گزشتہ دنوں وطن عزیز میں چند ایسے افسوس ناک اور تشویش ناک واقعات پیش آئے جو اگرچہ بظاہر سیاسی تناظر میں دیکھے جارہے ہیں لیکن اگر غور کیا جائے تو ان واقعات کا صرف سیاسی پہلو نہیں بلکہ ان کے سماجی معاشرتی، دینی اور خاص طور پر ملک و ملت کے مستقبل کے حوالے سے جو پہلو ہیں ان کو ضرور سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ ان واقعات کی بنیادوزیرآباد میں پاکستان تحریک انصاف کی ریلی پر فائرنگ کا مبینہ واقعہ ہےان واقعات کا ایک تو سیاسی پہلو ہے جس پر اظہار خیال اور اظہار رائے کی نہ ضرورت ہے اور نہ ہی یہ ہمارا شعبہ اور موضوع۔۔۔ چونکہ سیاسی اعتبار سے کچھ عرصے سے ایسی شعبدہ بازیاں،ایسی غلط بیانیاں اور ایسے ایسے معاملات سامنے آرہے ہیں کہ کسی بھی واقعہ کو جس انداز سے پیش کیا جارہا ہوتا ہے اس پر من و عن یقین کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا اور نہ ہی ان پر کوئی حتمی رائے قائم کی جا سکتی ہے اس لیےلانگ مارچ پر فائرنگ کے حوالے سے بھی لوگوں میں واضح تقسیم موجود ہے کچھ لوگ اسے حقیقی واقعہ سمجھ رہے ہیں اور کچھ ان دعووں پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں۔حقیقت کچھ بھی ہو لیکن ان واقعات سے جڑے ہوئے چند پہلو بہت خطرناک، افسوس ناک اور تشویش ناک ہیں۔ سب سے پہلا افسوس ناک امر سیاسی انتہا پسندی ہے ،یہ سیاسی انتہا پسندی راتوں رات پروان نہیں چڑھی اس کا طویل پس منظر ہے لیکن یہ اتنی خطرناک چیز ہے جس کی وجہ سے ملکی حالات اس نہج تک آگئے ہیں کہ یہ سیاسی انتہا پسندی ، عدم برداشت اور گالی اور گولی کا کلچر اس ملک کے ہر طبقے اور ہر گلی کوچے کو متاثر کر سکتا ہے۔یہ جو آگ ہے یہ ہر دامن تک پہنچ سکتی ہے اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کلچر کی روک تھام کےلیے پوری سنجیدگی اور اہتمام سے کردار ادا کیا جائے دوسرا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اس سیاسی انتہا پسندی کو بھی مذہب کے ساتھ نتھی کرنے کی کوشش کی گئی اور سیاسی انتہا پسندی کو محفوظ راستہ دینے کےلیے مذہبی انتہا پسندی کا بہانہ تراشا گیااور یہ کوئی آج کی بات نہیں پچھلی کئی دہائیوں سے سیاسی، جغرافیائی اور بین الاقوامی امور کا سارا ملبہ مذہب اور مذہب پسندوں پر ڈالنے کے لیے مذہبی انتہا پسندی کی اصطلاح گھڑی گئی۔اس موقع پر مذہبی رہنماؤں کو بالخصوص اور دیگر تمام لوگوں کو بالعموم مذہبی انتہا پسندی کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کی سخت حوصلہ شکنی کرنا ہوگی اور سیاسی انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا۔اس حادثے کا تیسرا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ حادثہ وزیر آباد میں ہوا۔اصل حقائق ابھی سامنے نہیں آئے۔واقعہ کی مکمل تفصیلات تک منظر عام پر نہیں آئیں لیکن اس سے قبل ایک جنونی جتھہ کورکمانڈر ہاؤس پشاور پر حملہ آور ہو چکا تھا۔ کچھ لوگوں نے وزیر داخلہ کے گھر اور کچھ لوگوں نے گورنر ہاؤس لاہور کا گھیراؤ کرلیا تھا اور ملک بھر میں توڑ پھوڑ شروع ہو چکی تھی۔یہ کتنی خطرناک اور افسوسناک روش ہے کیا ہم اپنے ملک اور اپنے گھر کو یوں اپنے ہاتھوں سے آگ لگا دیں گے؟ _کل خدانخواستہ کوئی اور واقعہ پیش آتا ہے تو کیا اس کے نتیجے میں ملک میں انارکی اور فسادات کا دروازہ کھول دیا جائے گا۔یاد رہے کہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں اگر بغور دیکھا جائے تو جس طرح عرب بہار کے نام پر کئی عرب ممالک کو آگ اور خون میں دھکیلا گیا خاکم بدھن یوں لگتا ہے جیسے پاکستان کو بھی کسی بند گلی میں دھکیلنے کی منصوبہ بندی ہو چکی ہو۔عرب بہار کے ابتدائی ایام اور پھر اس کا بھیانک انجام سامنے رکھا جائے تو یہ چند اشارے ایسے ہیں جن کی وجہ سے ہم سب کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں اور وطن عزیز کو عرب بہار کے بعد بعض عرب ممالک کو درپیش صورتحال جیسی صورتحال سے بچانے کے لیے پوری طرح سے فکرمند ہو جانا چاہیے۔وزیرآباد واقعہ کے بعد جو سب سے افسوسناک اور خطرناک چیز سامنے آئی وہ یہ کہ پہلی دفعہ افواج پاکستان کے ایک حاضر سروس افسر کا نام لے کر انہیں واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا گیا یہ کوئی معمولی بات نہیں یہ کسی ایک افسر کا نام نہیں بلکہ افواج پاکستان کے پورے نظام پر عدم اعتماد اور شکوک وشبہات کا اظہار ہے۔اس سے قبل سیاستدان ایک دوسرے کے بارے میں الزام تراشیاں یا بیان بازی کرتے رہے لیکن افواج پاکستان کو اس طرح اعلانیہ پہلی دفعہ ہدف بنایا گیایاد رہے کہ پاک فوج تو ہمارا آخری حصار ہے اور دشمن کی کوشش ہے کہ یہ حصار توڑ دیا جائے،عوام اور فوج کے مابین عدم اعتماد اور غلط فہمیاں پیدا کی جائیں۔تحقیق وتفتیش کے ضابطے مکمل ہونے سے قبل وزیرآباد واقعہ کی آڑ میں افواج پاکستان کے خلاف ایسی مہم جوئی دشمن کے مقاصد کی تکمیل کے مترادف ہے۔ابھی چند دن قبل ایک صحافی کے قتل کا سارا معاملہ بھی افواج پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی گئی اور تازہ واقعے میں تو بہت کھل کر جماعتی پالیسی کے طور پر پاک فوج کو ٹارگٹ کیا گیا جو بلاشبہ خطرے کی گھنٹی ہے اور اس سلسلے کو یہیں روکنا ہوگا ورنہ ملکی سالمیت اور استحکام کےلیے یہ صورتحال بہت زیادہ الارمنگ ہے۔ موجودہ صورت حال میں سیاسی و مذہبی جماعتوں ،مقتدر حلقوں عدلیہ ، میڈیا اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کی مجلس مشاورت کی فوری ضرورت ہے جس میں ایسا میثاق اور ضابطۂ اخلاق طے کیا جائے جو ملک و ملت کو اس ہیجانی کیفیت اور موجودہ صورت حال کے خطرناک نتائج و عواقب سے محفوظ رکھے ، اللہ رب العزت وطن عزیز کی حفاظت فرمائیں آمین۔