمل درآمد کرتے جیک ما کو 3ماہ کا وقت لگ گیا، لیکن بینک نے قرض فراہم کرنے سے انکارکر دیا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کسی شخص کے ٹوٹ جانے اور زندگی سے مایوس ہو جانے کے لیے اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ لیکن جیک ما نے ہمت نہ ہاری اور 40سے زائد سرمایہ کاروں سے نئی کمپنی ، نئے آئیڈیاز میں سرمایہ کاری کے لیے درخواست کی، لیکن تمام کے تمام سرمایہ کاروں نے صاف انکار کر دیا۔ کوئی بھی ’علی بابا‘ کے ماڈل کو ایک کامیاب ماڈل ماننےکےلئے راضی نہیں تھا۔
جیک ما نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ صرف ایک چیز انہیں اپنے ارادے کے ساتھ مضبوطی سے ڈٹے رہنے کے لیے مجبور کیے ہوئے تھی اور وہ تھا،انٹرنیٹ سے متعلق نظریہ۔ اْس وقت میرے ذہن میں صرف یہ چیز تھی کہ انٹرنیٹ مستقبل میں بہت بڑی تبدیلی لا سکتا ہے، تاہم یہ یقین نہ تھا کہ یہ خیال اتنی بڑی تبدیلی لے آئے گا کہ آج ’علی بابا‘ میں 2لاکھ 51ہزارسے زائد ملازمین کام کر رہے ہیں اور اِس کمپنی کی نیٹ ورتھ 165بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔مجھے یقین تھا کہ کوئی بہت دور میرا انتظار کر رہا ہے اور مجھے اپنے اس یقین کو سچ ثابت کرنے کیلئے بہت زیادہ جدوجہد کرنا پڑے گی اور یہی میری زندگی کا سب سے سخت ترین دورانیہ تھا۔‘‘
جیک ما میں لوگوں کو قائل کرنے کی صلاحیت ہے، اس نے اپنے اردگرد سے کمپیوٹر اورانٹرنیٹ میں دلچسپی رکھنے والے 18افراد کے ذریعے 50ہزار ڈالر آخر اکٹھے کر لیے اور اپنے ڈریم پروجیکٹ (Dream project) کا آغاز کیا۔ لیکن مسلسل تین سال دن رات جدوجہد کرنے کے باوجود وہ اپنے اس منصوبے سے ایک ڈالر کی کمائی بھی نہ کر سکا۔
ایک انٹرویو میں جیک ما سے میزبان نے سوال کیا کہ ’’آپ نے 3سالوں میں ایک ڈالر بھی نہیں کمایا اور آپ اتنے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں۔ ‘‘جیک ما کا جواب تھا۔۔۔’’یہ انٹرنیٹ ہے۔‘‘
میزبان نے کہا ،’’ٹھیک ہے! لیکن آپ کا نقطہ کیا ہے؟، کیا آپ ایک ارب پتی ہیں؟‘‘۔۔۔ جیک ما کا جواب تھا۔۔۔ ’’ابھی تو نہیں، ہاں میں پْرامید ہوں۔‘‘
اب سوچنے اور سمجھنے والی بات یہ ہے کہ 3سال تک مسلسل محنت کے باوجود جو کمپنی 1ڈالر نہیں کما سکی، اْس کے 18مالکان اور جیک ما کیسے خود کو چوتھے برس بھی کام جاری رکھنے پر مجبور کیے ہوئے تھے۔ اس کا سادہ سا جواب ہے،’’ عوام کا فیڈ بیک‘‘۔ جیک ما کو ’علی بابا‘ سے شاپنگ کرنے والے صارفین کے چائنہ بھر سے خط موصول ہوتے تھے، جس میں لوگ یہ کہہ کر اْس کاشکریہ ادا کرتے تھے کہ آپ کی سروس ہمارے لیے بہت فائدے مند ہے، ہم آپ کی مدد تو نہیں کر سکتے، لیکن یہ ضرور کہیں گے کہ اگر آپ ایسے ہی کام کرتے رہے تو ایک دن ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔ اس اچھے فیڈ بیک نے جیک ما اور اْن کی کمپنی کو اچھے مستقبل کی ایک جھلک دکھلائی۔
بالا آخرعلی بابا گروپ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا گیا۔ آج 16برس بعدیہ گروپ‘ چین اور دنیا کے سب سے زیادہ ویلیوایبل کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ آج وہی لوگ جنہوں نے جیک ما اور اْن کے کریزی خیالات کو مسترد کر دیا تھا وہ آج جیک ما سے کہتے ہیں کہ ’’آپ بہت اسمارٹ ہیں آخر آپ نے اس طرح کی بڑی کمپنی کیسے قائم کر دی۔‘‘
31سال کی عمر میں اپنی پہلی کامیاب کمپنی شروع کرنے اور کبھی بھی کمپیوٹر پر کوڈ کی ایک لائن نہ لکھنے یا کسی کو کچھ فروخت نہ کرنے کے بعد بھی، جیک ما ’علی بابا ‘ کودنیا کے سب سے بڑے ای کامرس نیٹ ورکس میں سے ایک بنانے میں کامیاب ہو ہی گئے۔ آج یہ کمپنی تیزی سے ترقی کرتی پوری دنیا میں پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ جیک ما نے اتنی بڑی کمپنی کا تصور بھی نہ کیا تھا۔ قصّہ مختصر ناکامیوں سے دل برداشتہ نہ ہوں اور کچھ نہ کچھ کرتے رہیں تو ایک دن کامیاب ہو ہی جاتے ہیں۔