تحریر: نذیر احمد قریشی۔۔۔ لوٹن نومبر وہ بدقسمت مہینہ ہے کہ جب 1947میں اس مہینے کے دوران ڈوگرہ حکمران ہری سنگھ کی فوج اور مسلح جتھوں کے بے ہنگام ہجوم اور پیرا ملٹری فوجی دستوں نے جموں کشمیر کے علاقے میں 4لاکھ کے لگ بھگ کشمیری مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا۔نومبر 1947 کے وحشیانہ قتل عام کی یاد میں ہی کشمیر کے مسلمان ہر سال 6 نومبر کو یوم شہدائے جموں مناتے چلے آرہے ہیں اور جموں کے شہدا کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں ۔ علامتی طور پر اسی روز لوٹن میں بھی ایک اجلاس کا اہتمام کیا گیا جس میں شہدائے جموں کے مشن کی تکمیل کے لیے عزم کا اظہار کیا گیا۔ یہاں ہم ایک مختصر جائزہ پیش کر رہے ہیں کہ اس،واقعہ کی ایک بڑی وجہ جموں سے مسلم اکثریت کو ختم کرنا تھا ۔یہ مذموم عزائم ہری سنگھ کے تھے ۔اس واقعہ میں ایک بڑی تعداد جو دو سے چار لاکھ کے قریب ہے مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا تھا اور 5 لاکھ کے قریب مسلمان جموں سے ہجرت پر مجبور کر دیے گئے تھے۔ جموں کے قتل عام کی اصل تعداد ابھی تک نامعلوم ہے کیونکہ سرکاری ریکارڈ نے مسلمانوں کے قتل عام کی تفصیلات کو دبانے کی پوری کوشش کی ہے۔ مگر یہ تعداد لاکھوں میں تھی جبکہ اس واقعہ کے نتیجے میں جموں میں مسلمان اقلیت میں آ گئے جو واقعہ سے پہلے کل آبادی کا 61فیصد تھے لیکن بدقسمتی سے کشمیری مسلمانوں کا قتل عام بند نہیں ہوا اور اب وادی کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی مودی کی سازش جاری ہے۔ گویا ہری سنگھ سے مودی تک یہ سلسلہ جاری ہے ۔ آج دنیا بھر میں کشمیری ہر سال کی طرح 6 نومبر یوم شہدائے جموں منا رہے ہیں تاکہ ان لوگوں کو یاد کیا جاسکے جنہیں 1947 میں ڈوگرہ افواج نے بے دردی سے قتل کیا تھا۔ نوجوان نسل کو بتایا جائے کہ ہری سنگھ کے سری نگر سے آنے کے بعد مہاراجہ اور ان کی انتظامیہ نے فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا تھاجموں شہر میں مسلمان اس وقت مسلم کانفرنس کے زیر اثر تھے جو اس وقت کشمیری مسلمانوں کی ایک نمائندہ جماعت تھی۔ تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مہاراجہ نے جموں میں فرقہ پرست آر ایس ایس کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ بلراج مدھوک، کیدار ناتھ ساہنی، وجے ملہوترا اور مدن لال کھرانہ جیسے آر ایس ایس کے اہم رہنما 1940 کی دہائی کے دوران آر ایس ایس کے انچارج کی حیثیت سے جموں میں تعینات رہے۔ گورنر چیت رام چوپڑا اور ڈی آئی جی پولیس بخشی ادھے چند نے بھی اس میں اہم کردار ادا کیا پھر انتظامیہ نے بھی اس قتل عام میں حصہ لیا۔ منظم مسلح ہندو جتھے بھمبھر تک پہنچ گئے گئے تھے مگر سات دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی کشمیریوں کے مصائب ختم نہیں ہوئے ہیں کشمیری اب ڈوگرہ راج میں نہیں رہ رہے لیکن بھارتی غیر قانونی قبضے کے باعث ان کے حالات بدسے بدتر ہو چکے ہیں۔ اس وقت بھارت کشمیر میں تقریباً 10لاکھ فوجی تعینات کیے ہوئے ہے جس کی وجہ سے یہ دنیا کا سب سے زیادہ فوجی علاقہ ہے جو انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث رہا ہے۔ آج ہندوستان مقبوضہ کشمیر میں آبادیاتی تبدیلی کی اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے جو ہری سنگھ نے اپنائی تھی۔ بلکہ اس سے بھی بدتر حالات درپیش ہیں آج کشمیری عفت مآب خواتین کے ساتھ عصمت دری کو بھارت کی مسلح افواج جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں بھارتی حکومت نے مقامی لوگوں کے جائیداد کے حقوق کو تبدیل کر دیا ہے جس سے کشمیری قیادت کو خدشہ ہے کہ نئے قوانین بھارت کے واحد مسلم اکثریتی علاقے کی ڈیموگرافی کو تبدیل کردیں گے کشمیر میں آبادیاتی تبدیلی لانے کے لئے ہندوستان کی کوشش جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔ 1977کے اضافی پروٹوکول 1کے آرٹیکل 85 (4) (اے) میں یہ فراہم کیا گیا ہے کہ قابض طاقت کی طرف سے اپنی شہری آبادی کے کچھ حصوں کو اس علاقے میں منتقل کرنا جس پر اس کا قبضہ ہے یہ پروٹوکول کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ کشمیر پر بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مسلسل نظر انداز کیا ہوا،ہے ہم کشمیری بین الاقوامی برادری سے اپیل کرتے ہیں وہ بھارت کے غیر قانونی، یکطرفہ اور اشتعال انگیز اقدامات کا فوری نوٹس لے پیشتر اس کے کہ بہت دیر ہو جائے۔