• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ثانیہ اقبال

بعض والدین بچپن سے ہی بچوں کے دلوں میں کسی چیز کاخوف بیٹھا دیتے، پھر آہستہ آہستہ یہ خوف ساری زندگی کے لیے بچے کے دل میں گھر کر لیتا ہے۔اس طر ح کے بچے زندگی کے ہر موڑ پر ذرا ذرا سی بات پر خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ ان کی تربیت میں یہ نکتہ پیش نظر رکھنا بہت ضروری ہے کہ خوف زدہ بچے بڑے ہو کر کئی قسم کے نفسیاتی مسائل اور خود اعتمادی کی کمی میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔

بچوں کو مناسب آزادی اور اچھا ماحول فراہم کرنا والدین کا اولین فرض ہے۔بچوں کو کچھ اختیارات بھی دیں، تاکہ وہ انہیں استعمال کرکے اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کرسکیں۔ بعض بچے بہت زیادہ حساس یا ڈر پوک ہوتے ہیں۔ ذراسی بات یا غلطی پر ان کے ذہن خوف سے بوجھل ہو جاتے ہیں اور طرح طرح کے وہم اور خدشے ان کے دل میں پیدا ہونے لگتے ہیں۔

بچوں سے اکثر اوقات پیسے کھو جاتے ہیں یا کوئی چیز ٹوٹ جاتی ہے تو ماں باپ ڈانٹتے یا مارتے ہیں تو بچے خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ والدین کا رویہ ہمدردانہ اور شفقت بھرا ہونا چاہیے لیکن بچے کو ڈانٹ ڈپٹ کر رکھنا بھی ضروری ہے ورنہ وہ خود سری میں مبتلا بھی ہو سکتا ہے۔والدین اور بڑوں کا تھوڑا بہت خوف بچے کے دل میں ضروری ہے، تاکہ وہ بے راہ روی اور غلط قسم کی حرکتوں کا مرتکب نہ ہو سکے۔

بےجا پابندیوں کے سبب بچوں کو آزادی سے کھیل کھلنے کی سہولت میسر نہیں ہوتی ہر وقت ان کو یہی ڈر لگا رہتا ہے اگر یہ کیا تو والدین سے ڈاٹ پڑے گی۔ بچوں کو اس صورتحال سے محفوظ رکھنے کے لیے والدین کو چاہیے کہ وہ محبت شفقت کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں اور نہ ہی اس قسم کا رویہ اختیار کریں، جس سے بچہ خوف زدہ رہے۔

بعض اوقات بچے کھیلتے کھیلتے کسی ایسی چیز کو پکڑ لیتے ہیں، جس کے ٹوٹنے کا اندیشہ ہوتا ہے تو کچھ گھروں میں ایک دم چیخ مار کر بچے کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے اورا س طر ح چیخ سے وہ چیز خود بہ خود گر کر ٹوٹ جاتی ہے ، جس سے بچہ مزید خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ ماں یہ کام پیار اور آہستہ لہجے میں بھی کر سکتی ہے، تاکہ بچہ ٹوٹنے والی چیز کو دوبارہ نہ چھوئے۔ اکثر مائیں کسی عام سی بات پر ناراض ہو کر بچے کو مارتی ہیں۔ اس طرح بچے کو جسمانی تکلیف ہوتی ہے۔

ماں کو یہ سوچ کر سکون تو آجاتا ہے کہ بچہ اس پٹائی سے خوف کھانے لگا ہے، مگر ان کو شاید یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس طرح بچے کی جذباتی زندگی بگڑ کر رہ جاتی ہے۔ بچوں کے بیشتر خوف اسی طرح کی ننھی ننھی باتوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ گھر کے دیگر افراد اور نوکروں کو یہ ہدایت کرنا چاہیے کہ وہ بچے کو جن ، بھوت ،چڑیل وغیرہ سے نہ تو دھمکائے، نہ ہی کچھ بتائیں۔ خوف کے باعث اکثر کئی ذہنی بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں۔

بچوں کو کسی حد تک ضرور ڈرائیے،کیونکہ یہ بہت ضروری ہے کہ بعض ایسے ڈر و خوف ہیں جن کا بچوں میں موجود ہونا لازمی ہے۔ مثلاً نقصان دینے والے مشاغل اور ضرور رساں اشیاء پربے سوچے سمجھے ہاتھ ڈال دینے کے خوف مفید ہوتے ہیں۔ بجلی کے تاروں، ریڈیو ،ٹی وی کے سوئچ وغیرہ کو چھونا۔

ان تمام باتوں کو آسان فہم زبان میں بچوں کو سمجھایا جائے کہ ان کو چھونا نہیں چاہیے۔ اس قسم کی تربیت سے بچوں میں صحیح حالت سمجھنے کی فراست پیدا ہو جاتی ہے اور وہ فوراً بھانپ لیتے ہیں کہ کس خطرے سے دور رہنا بہتر ہے۔